رَامہ جھیل کی طرف:
رامہ میدان کے پیچھے مشرقی سَمت،نانگا پربت کے پہلو میں رامہ جھیل ہے۔ایک کمزور سی سڑک،جس پر ایک وقت میں صرف ایک ہی گاڑی گُزر سکتی ہے،رامہ جھیل تک لے جانے کا اَحسان کرتی ہے۔رامہ میدان کے اِختتام پہ ہم بائیں ہاتھ مُڑے تو ایک اورخیمہ بستی راستے کے دونوں طرف آباد تھی۔خُوبصورَت ڈاک بنگلوں کا کرایہ زیادہ تھا۔لِہٰذا ہم نے واپسی پہ کوئی خیمہ لینے کافیصلہ کرلیا تھا۔اَگر خیمہ نہ بھی مِلتا تو ہمارے پاس ایک خیمہ موجود تھا۔جس کی کُچھ ٹانگیں نہیں تھیں۔مگراُسے بیاڑکے درختوں سے باندھ کر رات بسر ہوسکتی تھی۔گھنے جنگل اور اس میں بسی خیمہ بستیوں سے گُزر کرہم نے ایک نالہ عبور کیا۔یہ نانگاپربت سے پگھل کرآنے والی برف تھی۔اِس میں سخت زور تھا اور بہت شور بھی۔
نالہ عبور کرنے کے بعد ہم ایک ڈھلوان پہ آہستگی سے چڑھنے لگے۔اِردگرد چرواہوں کے کچے ڈھارے اورایک آدھ خیمہ تھا۔جن سے اُپلوں اور بیاڑکے شاخوں کا دھواں نکل رہا تھا۔نانگا کے دامن میں شام آباد ہوگئی تھی۔گاڑیاں سُست روی سے دُبلی،کچی ڈھلوانی سڑک پہ رینگ رہی تھیں۔یہ ڈھلوان کبھی پہاڑ سے برفانی پانی کے ساتھ لائی ہوئی مٹی سے بن گئی تھی۔اِس کانا پُختہ پن ابھی برقرار تھا۔ایک بارش اِس کا نقشہ مِٹا سکتی تھی۔ہم سے آگے کُچھ گاڑیاں جاچکیں تھیں۔اک آدھ پیچھے آرہی تھی۔اَچانک سامنے سے ایک پیجارو آگئی۔تنگ کچے راستے پہ بیک وقت دو گاڑیوں کا گُزرنا ناممکن تھا۔دونوں طرف کے لوگ اُتر گئے سوائے گاڑی بانوں کے،کوئی بھی آگے پیچھے جانے کو تیار نہ تھانہ ہی اس کی گنجائش تھی۔
ہمارے قافلے کی اَگلی گاڑی کی ڈرائیونگ نشت پہ راحیل براجمان تھے۔دوہرے کیبن والی نِسان عاصم صاحب نے سنبھال رکھی تھی۔راحیل نے پہلی دفعہ کِسی لمبے سفر پہ اِتنی عُمدہ ڈرائیونگ کی تھی۔شوق بے خطر کُود پڑا تھا اور عقل تھی محو تماشا۔ایسے میں جب دونوں طرف کے لوگ ایک دُوسرے کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔شفقت ایک پھُرتیلا کردار ثابت ہوئے۔فوراً آگے دُور تک دوڑتے ہوئے گئے،راستے اورحالات کا جائزہ لےِا۔اِدھر اُدھر دیکھا اور پیجارو کو آہستہ آہستہ پیچھے جانے کو کہا۔ایک تنگ موڑ پہ سڑک کی اُوپری دیوار سے لگ کرکھڑا ہونے کو کہا۔ڈرائیور نے ہدایت کی تعمیل کی اور گاڑی پیچھے کو رینگنے لگی۔شفقت برابر آنے دو! آنے دو! شاباش ٹھیک ہے،ٹھیک ہے۔بالکل ٹھیک ہے،شاباس،شاباش۔ہاتھ اور زبان سے مسلسل راہنمائی کے بعد آخر کار گاڑی اک تنگ موڑپہ اُوپر کی طرف دیوار سے لگ کرکھڑی ہو گئی،یوں کہ بہ مشکل ایک گاڑی کے گُزرنے کی جگہ بن پائی۔شفقت نے دوبارہ جائزہ لِیا اور راحیل کو آگے سرکنے کو کہا۔ساتھ ہدایات کاسلسلہ جاری رَکھا۔آخر کار ہمارے قافلے سمیت تمام گاڑیاں بخریت گُزر گئیں۔
اِس وقت کوئی بھی غفلت ہوجاتی تو کِسی ایک گاڑی کو نیچے نانگا پربت کے برفیلے پانی میں جانا ہوتا۔قافلہ خاموشی سے آگے کو رینگنے لگا۔سڑک بالکل جھیل کنارے رُک جاتی ہے۔جہاں سڑک ختم ہوتی ہے وہاں نصف درجن گاڑیاں اور سکوٹریں کھڑی تھیں۔ہم گاڑیوں سے اُترے اور جھیل کی طرف پیدل چل دئیے۔آگے ایک گلیشر پڑا سِسک رہا تھا۔بالکل ایسے جیسے کوئی شیر پُر بہار زندگی گُزار کر بڑھاپے میں اپنی ساری توانائی کھو چُکا ہو۔بڑھتی ہوئی آلودگی نے فطرت کی رُونق چھین لی۔اور ایسے کئی گلیشروں کو موت کی نیند سُلا دِیا۔اور کُچھ اَبھی اِس کے لگائے زخموں سے سِسک سِسک کر جان دے رہے ہیں۔کُچھ اِ س آلودہ درندگی کی چوٹیں سہنے کی سکت رکھتے ہیں۔
راستہ اِس گلیشر کے اُوپر سے ہو کر گُزر رہا تھا۔میں گلیشر پہ کھڑا تھا۔طاہر ےُوسف میرے نزدیک تھے۔باقی لوگ پیچھے آرہے تھے۔گلیشر کے نیچے ایک چھوٹی سی نیلی جھیل تھی۔اِس کاپانی ایک شفاف ندی کی صُورَت بہہ رہا تھا۔اِس کے خُوبصُورَت ترنم میں ایک برساتی نالے جیسا شور بھی تھا اور وہ تھا نانگا پربت کی پگھلی برف کے پانی کا،جو ایک بڑے طوفانی نالے کی صورَت اَختیار کر گیا تھا۔نانگا پربت کی برف پگھل کر،پانی پہلے ایک جگہ جمع ہو تا، پھر پتھروں سے اُمڈ اُمڈکر پہاڑی نالے کی شکل اَختیار کر گیا تھا۔یہ پتھر مسلسل کٹاؤ اور برف پگھلنے سے ایک وسیع مِٹیالے تالاب کی دِیوار بن گئے تھے۔یہ نالہ جھیل میں نہیں بلکہ ایک دُوسرے نالے کی شکل میں اَستورکی طرف بہتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں