مسئلہ کشمیر اور مولویت

مسئلہ کشمیر اور مولویت
محمود شفیع بھٹی
مان لیا کہ مسئلہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے۔لیکن کیا اس جغرافیائی تنازع کو ہم نے صحیح معنوں میں اجاگر کیا؟ ہم کشمیریوں سے صرف لا الہ اللہ کا رشتہ بیان کرتے ہیں،جو بطور مسلمان ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔لیکن بطور انسان تعلق ابھی تک واضح نہیں ہے۔ ہم آج بھی جموں کے ہندوؤں کو تعصب سے دیکھتے ہیں۔ ہم نے مسئلہ کشمیر کو مذہبی بنیادوں پر تو بہت اجاگر کیا لیکن سیاسی اور سفارتی سطح پر آج بھی ناکام ہیں۔ ہم نے کشمیر ایشو کو ایک مذہبی فریضہ بنا کر دنیائے عالم کو پیش کیا۔لیکن اسکی جغرافیائی اہمیت اور دوطرفہ عوام کا معاشرت سے ہم آہنگ ہونا بیان نہیں کرسکے۔یہ بات بھی درست ہے کہ کشمیریوں کے اندر اسلام کی محبت اور عمل ہم سے زیادہ ہے۔لیکن سفارت کاری کی بساط پر یہ چیزیں نہیں کام آتیں۔
جاوید چوہدری کے بقول آج معیشت ہی سب سے بڑا رشتہ ہے۔ ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد اب تجارت ہے، اس میں کلمہ، مسلمانیت کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا ہے۔ جس کی واضح مثال اماراتی امیر کا دورہ بھارت ہے۔ اماراتیوں کو جب معلوم پڑا کہ گوادر دبئی کو ویران کردے گا، تو انہوں نے ہمارے مدمقابل ایک کافر نسل کے ملک میں باسٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کردیا.
بھارت کا آج سفارتی سطح پر طوطی بول رہا ہے۔دنیا اس کی بات کو اہمیت دیتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ معیشت ہے۔ آج بھارت کی معیشت،بھارت کی آبادی اسکا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ وہ آج سیاہ و سفید کا مالک ہے۔دنیا اسکی ہر بات کو زعفران اور عنبر میں لپٹی ہوئی تصور کرتی ہے۔ یورپ آج بھارت کا دیوانہ ہے۔ یورپ میں سب سے آسان ویزہ بھارتیوں کو ملتا ہے۔ آج یورپ میں بھارت کی کامیاب سفارت کاری ہے۔ ہم تو اقوام متحدہ میں بھی کلبھوشن کا ذکر نہ کرسکے تھے۔ آج دنیا کی بڑی طاقتوں کو اٹھا کر دیکھ لیں سوائے چین کے کوئی ہمارا حمایتی نہیں ہے۔ آج ہم روسی کیمپ میں داخلے کی بات کرتے ہیں،لیکن روس آج بھی کشمیر کو بھارت کا حصہ تصور کرتا ہے۔
ہم نے کشمیر کاز کو اصل نقصان مذہب کو حصہ بنا کر پہنچایا ہے۔ ہم نے آج تک اس ایشو کو سیاسی اور سفارتی سطح پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے نزدیک جہاد اور مجاہد اس علاقے کو فتح کرلیں گے۔ہمیں کیا ضرورت مغرب کو سمجھانے کی،ہمیں کیا ضرورت اس کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت بیان کرنے کی۔ نائن الیون کے بعد دنیا نے اپنی ترجیحات بدلی ہیں۔ ہم نےکشمیر کو مولویت میں انڈیل دیا ہے۔ آج دنیا کس طرح ہم سے متاثر ہو؟ ہم نے کشمیر کے ایشو کو مذہبی فریضہ بنا کر بیان کیا ہے۔ ہم جب انڈین مظالم کی بات کرتے ہیں، تو وہی انڈیا مجاہدین کی بات کرتا ہے۔ کشمیر تحریک میں حافظ سعید کا بڑا عمل دخل ہے،لیکن کیا دنیا حافظ سعید کی بات کو تسلیم کرے گی؟ کیا یورپ انکی باتوں کو غور سے سنے گا ۔
بھارتی سفارت کاری نے کشمیر ایشو کو علاقائی بنا کر رکھ دیا ہے۔ پوری دنیا اسکو بھارت اور پاکستان کا اندرونی معاملہ تصور کرتی ہے۔ انڈین پراپیگنڈے نے تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کردیا ہے۔ اس ساری صورت حال میں کشمیر کے مسئلے کی باگ ڈور اب جہادی نظر یات سے نکال کر ایک حقیقت پسند نظریے میں ڈھلنی چاہیے۔ آج مغرب ملالہ یوسف زئی کو احترام سے دیکھتا ہے، مغرب عاصمہ جہانگیر کو عزت سے دیکھتا ہے اور اسی طرح کی دوسری اعتدال پسند شخصیات بھی شامل ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ اب کشمیر ایشو کو بیان کرنے کےلئے ان شخصیات کا استعمال کرے۔ یہ شخصیات جب مغرب میں کشمیر ایشو بیان کریں گی تو اس کے نتائج مختلف ہوں گے۔
یہ ایسی شخصیات ہیں جن کو گورے غور سے سنتے ہیں، جب یہ لوگ ڈاکومینٹری دکھائیں گے، لیکچرز دیں گے تو اصل بھارتی چہرہ بے نقاب ہوگا۔ ساتھ ساتھ ہمیں تجارتی روابط کو بھی مضبوط کر نا ہوگا۔کیونکہ معیشت سب سے بڑا رشتہ ہے،نہ مولویت اور نہ ہی مذہبیت۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”مسئلہ کشمیر اور مولویت

Leave a Reply