• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکی افواج کے عراق سے واپسی کے دن۔۔۔ ثاقب اکبر

امریکی افواج کے عراق سے واپسی کے دن۔۔۔ ثاقب اکبر

یہ سوال ان دنوں اہم ہوگیا ہے کہ اب جبکہ عراق میں داعش کے خلاف جنگ کامیابی سے اپنی تکمیل کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے تو کیا عراق میں موجود امریکی افواج واپس چلی جائیں گی۔ ہماری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ ہاں چلی جائیں گی۔ ہوسکتا ہے کہ بعض تجزیہ کار اس سے اتفاق نہ کریں، تاہم ہمارے سامنے کئی ایک ایسے دلائل موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ ہم ذیل میں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ امریکہ کو 2003ء میں عراق میں مداخلت کے چند سال بعد ہی یہ فیصلہ کرنا پڑ گیا تھا کہ اس کی افواج بتدریج عراق سے نکل جائیں گی۔ اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ خود عراق کی منتخب سیاسی قیادت کی یہ خواہش تھی کہ امریکہ عراق کے داخلی معاملات اس کے حوالے کرے۔ عراقی عوام بھی بہت جلد امریکیوں سے بدگمان یا نالاں ہونا شروع ہوگئے تھے۔ خود امریکی عوام کی اکثریت بھی یہ سمجھ گئی تھی کہ امریکہ نے عراق پر چڑھائی کے لئے جو بنیاد بنائی تھی، وہ غلط ثابت ہوگئی ہے۔ نیز امریکہ کے اقتصادی ماہرین بھی عراق میں ایک بہت بڑی امریکی فوج کے اخراجات کے حوالے سے اعتراضات کرنے لگے تھے۔ مئی 2007ء میں امریکہ میں ایک سروے کروایا گیا، جس کے مطابق 55 فیصد امریکیوں کی رائے تھی کہ جنگ کے لئے امریکی اقدام غلط تھا۔ 51 فیصد امریکی ووٹرز نے عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کے لئے ووٹ دیا۔

2003ء سے لے کر2007ء کے آخر تک عراق میں بڑھتے بڑھتے امریکی افواج کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار تین سو تک پہنچ گئی تھی۔ آخر کار عراقی حکومت کے ساتھ امریکہ کا ایک معاہدہ طے پایا، جس کے مطابق فیصلہ کیا گیا کہ 31 دسمبر 2011ء تک تمام امریکی افواج عراق سے نکال لی جائیں گی۔ چنانچہ 31 دسمبر سے پہلے پہلے امریکی افواج نے عراق کو چھوڑ دیا۔ سوائے چند ہزار افراد کے جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ تربیت اور مشاورت کے لئے عراق میں موجود رہیں گے۔ فروری 2009ء میں بی بی سی، اے بی سی، این ایچ کے، جیسے بڑے اداروں نے مشترکہ طور پر عراق میں ایک سروے کیا، جس میں عراقی عوام سے پوچھا گیا کہ ان کی مشکلات کی وجہ کیا ہے؟ تو اکثریت نے عراق میں بدامنی کی اہم ترین وجہ غیر ملکی افواج کی موجودگی کو قرار دیا۔ یہ سروے ایک ماہ میں مکمل ہوا۔ اس میں 2228 عراقیوں سے سوالات کئے گئے، جن کا تعلق عراق کے 18 صوبوں سے تھا۔ عراقی اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں پرامید تھے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد عراق کی حالت بہتر ہو جائے گی۔ ان میں اکثر کی یہ رائے تھی کہ عراق پر امریکی فوجی قبضہ ایک غلط ا قدام تھا۔ عراقی حکومت و امریکہ کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکی افواج نے جون 2009ء تک عراقی شہروں کی سیکیورٹی عراقی فورسز کے حوالے کر دی۔ اس سلسلے میں مارچ 2009ء کے آغاز میں امریکہ نے گیارہ فوجی اڈے خالی کر دیئے اور ان کا انتظام عراق کے حوالے کر دیا۔ ان میں بغداد کا بڑا فوجی اڈہ النصر بھی شامل تھا۔ اس دوران میں گاہے امریکی افواج نے شہروں کے اندر مداخلت کی تو اسے عراقی حکومت کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ عراق کے سابق وزیراعظم ابراہیم جعفری بھی عراق میں امریکی مداخلت کی مخالفت کرتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے امریکہ نے عراق پر زور دیا کہ ابراہیم جعفری کو تبدیل کیا جائے، لیکن ان کی جگہ جو نئے وزیراعظم آئے، وہ بھی عراق کی خود مختاری پر یقین رکھتے تھے اور وہ نوری المالکی تھے۔ 9 اپریل 2013ء کو امریکی اخبار واشنگٹن نے عراقی وزیراعظم نوری المالکی کا ایک بیان شائع کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ عراق امریکہ کے ماتحت نہیں بلکہ خود مختار پارٹنر ہے، ضروری نہیں کہ پارٹنرز ہمیشہ ایک ہی رائے رکھتے ہوں بلکہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کا احترام کرتے ہیں۔ اس جذبے سے ہم امریکہ سے کہتے ہیں کہ وہ مختلف ایشوز پر عراقی نقطۂ نظر کو سامنے رکھے۔ نوری المالکی کے دور میں عراقی پارلیمینٹ میں شراب پر پابندی کا ایک قانون منظور کیا گیا، جسے امریکہ نے ناپسند کیا اور کہا کہ یہ عراق کو ایران جیسا مذہبی ملک بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔ عراقی حکومت میں علماء کا اثر و رسوخ ہمیشہ امریکہ کے لئے تشویش کا باعث رہا ہے، لیکن امریکہ کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں، اس لئے کہ عراق کی سب سے بڑی پارٹی الدعوہ میں بڑی تعداد میں علماء اور دانشور موجود ہیں، جبکہ دوسری بڑی پارٹی مجلس اعلٰی کی قیادت بھی علماء کے ہاتھ میں ہے۔ دونوں پارٹیوں کی قیادت کے عراق کی شیعہ مرجعیت کے ساتھ بہت قریبی اور گہرے تعلقات ہیں۔ ماضی میں عراق کے معروف راہنما مقتدیٰ صدر بھی عراقی حکومت سے کہتے رہے ہیں کہ امریکی سفارتکاروں اور فوجیوں کو ملک سے نکالا جائے۔

امریکہ اور عراق کے مابین دیگر مسائل کے علاوہ رفتہ رفتہ ایران کے ساتھ عراق کے تعلقات بھی وجہ نزاع بنتے چلے گئے۔ اس ضمن میں ایران کی طرف سے شامی حکومت کی حمایت کا موضوع بھی اہمیت اختیار کر گیا۔ مارچ 2013ء میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے نوری المالکی سے اپنی تشویش بیان کی کہ عراقی فضا کے ذریعے ایران شام میں اسلحہ بھیج رہا ہے۔ نیز عراق میں ایران کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔ نوری المالکی نے اس کے جواب میں کہا کہ ایران کی طرف سے شام جانے والے طیاروں میں انسانی ہمدردی کے لئے بھیجے جانے والے سامان کے سوا کچھ نہیں۔ ان طیاروں میں اسلحہ نہیں ہوتا۔ 2014ء میں داعش نے عراق کے ایک تہائی سے زیادہ علاقے پر قبضہ کر لیا، جس کی وجہ سے امریکہ کو ایک مرتبہ پھر فوجی محاذ پر فعال کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ امریکیوں کے مطابق اس وقت عراق میں پانچ ہزار دو سو امریکی فوجی موجود ہیں، جنھیں مستقل کہا جاتا ہے اور ان کے علاوہ ایک ہزار فوجی غیر مستقل کے عنوان سے بھی موجود ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد عراق اور امریکہ میں عدم اعتماد کی فضا مزید گہری ہوئی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ ممالک کے شہریوں پر 90 دن کے لئے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا اعلان کیا۔ ان ممالک میں عراق بھی شامل تھا۔

اگرچہ امریکہ کے ایک وفاقی جج نے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا، تاہم عراقیوں پر صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ بہت شاق گزرا۔ امریکہ میں عراق کے سابق سفیر لقمان فیلی نے ٹرمپ کی طرف سے عراقیوں کے امریکہ پر داخلے پر پابندی کے اعلان کو گہرا شرمناک اور تلخ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ ہزار امریکی فوجی اب بھی آئی ایس کے خلاف کارروائیوں کے لئے عراق میں موجود ہیں اور ان کے ساتھ ترجمے اور دیگر امور میں مدد کے لئے ہزاروں عراقی موجود ہیں۔ ایسے میں امریکہ کی طرف سے اس طرح کا اعلان بہت افسوسناک ہے۔ صدر ٹرمپ کے فیصلے کے ردعمل میں عراقی پارلیمینٹ نے بھی امریکی شہریوں کے عراق میں داخلے پر پابندی عائد کر دی، تاہم عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے اس کی تائید نہیں کی، البتہ اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عراق کی سیاسی قیادت پر امریکی صدر کا فیصلہ بہت گراں گزرا۔ قوموں کی نفسیات پر اس طرح کے فیصلے دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔

2014ء میں جب داعش نے موصل اور دیگر عراقی علاقوں میں تیز رفتار پیش رفت کی تو امریکی تربیت یافتہ عراقی فوج ان کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی۔ اس پر خود امریکہ میں بھی بعض تجزیہ کاروں نے حیرت کا اظہار کیا۔ عراق کے اندر ایک بڑے حلقے کا تاثر یہ تھا کہ امریکی تربیت یافتہ فوج کو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد آیت اللہ سیستانی کی اپیل پر عوامی رضاکار فوج کی تشکیل کے لئے اقدامات کئے گئے۔ حشد الشعبی کا قیام اسی اپیل کا نتیجہ ہے۔ اس میں اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ تربیت یافتہ رضا کار موجود ہیں، جن میں تقریباً 70 ہزار شیعہ ہیں اور 30 ہزار سنی قبائل کے جوان موجود ہیں۔ یہ تناسب ایک اندازے کے مطابق عراق کی شیعہ سنی آبادی کے تناسب کے نزدیک ہے۔ اس فورس کی تربیت میں ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا بڑا کردار بیان کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کا ذکر اسی پس منظر میں آتا ہے۔ حشد الشعبی نے اپنی حیثیت کو بہت کامیابی سے منوایا ہے اور داعش کے قبضے سے عراقی سرزمین کو چھڑوانے کے لئے اس نے عظیم الشان قربانیاں دی ہیں اور جرأت و شجاعت کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔

اس کی وجہ سے عراق کی سیاسی اور مذہبی قیادت کے علاوہ عوام میں بھی اسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ حال ہی میں کرکوک کو عراقی کردستان کی فوج پیشمرگہ سے آزاد کروانے میں بھی اس رضاکار فورس کا بنیادی کردار ہے۔ امریکہ اور عراق کے مابین تنازع کا نیا موضوع یہی حشد الشعبی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے اپنے حالیہ دورہ ریاض میں اپنے سعودی ہم منصب عادل الجبیر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی افواج عراق سے اپنے وطن واپس جائیں۔ ان کا اشارہ دراصل حشد الشعبی کی طرف تھا۔ ٹیلرسن نے واپس امریکہ پہنچ کر بھی کہا کہ میں نے عراقی وزیراعظم سے کہا ہے کہ ایرانی افواج کو عراق سے اپنے وطن واپس جانا چاہیے۔

ان کے اس بیان پر عراق کی قیادت کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی کے دفتر نے ٹیلرسن کے بیان کی مذمت کی کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ عراق کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے۔ حشد الشعبی کے ایک کمانڈر قیس الخز علی نے 24 اکتوبر2017ء کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم امریکی وزیر خارجہ سے کہتے ہیں کہ تمھاری فوج جلد ازجلد عراق سے نکلنے کے لئے تیار ہو جائے۔ عراقی وزیراعظم نے کہا کہ حشد الشعبی کے رضا کار سب عراقی ہیں اور وہ اپنے گھر میں موجود ہیں، انہیں کہیں اور نہیں جانا۔ ٹیلرسن نے امریکہ میں واپس پہنچ کر امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے جب اپنا مطالبہ دہرایا تو ایک امریکی سینیٹر نے ان سے کہا کہ عراقی وزیراعظم نے صراحت سے کہا ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ فورسز اپنے وطن میں موجود ہیں اور وہ کہیں نہیں جا رہیں اور شاید امریکی افواج کو عراق چھوڑنا ہوگا۔ اس پر ٹیلرسن نے کہا کہ میں نے حیدرالعبادی سے نہیں سنا کہ امریکی فوجیں عراق سے نکل جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکہ کی طرف سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر تنقید کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ بعض امریکی ذرائع نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کا کرکوک کے واقعات میں بھی عمل دخل ہے۔ اس کے جواب میں عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی نے کہا ہے کہ قاسم سلیمانی کا کرکوک کے واقعات میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے مسلح افواج کو حکم دیا ہے کہ تمام سرحدی گزرگاہیں مکمل وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہونی چاہئیں۔ وہ اس طرف اشارہ کر رہے تھے کہ عراقی کردستان کی تمام سرحدوں پر عراق کی سرکاری فوج تعینات رہے گی اور اس میں کرد پیشمرگہ کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ عراق میں کردستان کی علیحدگی کی تحریک اب تقریباً دم توڑ گئی ہے۔ داعش کو بھی شکست فاش ہوچکی ہے۔ شام کے ساتھ عراقی صحرا میں بچے کھچے داعشیوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اب عراق میں امریکی فوج کے رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ عراقی حکومت اور فوج اس وقت ایک نئے اعتماد سے سرشار ہے۔ خود ٹیلرسن بھی ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ داعش کے خاتمے کے بعد امریکی فوجی دستے عراق سے نکل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی افواج کے عراق سے واپسی کے دن آ پہنچے ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply