• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مفاہمت اور پُر سکون سیاسی ماحول کو تلاطم خیز کرتی نابالغوں کی شارک نسل ۔۔ غیور شاہ ترمذی

مفاہمت اور پُر سکون سیاسی ماحول کو تلاطم خیز کرتی نابالغوں کی شارک نسل ۔۔ غیور شاہ ترمذی

سائنس فکشن اور ناول لکھنے والے معروف امریکی مصنف ایل ریان ہیوبارڈ (L. Ron Hubbard) نے سنہ 1950ء کی دہائی کے اوائل میں امریکی نیوی کی زندگی میں گزارے اپنے تجربات کی بنیاد پر کہا کہ “انسان صرف مشکل ماحول کی موجودگی میں  ہی زیادہ پنپتا ہے”۔اس سے پہلے برطانوی ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شا نے بھی کہا تھا کہ “اطمینان موت ہے”- ماہرین کا کہنا ہے کہ خطرہ محسوس کرتے ہی ہمارا اعصابی نظام ہارمونز کی دھار خارج کر تا ہے اورہمارا جسم ہنگامی ردِعمل ظاہر کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ ہنگامی صورت حال میں خارج ہونے والے ہارمونز میں ایڈرینالین اور کورٹیزول شامل ہیں جو ہمارے جسم کو اضطراری حرکات کے قابل بناتے ہیں ۔ اس صورتحال میں ہمارا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے، پٹھے تن جاتے ہیں، بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے اور سانسیں تیز ہو جاتی ہیں ۔ یہ تبدیلیاں اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم خطر ے سے لڑ سکیں یا پھر خطرے سے فرارکا راستہ اختیار کرکے اپنی حفاظت کرسکیں ۔ ایسا نظام صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ قدرت نے جانوروں میں بھی پیدا کیا ہوا ہے۔

جانوروں میں اس تھیوری کا کامیاب تجربہ جاپان میں کیا گیا ہے۔ جاپانیوں کو تازہ مچھلیاں بہت پسند ہیں لیکن جاپان کے قریب ساحلی علاقوں میں کئی دہائیوں سے بہت ساری مچھلی نہیں پکڑی جاتی۔ لہذا تمام جاپانی آبادی کو مچھلی کھلانے کے لئے ماہی گیری کشتیاں بڑی ہوتی گئیں اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ دور گہرے سمندر میں جانے لگیں – ماہی گیر جتنا دور گئے ، مچھلیوں کو پکڑ کر واپس لانے میں اتنا ہی زیادہ وقت لگنے لگا۔ اس طرح ساحل تک باسی مچھلی پہنچنے لگی – مچھلی تازہ نہیں تھی اور جاپانیوں کو ذائقہ پسند نہیں تھا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے فشنگ کمپنیوں نے اپنی کشتیوں پر فریزر لگائے۔ وہ مچھلی کو پکڑ کر سمندر میں منجمد کردیتے۔ فریزرز کی وجہ سے کشتیوں کو مزید دور جانے اور زیادہ دیر تک سمندر میں رہنے کا موقع ملا ۔ تاہم جاپانیوں کو منجمد مچھلی کا ذائقہ بھی پسند نہ آیا ۔ منجمد مچھلی کم قیمت میں فروخت ہوتی تھی تو ماہی گیری کرنے والی کمپنیوں نے اپنی کشتیوں میں بڑے بڑے فش ٹینک لگائے۔ وہ مچھلی کو پکڑ لیتے اور ٹینکوں میں بھر کر لے آتے – مگر اب یہ ہوا کہ کھلے سمندر میں تیرنے والی مچھلیوں کے لئے یہ ٹینک بھی چھوٹے ہی تھے اس لئے ان ٹینکوں میں تھوڑا وقت گزرنے کے بعد یہ مچھلیاں سُست ہو جاتیں ۔ وہ زندہ رہتیں لیکن مدہوش ہو جاتیں –

بدقسمتی سے جاپانیوں کو اب بھی اس مچھلی کا ذائقہ پسند نہ آیا چونکہ مچھلی کئی دن تک حرکت نہیں کرتی تھی اس لئے تازہ مچھلی جیسا ذائقہ ان کے گوشت میں نہیں ملتا تھا – ماہی گیری کی صنعت کو ایک بہت بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب اس بحران پر ایل ریان ہیوبارڈ کی بیان کردہ تھیوری کو اپلائی کرنے کے بعد قابو پالیا گیا ہے اور یہ طریقہ اب جاپان میں ایک اہم ترین تجارت بن کر ابھرا ہے۔ جاپانی فشنگ کمپنیوں نے اس مسئلے کو کیسے حل کیا؟۔ وہ جاپان میں تازہ چکھنے والی مچھلی کیسے حاصل کرتے ہیں؟۔ مچھلی کے ذائقے کو تازہ رکھنے کے لئے جاپانی ماہی گیری کی کمپنیوں نے ان مچھلی کو ٹینکوں میں ویسے ہی ڈال دیا جیسا وہ پہلے کرتے تھے۔ لیکن اب وہ ہر ٹینک میں ایک چھوٹی شارک مچھلی کو بھی شامل کرتے ہیں۔ یہ شارک ان شکار کی ہوئی کچھ مچھلیوں کو یقیناً کھا جاتی ہے لیکن زیادہ تر مچھلیاں اپنی جان بچانے کے لئے انتہائی رواں دواں متحرک حالت میں رہتی ہیں۔ شارک کے خطرے سے دوچار مچھلیاں متحرک رہتی ہیں اور صحت مند حالت میں مارکیٹ تک پہنچتی ہیں ۔ جب وہ صحت مند حالت میں مارکیٹ تک پہنچتی ہیں تو اچھی قیمت پر فروخت بھی ہوتی ہیں – اسی خطرے کا احساس انہیں تازہ دم رکھتا ہے۔ ایل ریان ہیوبارڈ کا بھی یہی کہنا تھا کہ اگر ہم مستقل طور پر چیلنجوں کو فتح کر رہے ہیں تو خوش رہتے ہیں۔ ہمارے چیلنجز ہی ہمیں متحرک رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں زندہ رکھیں گے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ اپنے ٹینک میں ایک تصوراتی شارک رکھیں اور دیکھیں کہ ہم اس کا مقابلہ کرتے ہوئے کہاں تک جاسکتے ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ بھی صحت مند ، کم عمر اور متحرک نظر آتے ہیں تو ، یقینی طور پر اُن کے ٹینک میں شارک موجود ہے۔ شارک کو اپنی زندگی میں موجود رکھنے سے ہی ہمیں تحرک، منصوبہ بندی اور بہتر طریقہ سے محنت کے گُر سمجھ آئیں گے۔

ہماری ملکی سیاست میں بھی کچھ ناعاقبت اندیش فیصلوں اور سیاستدانوں کی کوتاہ اندیشیوں کی وجہ سے شارک پیدا ہو چکی ہے۔ یہ شارک اُن سیاسی نابالغوں کے جتھوں کی شکل میں موجود ہے جو جب تقریر کرتے ہیں تو اِن کے منہ سے جھاگ نکل رہی  ہوتی  ہے۔ یہ سیاسی مخالفتوں کو ذاتی مخالفت اور جانی دشمنی  تک پہنچا دینے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ ان میں اور اصلی شارک میں فرق صرف اتنا ہی ہے کہ شارک جب حملہ کرتی ہے تو بالکل خاموشی سے اچانک شکار کو دبوچ لیتی ہے جبکہ سیاست منابالغوں کی یہ نسل کاٹتی تو بہت کم ہے مگر گالیوں اور دشنام طرازی کے شور و غل میں اپنے سیاسی مخالفین کے خوب پیچھے لگی رہتی ہے- ایک پوری نسل الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے میدانوں میں اَت اٹھائے ہوئے ہے۔ ان کے جی میں جو آتا ہے، وہ منہ بھر کے کہہ دیتی ہے۔ نہ کسی کا لحاظ، نہ احترام اور نہ کوئی احساس۔ اس نسل کے نزدیک ملک کو درپیش تمام مسائل کے ذمہ دار فقط سیاستدان ہیں اور وہ بھی صرف وہی جو اُن کی پارٹی اور اُن کے قائد کے مخالفانہ نظریات رکھتے ہیں۔ اس سیاسی نابالغوں کی پوری نسل کی نظر میں تنقید کرنے والے تمام صحافی چور اور ’لفافہ خور‘ ہیں۔ جمہوری عمل سے نفرت کے سائے میں پل کر جوان ہوئی اس نسل کو کون سمجھائے کہ سیاست میں کرپشن غیر سیاسی حکمران لائے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ نسل جس کی پیروکار ہے اُسے دیوتا قرار دیتی ہے؟ ۔ حالانکہ ہزار کج اور ان گنت عیب اُس میں بھی ہیں جن پر کئی لوگوں کے انٹرویوز اور کئی واقفان حال کی طرف سے کتابیں بھی چھپ چکی ہیں۔ اس نسل میں موجود جو گنتی کے دو، چار لوگ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں تو وہ یہ غور کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے کہ ہماری 72 سالہ تاریخ کے دوران براہ راست مارشل لاء لگا کر حکومت کرنے والے چار فوجی حکمرانوں کی آل اولاد اور اُن کے چمچوں کے پاس جو دھن، دولت ہے وہ کہاں سے اور کیسے آئی۔ کیا کوئی ان کے خاندانی پس منظروں سے آگاہ ہے، تو ہمیں بھی پڑھائے کہ یہ اتنی دولت کس خاندانی وراثت سے ان کے حصّہ میں پہنچی ہے۔

پس تحریر نوٹ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریر ختم ہو گئی تو فیاض احمد میبل صاحب کے ذریعہ خبر پہنچی کہ وزیر اعلی پنجاب ‏عثمان بزدار کے والد کے نام پر ہسپتال بنانے کے لئے پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔ میبل صاحب کہتے ہیں کہ جب ایک مصنوعی حکمرانی کلاس پیدا کر کے ہم پر مسلط کی جائے گئی تو یہی کچھ ہوگا، جو ہو رہا ہے۔ میبل صاحب پوچھتے ہیں کہ عثمان بزدار کے والد گرامی کا نام کیا ہے؟۔ انہوں نے کیا کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے ؟۔ کیا کسی کو کوئی خبر ہے ؟۔ چلیں نام ہی بتا دیں، کسی نے کہیں سے سن رکھا ہے کیا؟۔ عثمان بزدار واحد وزیر اعلی ہے جو اپنی نالائقی کی وجہ سے وزیر اعلی بنایا گیا ہے تاکہ پنجاب پر کنٹرول رہے۔ شاید اسی بات پر ان کے والد گرامی کو خراج تحسین دیا جا رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply