تاریخ یا قوم کا قتل۔۔انجینئر عمران مسعود

تاریخ یا قوم کا قتل۔۔انجینئرنگ عمران مسعود/گیلپ سروے کے مطابق 75 فیصد پاکستانی درسی کتب کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھتے۔ صرف 2 فیصد لوگ معلوماتی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اسی لیے ہماری قوم کا نقطہ نظر وہی بنتا ہے جو درسی کتب میں پڑھایا جاتا ہے اور ہماری معلومات کا واحد ذریعہ درسی کتب یا غیر محقق سوشل میڈیا شخصیات ہیں۔ انہی رویوں کی وجہ سے قوم کی جذباتی وابسگیاں اور نظریات قائم ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے بیورکریٹ اور سیاستدان عوامی طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ نعرے لگواتے جو عوام میں قابل قبول ہوں۔ اسی بنیاد پر ملک کے مخلص اور غداروں کی درجہ بندی کرواتے ہیں۔

پہلے بادشاہ اپنی مرضی کی تاریخ مرتب کرواتے تھے تاکہ عوام میں مقبولیت اور اپنی حکومت کو دوام دے سکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
لیکن ایک مثبت امر یہ ہے کہ اب ہمارے نوجوانوں میں یہ شعور بیدار ہو رہا ہے کہ وہ تاریخ پر سوال اٹھاتے ہیں۔کم از کم تاریخ پر محقیقن کی ایک مختصر تعداد ہے جن کو لوگ سنتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ دنیا کی تمام قومیں اپنے قومی بیانیہ کی حفاظت کرتی ہیں اور اسے شدومد سے پیش کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں جو ہوا ہے وہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔ پاک و ہند میں تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت سوائے نفرت کا بیج بونے کےکچھ نہیں، جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں دردل دل اور منصف مزاج محقیقن کی جانب سے تاریخ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر ان کو پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن ہماری درسی کتب کی جانبدار تاریخ سے جو رویے جنم لے چکے ہیں ان حالات میں حقائق جاننے کے باوجود ان کا برملا اظہار کرنا اتنا آسان نہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر یعقوب بنگش جو تاریخ میں ایک محقق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بار طلبا سے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے حوالے سے تدریس کر رہے تھے اور جب بتایا کہ علامہ اقبال نے وہاں متحدہ ہندوستان میں مسلم ریاستوں کی تشکیل کا ذکر کیا نہ کہ الگ ریاست کے قیام کا تو طلبا نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اور بعد ازاں جب اخبارات نے اس کو الگ ریاست کے تصور کا رنگ دیا تو علامہ صاحب نے اس کی وضاحت کی کہ وہ کسی ایسے تصور کے حامل نہیں ،حتیٰ کہ اس خطبہ کی اصل نقول پڑھنے کے لیے جب دیں تو اس پر طلبا کا رد عمل یہ تھا کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ یہ وہ اقبال ہی نہیں جن کا ہمیں پڑھایا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نصاب میں جس طرح جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے تاریخی حقائق کو گڈمڈ کرکے اپنے زعم میں ایک محب وطن قوم تیار کرنے کے کوشش کی، آج اس کا نتیجہ  انتہا پسندی کی  صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں نے سمجھا کہ شاید اس حربے سے یہ تو باور کرایا جائے کہ ہم سب سے بہترین ہیں، شاید اس  ذریعے سے پاکستان کا قیام محفوظ ہو جائے گا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ اسی آڑ میں نفرت انگیزی کا جو بیج بو رہے ہیں وہ کس قدر خطرناک ہے۔ اپنی کمزوریوں کو دوسروں کے کھاتے ڈالنے کا سبق اور خود کو کامل یعنی پرفیکٹ سمجھنا عادت بن چکی ہے۔ آج تک یی بحثیں جاری ہیں کہ جناح ایک مذہبی ریاست چاہتے تھے یا سکیولر۔ 11 اگست 1947 کی تقریر ایم خاص اہمیت حاصل ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے جو خود مذہبی تصور ہے ورنہ ہندو مسلمان تو ہزار سال سے اکٹھے رہ رہے تھے۔ لیکن آج پاکستان اور بھارت دو حقیقتیں ہیں جن کو جھٹلانا ناممکن ہے۔ اور چند انتہا پسند تنظیمیں پوری قوم یا ملک کی نمائندہ نہیں سمجھی جاسکتں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہمیں اس جھوٹ اور خود فریبی کی دنیا سے نکل کر اپنے طلبا اور قوم کو حقائق بتانے چاہیے تا کہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور آگے بڑھنے کے عمل کا آغاز ہو سکے۔ اس سے نہ نظریہ پاکستان کو خطرہ ہے اور نہ ہی قوم و ملت کی اساس کو۔ بلکہ ہمیں آج سمجھنا ہو کہ انگریز نے جاتے ہوئے ایک بفر ملٹری سِٹیٹ کے قیام کا جو ارادہ کیا تھا جو بھارت کے مقابلے میں کھڑی ہو اور خطے میں اٹھنے والی طاقتوں کو روکنے کے لیے ایک فوجی چھاؤنی کے طور استعمال ہو۔ کہیں انجانے میں اس منصوبے کا شکار تو نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت ہم استعمال ہوتے رہے لیکن کسی لیڈر نے اس پاکستانی کی جغرافیائی حیثیت کو سامنے رکھ کے ملک و قوم کے لیے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ نتیجتاً بجائے اس کے کہ ہم اپنی حیثیت منواتے بلکہ ایک غلام قوم کی  طرح آلہ کار بنتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج بحیثیت قوم ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی سے سبق سیکھنے کی روایت کا آغاذ ہو تاکہ ترقی اور آگے بڑھنے کا سفر منزل کی طرف گامزن ہو سکے۔

Facebook Comments

انجینئر عمران مسعود
میں پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینئر ہوں. تاریخ, مذہب اور ادب و فنون سے دلچسپی رکھتا ہوں. فارغ اوقات میں مصوری کا شغف ہے. بطور لکھاری تاریخ اور مذہب کو تنقیدی پیرائے میں دیکھنے اور لکھنے کو موضوع بناتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply