خالی ہاتھ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

خالی ہاتھ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید/  خلیفہ خالی ہاتھ ہوتا ہے!! اگر خلیفہ خود کوئی اختیار سنبھالتا ہے‘ تو بے اختیار ہو جاتا ہے۔ اللہ نے آدم ؑ کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کا عندیہ ظاہر کیا تو فرشتے بے اختیار اعتراض داغ بیٹھے،کیا تُو ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو زمین پر فساد برپا کرے اور خون ریزیاں کرتا پھرے۔ اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ جو میں جانتا ہوں ‘ وہ تم نہیں جانتے۔ فرشتے جانتے تھے کہ خلیفہ کو اختیارات ودیعت کیے جائیں گے۔ اسے یہاں تک اختیار دے دیا جائے گا کہ وہ اگر چاہے تو اپنے بھائی بندوں کا خون تک بہائے۔ خالقِ ارض و سما ء کو اپنے اِس شاہکار پر‘ جسے اُس نے احسنِ تقویم کہا‘ اِس قدر بھروسہ ہے کہ ابھی تک دما دم صدائے کُن فیکون سنائی دیتی ہے۔ اُسے بھروسہ ہے کہ یہ صورتِ آدم کبھی حضرتِ انسان کا رنگ ڈھنگ بھی اختیار کرے گی۔ اس لیے وہ اسے بدستور توبہ کی مہلت دیے چلے جا رہا ہے۔

خلیفہ کا مفہوم سمجھنے کے لیے اسے وائسرائے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ کسی علاقے کا وائسرائے اپنی پالیسی تشکیل نہیں دیتا بلکہ وہ سلطنت ِ عظمیٰ کے حقیقی تاجدار کی دی ہوئی پالیسی کے مطابق کام کرتا ہے۔ خلیفہ اپنا ذاتی تصرف نہیں کرتا ۔ وہ ذاتی حیثیت سے ذاتِ حقیقی سے متعلق ہوتا ہے ‘ اس لیے سرکار کی پالیسی سے سرِ مُوانحراف نہیں کرتا۔وہ جانتا ہے کہ اگر وہ بال برابر بھی منحرف ہوتا ہے‘ تو اُس کی رعایا حقیقی مدعا سے میلوں دُور جا پڑے گی۔ سرکاری حکم نامہ ہے کہ تم میں ہر شخص راعی ہے اور اُس کی رعیت کے بارے میں اُس سے سوال کیا جائے گا۔ میں باپ ہوں تو مجھ سے اپنے بچوں کے بارے میں سوال ہوگا، مجھ سے پوچھا جائے گا کہ میں نے اپنے بچوں کے درمیان انصاف کیا، اُن کا دل جیتا، انہیں سرکارؐ کی پالیسی سے متعارف کروایا، اُن کی اصلاح کے لیے صرف قیل و قال کی چھڑی استعمال کی یا اپنے افکار و کردار کے ذریعے بھی انہیں تغذیہ فراہم کیا۔اگر میں استاد ہوںٗ اور چند شاگردوں کی تعلیم و تربیت کا مرحلہ مجھے درپیش ہے تو بعینہٖ یہی سوال نامہ شاگردوں کے باب میں میرے سامنے پیش ہوگا۔

خلیفہ من مانی کرے تو اپنے منصب سے معزول سمجھا جائے۔ میرا دعویٰ ہے ٗ میں اپنے رب کا خلیفہ ہوں لیکن میں اپنی زندگی سے اپنی مرضی منفی نہیں کر سکا— مجھے کسی ضرب اور غضب کا منتظر ہونا چاہیے۔میں بھول گیاہوں‘ میری طاقت اپنی طاقت کو نیام میں رکھنے سے ہے۔ بغیر اَمر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ مجھے کمزور کر رہا ہے۔ظاہری طاقت کے مظاہرے سے میری روحانی طاقت پامال ہو رہی ہے۔ میرا اختیار کسی کی امانت ہے۔ میری عزت اُس کی وجہ سے ہے، میرے تصرفات اُس کی عطا ہیں۔ میرے کمالات میں میرا ذاتی کمال کچھ بھی نہیں۔ میری صفات مجھے مخلوق سے متعارف کرواتی ہیں لیکن میری ذات‘ مجھے اُس کی ذات سے متعلق کرتی ہے۔ جب میں خود سے غافل ہوتا ہوں ‘ تو خدا سے غافل ہو جاتا ہوں۔میری سلامتی اِسی میں ہے کہ میں دوسروں کے لیے سلامتی کا پیام بنوں ۔ خالی ہاتھ ہونا میرے ہی فائدے میں ہے۔ ہاتھ اُٹھانے والا خالی ہاتھ کب ہوتا ہے! آزار کی تمنا ہاتھ میں اَوزار تھما دیتی ہے۔

جب تک میں خود سے خود کو نہیں نکالتا ‘ دوسروں کے لیے منفعت بخش نہیں ہوتا۔ میری ساری ’’خدمات‘‘ سیاست اور تجارت کے ابواب ہیں۔ اپنی مرضی سے اپنے من پسند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے میں کتنے ہی مستحق افراد کی حق تلفی کا مرتکب ہو جاتا ہوں۔ میں اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سعادت سے شقاوت کی طرف چل نکلتا ہوں، اور توبہ کی توفیق ملتے ہی یونہی بیٹھے بٹھائے‘ شقاوت سے سعادت کی طرف محو ِ سفر ہو جاتا ہوں۔

غصے، نفرت اور اشتعال کی حالت میں ‘ میں اپنے تصرف کا بھرپور استعمال کرتا ہوں۔ ضبط، صبر اور محبت مجھے خالی ہاتھ کر دیتے ہیں۔ بے ضرر ہونے سے لے کر منفعت بخش ہونے تک سارا کمال میرے خالی ہاتھ ہونے میں ہے۔ خالی ہاتھ بندھا ہوا ہاتھ نہیں ہوتا۔ سخی ہونے کے لیے جیب میں مال ضروری نہیں‘ بس دل میں خیال کا ہونا کافی ہے۔ سخاوت کا خیال وارد ہو جائے تو مجھے ایسے راستوں سے رزق میسر آ جاتا ہے ٗجہاں سے مجھے گمان بھی نہیں ہوتا۔ میرے پاس میرا اپنا کچھ ہوتا تو اسے سنبھال سنبھال کر رکھتا… یہ سب کچھ کسی کا ہے ، کسی کی طرف سے ہے ‘ اور کسی کے لیے ہے۔ میرے آگے جانے سے پہلے یہ گٹھری آگے چلی جائے تو میری جان چھوٹ جائے گی ، نہیں‘ تو نہیں!! میں نے جہاں جس کو اپنی مِلک تصور کیا ‘ اُس میں خیانت کا مرتکب ہوا۔ میں نے اپنے وقت، وجود اور وسائل کو ذاتی ملکیت خیال کیا—بس یہیں سے خیال میں خیانت دَرآئی— میرے “عُدُوُّمُّبین” کو یہاں دَراندازی کا موقع ملا۔

خلیفہ کے لیے امین ہونا شرطِ لازم ہے۔ ذاتی عزائم رکھنے والا امانت کی پاسداری کیسے کرسکے گا۔ امانت میں دیانت کا ثبوت وہی دے سکتا ہے‘ جو خالی ہاتھ آئے اور خالی ہاتھ جائے۔میرا دعویٰ ہے کہ میں اپنے رب کا خلیفہ ہوں ‘ لیکن میرا خیال اور عمل دونوں اس دعوے کی تکذیب کر رہے ہیں۔ میں نے سرکاری وسائل سے اپنے گھر کے مسائل حل کیے۔ سرکاری فتوحات کو اپنی ذاتی فتوحات جانا—خود کو ہارے بغیر دوسروں کو جیتنے کی کوشش کی — اور دوسروں کا دل جیتے بغیر ہی خود کو فاتح ِ عالم جانا۔میں نے بزورِ طاقت حکومت کرنے کی کوشش کی۔ میرے پاس موجود وسائل ‘اُس سائل کی امانت تھے ‘ جسے قدرتِ کاملہ نے میرے گھر کا راستہ دکھایا تھا، لیکن میں امانتوں کی تقسیم میں ذاتی پسند اور ناپسند کا شکار رہا۔ مجھے خود سے مرعوب اور محکوم لوگ زیادہ “مستحق” دکھائی دیے ، خود دار و خود سَر میرے معتوب ٹھہرے۔ میں اپنے اور غیر کی تقسیم فقط اپنی ذات کے حوالے سے کرتا رہا۔ حیرت ہےٗ قاسمؐ اور ابولقاسم ؐکا اُمّتی ہونا بھی میرا ایک فخریہ دعویٰ ہے ‘ لیکن سخاوت کے باب میں اپنے اور پرائے کی تقسیم میںٗ میں تقسیم رہا۔ شریعت کا عالم ہونا بھی میرا بلند بانگ دعویٰ ٹھہرا ‘ لیکن قساوتِ قلبی کا یہ عالم کہ میں وصیت بھی شریعت کے مطابق نہ کر سکا۔ خالی ہاتھ جانا میں صرف سکندر کے لیے مانتا ہوں ‘ اپنے لیے تسلیم نہیں کر سکا۔ جو شئے میری دسترس میں ہے ‘ اسے ہمیشہ کے لیے اپنی دسترس میں رکھنا چاہتا ہوں ۔ مجھ سے زیادہ استحقاق رکھنے والا سامنے آجائے تو بھی میں اپنے حق سے دست کش نہیں ہوتا۔ جوہر اگر جوہر شناس کے سپرد نہ کیا جائے‘ تو ضائع ہو جاتا ہے۔ میں کیسا جوہری ہوں ‘ جوہر پہچانتا ہوں ‘ جوہر شناس کو نہیں پہچانتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسان کا جوہر خود کو خالی کرنے اور رکھنے میں ہے۔ حصول اور وصول اِسے چند روزہ صفاتِ مستعار دیتے ہیں۔ خود کو خالی کرنے سے اِس پیکرِ خاکی میں نُوری صفات پیدا ہوجاتی ہیں — ذات کی جلوہ گری کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ صفات — متغیر ہوتی ہیں،ذات —مستقیم و مستقم !! انسانی صفات فانی ہیں— ربّی صفات باقی رہ جانے والی ہیں۔ انسان اپنی صفات کو فنا کرے تو اِسے باقی صفات عطا ہوتی ہیں۔یہ صفاتِ رذیلہ سے خالی ہاتھ ہو جائے ‘ تواِسے صفاتِ جلیلہ میسرآ سکتی ہیں۔ جنابِ آدمؑ خلیفتہ اللہ تھے ، ابن ِ آدم کو ابھی بننا ہے۔ جب تک ابنِ آدم کو اپنے باپ کو سبق ازبر نہ ہو ٗ یہ قابلِ میراث پدر کیونکر ہو!! اسی سبق کو اَزبر کروانے کے لیے انبیاء و رُسل مبعوث ہوئے۔ اُ ن کے وارث اَولیاء و اَصفیاء مقرر ہوئے۔تعیّنات کی دنیا میں تاجدارِ ختم نبوت ورسالت ؐ شہر ِ علم ؐ ٹھہرے اور اِمام الاولیاء علی اِبن ِ ابی طالب باب العلم متعین ہوئے۔دَرِ علم ؑ سے شہر ِ علم ؐتک اور پھر العلم تک بشر کی رسائی کیسے ممکن ہو ‘ اگر وہ خود کو ہوا و ہوس سے خالی کرنے کے سبق سے خالی ہو۔اُسوۂ حسنہؐ سے متصف ہونا‘ خود سے خود کو خالی کرنے کا سبق ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply