چھٹی حِس۔۔۔عارف خٹک

مجھے ہمیشہ اپنی چھٹی حس سے بہت ڈر لگتا ہے۔ چھٹی حس انسان کے اندر قدرت کی طرف سے دیا گیا ایسا نظام ہے جس کی توجیہہ آج تک میڈیکل سائنس بھی نہیں دے پارہی،مگر یہ ایک حقیقت ہے۔
ہمارے ساتھ اکثر و بیشتر رونما ہونیوالے غیر معمولی واقعات کا اندازہ ہمیں وقت سے پہلے ہوجاتا ہے۔ جس کو ہم لوگ الزام بھی کہتے ہیں۔
غالباً 2011 کا زمانہ تھا۔ ایک دفعہ میں اور عطاءاللہ خٹک مزار شریف افغانستان کابل آرہے تھے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ اور افطاری میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔ ہماری گاڑی سالنگ کی پہاڑیاں اُتر کر کاپیسہ پروان کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اچانک مجھے بے چینی شروع ہوگئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے بہت بُرا ہونے جارہا ہے۔ عطاءاللہ خٹک نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی طبعیت ٹھیک ہے۔ میں جواب دینے والا تھا کہ ایک لال کلر کی سیڈان ہمیں کراس کرگئی۔ میں مزید پریشان ہوگیا۔ عطاءاللہ نے گھبرا کر میری طرف دیکھا کہ کہیں اغواکار تو نہیں ہیں۔ میں نے پشتو میں کہا عطاءاللہ گاڑی کسی طریقے سے رکوا دو۔ ہمارا ڈرائیور تاجک تھا۔ عطاءاللہ کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ بالآخر میں نے پُرسکون ٹوٹی پھوٹی دری میں ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی رک دو۔ ہم نے سڑک کنارے جھونپڑی والوں سے افطاری کیلئے انگور لینے ہیں اور مجھے تقاضابھی کرنا ہے۔ ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ میں اس لال کلر سیڈان کو ہی دیکھنے لگا جو دو کلومیٹر نیچے کاپیسہ پروان بازار کی طرف گئی تھی۔ میں پیشاب کرنے بیٹھا کہ اچانک کالے دھوئیں اور آگ کے بلند و بالا شعلے لپکنے لگے۔ اور تھوڑی دیر بعد ایک عجیب سے بارودی دھماکے کی آواز نے ایک گونج پیدا کردی۔ جو پہاڑوں کے دامن میں مزید پھیلتی گئی۔
عطاءاللہ نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔اور میرا ڈرائیور تشکر آمیز نظروں سے مجھے دیکھنے لگا کہ میرے گاڑی روکنے کی وجہ سے سب کی جان بچ گئی۔
عطاءاللہ نے کپکپاتا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔ میں نے بتایا کہ یہ اس گاڑی کا ڈرائیور عجیب سے ٹرانس میں تھا۔ اور گاڑی خالی ہونے کے باوجود وزن سے جھکی ہوئی تھی۔ اس ڈرائیور کو دیکھ کر  سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں   مجھے اندازہ ہوا کہ بندہ اپنے آپ میں نہیں ہے۔
آدھے گھنٹے بعد معلوم ہوا۔ کہ امریکن کانوائے جو بگرام ایئر بیس سے نکل رہی تھی۔ ان کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں امریکنز   کا شدید جانی  نقصان ہوا تھا۔ اس دن میں  نےکافی امریکن  سپاہیوں کو روتا دیکھا۔۔

2013 کی صبح شہرنو کے پاس کابل سیرینا ہوٹل کےمتصل پارک میں، مَیں صبح کی جاگنگ کررہا تھا۔ کہ اچانک مجھے بے چینی ہونے لگی۔ اور مجھے گھبراہٹ ہونے لگی۔ میں جاگنگ چھوڑ کر اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوا۔ کہ اچانک سرینا ہوٹل کے سامنے اتنا زوردار دھماکہ ہوا۔ کہ چلتے چلتے میرے پیر ہوا میں معلق ہوگئے اور میں دور جاکرگر گیا۔ دھماکہ جہاں میں جاگنگ کررہا تھا وہاں سے سو میٹر فاصلے پر  ہواتھا۔ ہر چیز ملیا میٹ ہوگئی تھی۔ میں وہاں سے پانچ سو میٹر دور چلا گیا تھا۔

2012 میں طورخم بارڈر سے کابل کیلئے بذریعہ ٹیکسی روانہ ہوا۔ دیر بھی ہوگئی تھی۔ غالباً شام چار بجے کا وقت تھا۔ اور ایسے اوقات میں سفر کرنا بہت ہی خطرناک ہوتا تھا۔ طورخم سے متصل مہمند درہ میں آئے روز ڈکیتیاں، غنی خیل گاؤں کے پاس طالبان کا ناکہ لگا کر مسافروں کی تلاشیاں لینا اور اگر کسی سے این جی او یا سرکاری کارڈ برآمد ہوجاتا ان کو اپنے ساتھ لیکر جانا، یہ وہاں کا معمول تھا۔ ۔۔اس دن بھی عجیب بے چینی تھی۔ میری چھٹی حس بُری طرح سے جاگ گئی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ مجھے پچھلی سیٹ پر بٹھا دیں۔ حالانکہ میں نے زیادہ پیسے اگلی سیٹ کے دیئے تھے۔ وہ بھی حیران ہوا۔ میں پچھلی نشست پر دو بندوں کےبیچ بیٹھ گیا۔ ہم لوگ جیسے ہی مارکوہ کے علاقے میں پہنچے تو ہمارے سامنے امریکن کانوائے چل رہا تھا۔ امریکن کانوائے اگر دوران سفر آپ کو ٹکرا جائے تو آپ کا منٹوں کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آپ اپنی گاڑی آگے نہیں لیکر جاسکتے۔ نہ کراس کرسکتے ہیں۔ ہمارے ڈرائیور نے گالیاں نکالنی  شروع کردیں۔ میں نے ڈرائیور کو حوصلہ دیا کہ برادر آرام سے۔ آپ ان سے فاصلہ رکھیں کیونکہ سیف زون سے ایک میٹر آپ گاڑی قریب لیکر گئے۔ یہ آپ کو بغیر وارننگ کے اُڑا کر رکھ دیں۔ ہم یہی بات کر ہی رہے تھے۔ کہ سڑک کنارے نصب بم نے کانوائے کو ہٹ کیا۔۔
ڈرائیور نے زور سے بریک لگائے۔ اور میں نے سب کو گاڑی سے نیچے اترنے کا کہا۔ امریکیوں کا یہ مسئلہ تھا کہ اگر ان پر حملہ کیا جائے تو وہ بدحواسی میں آس پاس فائرنگ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ خواہ سامنے جانور ہو یا انسان یہ بھون کر رکھ دیتے ہیں۔ فائرنگ شروع ہوگئی۔ میں سڑک کنارے بنے پانی کے ایک خشک نا لے میں چھلانگ لگا بیٹھا۔ ہم تین مسافر اور ڈرائیور آدھے گھنٹے تک نا لے میں پڑے رہیے،اور وہ بندہ جس کو آگے والی نشست پر بٹھایا ہوا تھا وہ غائب تھا۔ آدھے گھنٹے بعد جب ہم ڈرتے ڈرتے ٹیکسی کے پاس آئے۔ تو وہ مسافر ایک طرف  ڈھلکے سر کیساتھ  پڑا ہوا تھا۔ کسی امریکی سپاہی کی گولی نے اس کی زندگی چاٹ لی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ مختصر واقعات  میری کتاب “خٹک نامہ” سے ماخوذ ہیں۔ جو میری موت کے بعد چھپے گی۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply