• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • برطانوی انتخابی نتائج اور مغرب میں بدلتی نظریاتی سیاست۔۔عمیر فاروق

برطانوی انتخابی نتائج اور مغرب میں بدلتی نظریاتی سیاست۔۔عمیر فاروق

برطانوی انتخابات کے نتائج سامنے آچُکے اور کنزرویٹو یعنی دائیں بازو نے میدان مار لیا۔

گوکہ اس میں بڑا قصور خود بائیں بازو کی لیبر پارٹی کا تھا جو بریگزٹ کے بارے میں کوئی واضح پوزیشن نہ لے سکی جبکہ یہ انتخابات بریگزیٹ کے گرد ہی گھوم رہے تھے اور عوام بھی اس ضمن میں تین سال کی گومگو اور جگ ہنسائی سے تنگ آچُکے تھے۔

کنزرویٹو نے اس پہ واضح موقف لیا جو شاید بہتوں کو پسند نہیں تھا، لندن اور برمنگھم جیسے بڑے شہر اس کے خلاف تھے لیکن وہ اس لئے جیتے کہ کم سے کم ان کے پاس اس گومگو کے خاتمے کا کوئی پلان تو تھا۔

ادھر بریگزٹ کی تمام انتخابی بحث میں مفت تعلیم ، صحت ، رہائشی سہولیات، بیروزگاری الاؤنس ، لیبر قوانین اور سہولیات وغیرہ یعنی بائیں بازو کا روایتی ایجنڈا پس پشت چلا گیا۔ اب اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں ؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا یا بریگزٹ کا معاہدہ اب کیسا ہوتا ہے اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن یاد رہے کہ بورس جانسن نے برٹش ہیلتھ کیئر کو بھی پرائیویٹ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ سب آنے والے دنوں میں کُھل کے واضح ہوگا۔

ان نتائج پہ بائیں بازو سے ہمدردی رکھنے والوں کی مایوسی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ دائیں بازو کی لمبے عرصے سے حکومت اور سماجی سہولیات میں کٹوتیوں کے باعث عوامی شکایات اور بریگزٹ کے ممکنہ نتائج کے عوامی خوف کی بنا پہ سمجھتے تھے کہ اس بار عوامی حمائت کا پنڈولم بائیں بازو کی طرف جھولے گا لیکن نتیجہ برعکس نکلا۔

البتہ اب اس امر کا امکان موجود ہے مغرب کی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی روایتی تقسیم جو پہلے ہی کنفیوزن کا شکار ہوچکی تھی اب دم توڑ کر نئی سیاسی تقسیم کو جنم دے دے، کچھ کچھ ایسی علامات کافی عرصہ سے مل رہی ہیں جو شدت پسند قوم پرستانہ دائیں بازو جو دوسری جنگ عظیم میں دم توڑ گیا تھا کی واپسی کا اشارہ دیتی ہیں چاہے وہ فرنچ لی پین کی شکل میں ہوں یا ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں۔

مغرب کی روایتی سیاسی نظریاتی تقسیم کچھ یوں ہوا کرتی تھی کہ بایاں بازو ، جو اکثر سوشلسٹ ہی کہلاتا تھا گوکہ عملاً سوشل ڈیموکریٹ تھا مضبوط ریاست اور ریاستی مداخلت کا حامی تھا زیادہ شرح ٹیکسز، مفت تعلیم ، صحت، بیروزگاری الاؤنسز ، زیادہ بہتر لیبر قوانین اور تجارت و صنعت میں ریاستی مداخلت کی وکالت کرتا تھا۔

جبکہ دایاں بازو کلاسیکل لبرلزم کا قائل تھا اور کم سے کم ریاستی مداخلت پہ زور دیتا تھا تعلیم ، صحت لیبر قوانین سب کو آزاد منڈی کی حرکیات کے سپرد کردینے کی وکالت کرتا تھا۔

نوے کی دہائی میں ہونے والی دو تبدیلیوں کے بعد یہ سب بدل چکا ہے پہلی تبدیلی سوویت یونین کا انہدام اور سوشلزم کا عملاً غائب ہوجانا تھا اور دوسری تبدیلی ڈبلیو ٹی او اور اسکے نتیجے میں ہونے والی گلوبلائزیشن تھی۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ سوویت یونین اور سوشلزم کی موجودگی میں بڑی کارپوریشنز یا سرمایہ داری نے گلوبلائزیشن کا رسک کیوں نہیں لیا؟ لیکن اس سوال پہ بحث کم ہی ہوئی۔

جو سیاسی تبدیلیاں ہم اس وقت مغرب میں وقوع پذیر ہوتے دیکھ رہے ہیں وہ گلوبلائزیشن کا قدرتی نتیجہ ہیں اس کی وجہ سے ایک طرف تو بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور دولت کی تقسیم میں تفاوت مزید بڑھی دوسری طرف صنعت کے غائب ہونے کی وجہ سے ٹیکس بیس محدود ہوگئی نتیجہ یہ نکلا سماجی سہولیات کے شعبہ کے لئے دن بدن کم رقم رہ گئی۔

سوشلزم کے عالمی سیاسی منظرنامہ سے غائب ہوجانے کے نتیجہ میں ایک نئے سیاسی نظریہ نے نیولبرلزم کے نام سے جگہ لی نیولبرلزم ایک اعتبار سے ظاہری شکل میں بائیں بازو سے ملتا بھی تھا کیونکہ یہ اقلیتوں، ہم جنس پرستوں اور معاشرے کے کارنر ہوئے طبقات کے حقوق کی وکالت کرتا تھا لیکن اپنی بنیادی شکل میں یہ انتہائی دائیں بازو کا نظریہ تھا کیونکہ کلاسیکل لبرلزم ریاست کو ایک ضروری برائی کے طور پہ اہم تسلیم کرتا تھا لیکن نیو لبرلزم کے لیے ریاست ایک غیرضروری بوجھ یا رکاوٹ ہے، یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنا پہ یہ گلوبلائزیشن کے حامیوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

یہ نیولبرلزم ہی ہے جس نے مغرب میں نظریاتی سیاست کی روایتی تقسیم کو دھندلا دیا ہے۔خاص طور پہ اینگلو سیکس دنیا، برطانیہ ، امریکہ وغیرہ میں۔ روایتی بائیں بازو کی عملی مجبوری یہ ہے کہ اگر وہ اقتدار حاصل کر بھی لیتے ہیں تو اپنے روایتی ایجنڈا یعنی بہتر سماجی سہولیات پہ عمل پیرا ہونے کے لئے مناسب مقدار میں رقم موجود نہیں کیونکہ ٹیکس بیس نہ صرف سکڑ چکا ہے بلکہ مزید سکڑ رہا ہے۔ اگر یونان کی طرح قرضہ لیکر ایجنڈا پورا کرتا ہے تو قرض کا سود دھماکہ خیز نتائج لے کر آتا ہے۔

جہاں تک دائیں بازو کا تعلق ہے تو سماجی سہولیات سرے سے انکا ایشو ہی نہیں وہ عوامی سیکٹر پہ کم خرچہ اور کم ٹیکسز کی ہمیشہ سے وکالت کرتا آیا درحقیقت یہ روایتی بایاں بازو تھا جو دن بدن دائیں بازو کی سی شکل اختیار کرتا گیا۔ یہ سوال اٹھایا جاتا رہا کہ آخر اب امریکی ری پبلکن اور ڈیماکریٹ پارٹی میں یا برطانوی لیبر اور کنزرویٹو میں کیا نظریاتی فرق رہ گیا ہے؟

ادھر عوامی سطح پہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری، کم ہوتی قوت خرید اور سماجی سہولیات نے پرانے اچھے دنوں کا ناسٹیلجیا بھی پیدا کیا جب یہ سب مسائل نہیں تھے اور انکی ریاست زیادہ آزاد اور بااختیار تھی ، جب یورپی یونین اور ڈبلیو ٹی او جیسے معاہدوں کا ریاست پہ جبر موجود نہیں تھا۔

یہ سب مل کر اس سوچ کو تقویت دیتے ہیں جو شدت پسند قوم پرستی کہلاتی ہے وائٹ سپر میسی اس کی ایک انتہاپسند انہ بگڑی ہوئی شکل ہی ہے لیکن لی پین اور ٹرمپ جیسے مین سٹریم کے سیاستدان ہیں اور انکی خاطر خواہ عوامی حمایت موجود ہے۔

اس طالب علم کی رائے میں یہ بائیں بازو ہی کی کمزوری رہی کہ وہ بدلے حالات کی چاپ کو پہچان نہ سکا۔ مثلاً یہ سوال بہت اہم تھا اور بائیں بازو کو اس پہ بحث عام کرنا چاہیے تھی کہ آخر کیوں گلوبلائزیشن کا رسک سوویت یونین اور سوشلزم کی موجودگی میں نہ لیا گیا اور اس کے بعد ہی کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

کیونکہ اس سوال پہ غور کریں تو بہت سی پرتیں کھل جاتی ہیں۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply