خود اسیری/عارف خٹک

میں چاہتا ہوں یہاں بھاگ جاؤں۔ اپنے وجود کو گھسیٹ کر یہاں سے دفعان ہوجاؤں۔ میری آرزو ہے میں اپنے اصل کی طرف لوٹ جاؤں جہاں میں ہوں میرے اپنے ہوں۔ جہاں کی ہوائیں مجھ سے مانوس ہیں۔ میرے بالوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوائیں، جس کے لمس میں ایک ماں کا پیار چھپا ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ میں اپنا آخری وقت ان پہاڑوں میں گزاروں جہاں کی فلک بوس چوٹیاں آسمانوں سے باتیں کرتی ہیں۔ اور میں ان چوٹیوں پر بیٹھ کر زمین پر ایک حقیر نظر ڈالوں اور اوپر دیکھوں کہ اے خدا میں تیرے پاس آگیا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری آنکھ کھلتی ہے میں اپنے پیروں میں زنجیریں دیکھتا ہوں جس میں میرے پیر جکڑے ہیں۔ اپنے وجود کو ہلا نہیں سکتا کہ زنجیریں کَس کر باندھی گئی  ہیں۔ ایک گرم بگولہ آکر میرے چہرے سے ٹکراتا ہے مجھے ہوش و خرد کی دنیا میں واپس لا پھینکتا ہے کہ چل اٹھ اپنی جیب سے چابی نکال اور کھل دیں اپنی زنجیریں اور بھاگ جا یہاں سے۔۔۔ میں بیتابی سے جیب میں پڑی چابی ڈھونڈتا ہوں، میرے انگلیوں سے چابی کی ٹھنڈی دھات ٹکراتی ہے میرے پورے وجود میں اطمینان کا احساس پھیل جاتا ہے۔ کپکپاتے ہاتھوں سے چابی نکال کر قفل میں لگا دیتا ہوں۔۔۔ کچھ کوششوں کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس قفل کی چابی یہ ہے نہیں۔۔ ہزار کوششوں کے بعد تھک ہار کر پھر بیٹھ جاتا ہوں اور پھر خیالوں میں کرک کے سنگلاخ پہاڑوں میں خود کو بھیڑ بکریوں کیساتھ خود کو مصروف دیکھتا ہوں۔۔اور فلک بوس چوٹی پر۔پہنچ جاتا ہوں اور خدا کو مخاطب کرکے کہتا ہوں۔
“مجھے اس عذاب سے نکال کر کب اپنے پاس بلا رہے ہو؟”۔
خدا کا جواب ہمیشہ کی طرح وہی ہوتا ہے۔
“اے میری تخلیق تیرا کچھ نہیں ہوسکتا کہ تم خود اسیری کے اسیر ہوچکے ہو”۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply