• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یکم نومبر 1947جنگ آزادی گلگت بلتستان میں برٹش ایجنٹ میجر ولیم الیگزینڈر براؤن کا کردار/ پہلا حصّہ- اشفاق احمد ایڈوکیٹ۔

یکم نومبر 1947جنگ آزادی گلگت بلتستان میں برٹش ایجنٹ میجر ولیم الیگزینڈر براؤن کا کردار/ پہلا حصّہ- اشفاق احمد ایڈوکیٹ۔

گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی واقع ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغور علاقہ واقع ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستانی زیر ِ کنٹرول جموں اینڈ کشمیر، اور جنوب میں پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہے۔

جبکہ کوہ ہمالیہ , کوہ ہندوکش اور کوہ قراقرم کے دامن میں واقع گلگت بلتستان کا یہ پہاڑی علاقہ نا  صرف اپنی قدرتی خوبصورتی، بلند بالا پہاڑی چوٹیاں، معدنیات کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ جیو  سٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ایشیاء کا مرکز کہلاتا ہے۔

ماضی میں یہ خطہ عالمی طاقتوں کے درمیان گریٹ گیم کا مرکز رہا ہے۔John Keay اپنی مشہور کتاب “دی گلگت گیم” میں لکھتے ہیں کہ ” گلگت ریجن کی اہم  سٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی عالمی طاقتوں نے گریٹ گیم کو گلگت بلتستان کی پہاڑی وادیوں میں لایا ، جہاں انڈیا ،چین، روس، افغانستان اور پاکستان کی طویل سرحدیں ملتی ہیں اور اس خطے کی خصوصیات اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ اسے ریڑھ کی ہڈی،محور ، مرکز، تاج کا گھونسلا، فلکرم، اور چائنہ کے لکھاریوں نے اسے ایشیاء کا محور قرار دیا ہے“۔

چنانچہ اسی جیو سٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی یہ علاقہ قدیم دور سے بیرونی تسلط اور جارحیت کا شکار رہا ہے تبت اور چین کی جنگ 745 صدی عیسوی سے لیکر نلت کی جنگ ہماری تاریخ کا حصّہ ہے۔

جبکہ 1840 کے بعد سے گلگت بلتستان سکھ, ڈوگرہ افواج اور تاج برطانیہ کے براہ راست زیرِ  تسلط رہا ہے اور بلآخر یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی کے نتیجے میں گلگت بلتستان سے ڈوگرہ تسلط ختم ہوا۔

بقول Martin Sokefeld یہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1840 کے وسط کے بعد کئی دہائیوں تک کشمیر کے حکمرانوں نے گلگت میں اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لئے مقامی حریف حکمرانوں کے خلاف جنگ کی خاص طور پر یاسین ویلی کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی لیکن راجہ گوہر امان کی زندگی میں ڈوگرہ افواج گلگت پر قبضہ کرنےمیں ناکام رہیں  ۔

گلگت کے لوگ اس طاقت کی رَسا کَشی کی  وجہ سے بے انتہا نقصان اٹھا چکے ہیں ،جنگ و جدل اور غلامی نے ان کی آبادی ختم کردی ہے”۔

لیکن اس کے باوجود علی شیر خان انچن اور راجہ گوہر امان کے دور سے ہی اس خطے کے عوام نے اپنی قومی بقاء اور شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی اور بیرونی تسلط کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ،بالآخر یکم نومبر 1947 کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں تاج برطانیہ اور ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ ممکن ہوا۔

لیکن تنازع  کشمیر کی وجہ سے مکمل آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا، چنانچہ 16 نومبر 1947 کے بعد سے یہ علاقہ وفاق پاکستان کے زیر انتظام ہے اور تنازع کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ۔ چنانچہ اسی پالیسی کے تحت ہی میجر براؤن کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ہیرو قرار دیا گیا حالانکہ وہ جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل مہاراجہ  کشمیر کی ریاست کا ایک ملازم تھا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ میں فرد کا رول اہم ہوتا ہے مگر انقلاب گلگت میں مقامی ہیروز اور عوام کے کردار کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔

ولیم براؤن جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ایک اہم مگر متنازع  کردار رہا ہے جس کی وفات کے 14 سالوں بعد اس کی یادداشت “گلگت ریبیلین” Gilgit Rebellion (بغاوت گلگت) کے نام سے انگریزی زبان میں شائع کروائی گئی اور سرکاری دانشوروں نے اس کتاب کو بنیاد بنا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کے متعلق سرکاری بیانیہ ترتیب دینے میں بنیادی کردار ادا کیا اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت قرار دیا گیا۔

جس طرح انڈیا میں انگریز سرکار کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ کو انگریزوں نے غدر یا بغاوت کا نام دیا تھا ۔

ہندوستانیوں نے چونکہ انگریز سامراج کے خلاف جنگ کی تھی اور ان کے جبری قبضہ اور تسلط کو چیلنچ کیا تھا اس لئےتقریبا ً تمام برطانوی اور یورپی لکھاریوں نے اسے بغاوت کا نام دیا ہے۔
دوسری طرف مشہور جرمن فلسفی کارل مارکس نے سب سے پہلے اس جنگ کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا تھا پھر ہندوستان کےمقامی تاریخ دانوں اور دانشوروں نے اس بغاوت کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا ۔

حالانکہ 1857 کی جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈیا کی  شاہی افواج کو بری طرح شکست دیکر بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا لیکن وہ جنگ سامراج کے خلاف ایک ناکام جدوجہد آزادی تھی۔

چنانچہ اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو براہ راست تاج برطانیہ کے سپرد کردیا۔

یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سب سے پہلے 1857 میں انڈیا میں تعینات انگریز سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا Earl Stanley نے برطانوی پارلیمنٹ کو اس واقعے کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوۓ اسے بغاوت کا نام دیا پھر اس کے بعد برطانوی لکھاریوں نے اسی اصطلاح کا استعمال کیا۔

بالکل اسی طرز پر جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بھی بغاوت گلگت کا نام دیا گیا اور اسی بیانیہ کے تحت ہی بغاوت گلگت نامی کتاب لکھوائی گئی جوکہ تاریخی حقائق کے برخلاف اور ایک نوآبادیاتی بیانیہ کا تسلسل ہے۔

اگرچہ 1857کی جنگ آزادی ہند میں ہندوستانی افواج اور مزاحمت کاروں کو شکست فاش ہوئی اور انڈیا پر انگریز سرکار کا مکمل قبضہ ہوا لیکن اس کے باوجود اسے جنگ آزادی ہند کہا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اس کے برعکس جنگ آزادی گلگت بلتستان میں ڈوگرہ افواج کو شکست ہوئی اور گلگت بلتستان سے ڈوگرہ اقتدار کا مکمل خاتمہ ہوا ۔

لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انڈیا کی انگریز سرکار کے خلاف ناکام جنگ 1857کو جو لوگ جنگ آزادی ہند قرار دیتے ہیں، وہی لوگ یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت کا نام دیتے ہیں جو درحقیقت نوآبادیاتی بیانیہ کا تسلسل ہے اور قابل چیلنج ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میجر بروان کے وفات کے 14 سال بعد اس کے دوستوں کے وسیع حلقے نے اس کی یادداشتوں کو مرتب کیا اور کتاب کا نام بغاوت گلگت رکھا اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت کے طور پر دنیا کے سامنے بطور ایک بیانیہ پیش کیا۔
حالانکہ ایک ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اس خطہ کے مقامی لوگوں نےگلگت سکاؤٹس کے فوجیوں کے ساتھ مل کر ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کی تھی نہ کہ اکیلے میجر براؤن نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔

البتہ آزادی گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر پر قربان کیا گیا اور گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا۔
حالانکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل ہی ریاست جموں وکشمیر پر 22 اکتوبر 1947 کو قبائلیوں نے حملہ کیا تھا جس کی وجہ سے 26 اکتوبر 1947 کو مہاراجا ہری سنگھ نے مشروط بنیادوں پر ریاست جموں و کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ کیا تھا جبکہ گلگت بلتستان نے ڈوگرہ حکومت سے آزادی کا اعلان یکم نومبر 1947 کو اس وقت کیا تھا جب کرنل حسن خان ،بابر خان ، شاہ خان ،فدا علی ان کے ساتھیوں نے عوامی مدد سے ڈوگرہ گورنر بریگیڈئیر گھنسارا سنگھ کو بمقام گلگت گرفتار کرکے پہلے دارلخلافہ کو آزاد کروایا پھر بونجی استور اور بلتستان میں ڈوگرہ افواج کے ساتھ باقاعدہ جنگ کرکے آزادی حاصل کی گئی اس جنگ میں گلگت بلتستان کے عوام اور گلگت سکاؤٹس کے مجاہدین کی  خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا کے ساتھ دستاویز الحاق نامے پر انقلاب گلگت بلتستان سے پہلے دستخط کیے تھے جب کہ گلگت بلتستان کے عوام نے گلگت سکاؤٹس کے ساتھ مل کر آزادی بعد میں یکم نومبر 1947 کو حاصل کی ہے لہذا انڈیا کا گلگت بلتستان پر دعوے  کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے چونکہ گذشتہ 75 سالوں سے یہاں ڈوگرہ حکومت یا انڈیا کا کوئی نام و  نشان تک نہیں لیکن اس کے باوجود ایک پالیسی کے تحت گلگت بلتستان کو تنازع  کشمیر میں الجھایا گیا ہے چونکہ گلگت بلتستان پر حکومت پاکستان اور انڈیا کا دعویٰ  ہے ۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان پر پاکستان انڈیا کے علاوہ کشمیریوں کا بھی دعوی ٰ ہے کہ گلگت بلتستان سابقہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے لیکن حیرت کی بات ہے گلگت بلتستان کے عوام اور لیڈرشپ اس بارے میں مجرمانہ خاموشی کی  شکار ہے  ۔

چنانچہ گلگت بلتستان کے متعلق جو بیانیہ ترتیب دیا گیا ہے اس کا مقصد اس خطے پر نوآبادیاتی قبضہ کو دوام دینا ہے۔
حالانکہ دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قومی جنگ آزادی میں جب دارالخلافہ سے بیرونی تسلط کا خاتمہ ہوتا ہےتو قومی آزادی کا اعلان کیا جاتا ہے چنانچہ یکم نومبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاستی افواج کے بریگیڈئیر گھنسارا سنگھ جو اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر تھے کو گلگت میں گرفتار کرنے کے بعد ڈوگرہ حکومت سے آزادی کا اعلان کیا گیا اور پھر اس خطے کےدیگر علاقوں کو آزاد کرایا گیا مثلاً انقلاب گلگت کے نتیجے میں ہی بلتستان کو 1948 میں آزاد کرایا گیا۔

اس کا واضع مطلب یہ ہے کہ یکم نومبر کو آزادی گلگت بلتستان کے اعلان کا اطلاق صرف گلگت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق پورے گلگت بلتستان پر ہوتا تھا جہاں ڈوگرہ حکومت کا قبضہ برقرار تھا چنانچہ یہ کہنا کہ گلگت بلتستان میں جنگ آزادی نہیں بلکہ بغاوت ہوئی تھی ایک نوآبادیاتی بیانیہ اور نوآبادیاتی پالیسی کا تسلسل ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کی وجہ سے ہی یہاں سے ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ ہوا اور گزشتہ 75 سالوں سے گلگت بلتستان میں ڈوگرہ حکومت کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے ۔

لیکن اس کے باوجود جنگ آزادی گلگت بلتستان کو محض ایک بغاوت قرار دینےکا واحد مقصد گلگت بلتستان کی آزادی کو متنازع  بنانا اور تاریخ کو مسخ کرنا ہے تاکہ یہاں کے مقامی لوگ بین الاقوامی مروجہ قوانین کے تحت دنیا کے دیگر آزاد اقوام کی طرح اپنے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کے مطالبے سے دستبرار ہوجائیں ۔
چنانچہ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میجر بروان کی وفات کے 14 سالوں بعد شائع کی گئی کتاب کا نام بھی بغاوت گلگت کیوں رکھا گیا؟

اس کا واحد مقصد نوآبادیاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر ایک بیانیہ ترتیب دینا تھا تاکہ تنازع  کشمیر کی آڑ میں آزادی گلگت بلتستان کو متنازع  بنایا جائے۔
چنانچہ اسی پالیسی کے تحت گذشتہ چند سالوں سے کچھ نام نہاد لکھاری بھی جنگ آزادی گلگت بلتستان کو میجر براؤن کی اس کتاب کو بنیاد بنا کر بغاوت گلگت اور آپریشن دتہ خیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں حالانکہ اس جعلی نام نہاد مشن کا کوئی دستاویز سرے سے موجود ہی نہیں ہے لیکن یہ فرضی کہانی تخلیق کرائی گئی اور میجر بروان کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ہیرو قرار دیا گیا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا بیانیہ پیش کیا گیا جو نوآبادیاتی قوتوں کے مفادات کے عین مطابق تھا ۔
براؤن کی اس نام نہاد کتاب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کرنل حسن خان گلگت بلتستان کی آزادی کا اعلان کر چکا تھا اور آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کو برقرار رکھنا چاہتے تھے لیکن میجر براؤن نے ان کے منصوبہ کو ناکام بنایا۔
لہذا یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے اصلی ہیرو کرنل حسن خان ، راجہ بابر خان، شاہ خان، فدا علی اور ان کے ساتھی مجاہدین اور گلگت بلتستان کے عوام ہیں جنہوں نے اس جنگ میں ڈوگرہ افواج کو شکست دیکر گلگت بلتستان کو بیرونی تسلط سے آزاد کرایا تھا۔ گلگت بلتستان کے مقامی افراد کو ہیرو کا درجہ دینے کے بجائے میجر بروان کو ہیرو بنانے کا مقصد دراصل بین الاقومی سطح پر ایک بیانیہ ترتیب دینا تھا
یہ الگ بحث ہے کہ بروان کی شازش کامیاب رہی اور محض 16 دنوں کے بعد گلگت بلتستان پر پاکستان کے نائب تحصیلدار سردار محمد عالم کی حکمرانی قائم ہوئی ۔
میجر براؤن کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب Gilgit Rebellion انگریزی کتاب کے preface لکھا گیا ہے کہ بروان کے مرنے کے 14 سال بعد یہ کتاب لکھوائی گئی جس کو مرتب کرنے میں اس کے دوستوں کے وسیع حلقے نے کردار ادا کیا کتاب میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ میجر بروان کی اصلی ڈائری تو کھو گئی تھی یا بادی النظر میں چوری ہو چکی تھی۔ اور مزے کی بات کتاب کے ابتدایہ میں واضح طور پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ میجر بروان برطانیہ کے ایک چھوٹے شہر میں گھوڑوں کا ٹرینر یعنی استاد تھا۔

یہاں یہ ذکر کرنا لازمی ہے کہ نام نہاد اپریش دتہ خیل کا سیکریٹ دستاویز آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہے جس کی بنیاد پر جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت قرار دیا گیا ہے
حالانکہ برطانیہ میں سکریٹ ڈاکیومنٹس چند سال بعد Declassified ہوتے ہیں اور پبلک کئے جاتے ہیں۔ لیکن آپریشن دتہ خیل کے متعلق آج تک کوئی اس طرح کا دستاویز سامنے نہیں آیا ہے وجہ صاف ظاہر ہے اس طرح کا کوئی خفیہ دستاویز سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔

چونکہ یہ ایک فرضی کہانی تھی جس سے ان لوگوں نے تخلیق کیا تھا جنہوں نے میجر براؤن کی وفات کے 14 سال بعد اس کتاب کو ترتیب دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سابق جنرل احمد شجا پاشا نے بھی اپنی کتاب بعنوان “مسئلہ کشمیر” میں جنگ آزادی گلگت بلتستان میں کرنل حسن خان اور بابر خان کو ہیرو قرار دیا ہے جس میں میجر براؤن کا نام تک نہیں نہ آپریشن دتہ خیل کا کوئی ذکر ہے۔

گلگت بلتستان میں بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ” بغاوت گلگت” کوئی مستند تاریخی کتاب نہیں ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کے اردو ترجمہ میں یہ ذکر تک نہیں کیا گیا ہے کہ اس کتاب کے لکھنے میں میجر بروان کے دوستوں نے کردار ادا کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply