مستعد ٹیم کا انتخاب/ظفر اقبال وٹو

تاریخ کا نہایت ہی اہم میچ شروع ہوا ہی چاہتا ہے، ٹاس ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی تک کھیلنے ٹیم کا اعلان ہی نہیں ہوا یہ میچ اس لئے بھی اہم ہے کہ تمام دنیا پاکستان کو سننے کے لئے آرہی ہے۔ آپ کے دکھ درد بانٹنا چاہتی ہے۔ نومبر پاکستان میں COP کی تبدیلی کا مہینہ ہے۔ ایک اور سرخ نومبر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ بدقسمتی سی بد قسمتی ہے کہ وہ ساری توجہ جو COP27 پر مرکوز ہونی چاہیے تھی وہ 29 نومبر پر ہے۔

تمام بڑے اپنی اپنی سودا بازی میں مصروف ہیں۔ جب کہ دنیا شرم الشیخ مصر میں آپ کو سننے کے لئے آرہی ہے۔ کانفرنس آف پارٹیز (COP27) اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی فریم ورک کنونشن پر نظر رکھنے کے لئے قائم کی گئی، جسے 1992 میں دنیا کے 154 ممالک نے دستخط کیا۔ دنیا کے ماحول کو گندہ کرنے والے تمام ممالک اس معاہدے کے تحت ماحول کی بہتری کے اقدامات کرنے کے پابند ہیں۔

جب کہ اس سے متاثرہ ممالک کو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچانے کے قابل عمل منصوبوں کے لئے امداد دی جاتی ہے۔ COP کی 27 ویں سالانہ میٹنگ 6 نومبر کو شروع ہونے جارہی ہے۔ لیکن ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا کہ اس میں پاکستان کی نمائندگی کون کر رہا اور پاکستان کون کون سے قابل عمل منصوبے اس میں فنڈنگ کے کئے لے کر جا رہا ہے۔

کس طرح لابنگ اور مذاکرات ہوں گے؟ پاکستان دنیا کے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ٹاپ کے دس ممالک میں شامل ہے اور حالیہ سیلابی تباہ کاریوں کے بعد دنیا ہمیں سننے کو بے تاب ہے۔ ہماری مدد کرنا چاہتی ہے۔ چند دن پہلے وزیراعظم کی زیر صدارت اس بارے اجلاس بھی ہوا، لیکن اس میں انہیں COP پر بریفنگ دی گئی، مگر پاکستانی وفد کے ناموں پر تاحال خاموشی ہے۔

دیکھتے ہیں، اس بار شرم الشیخ مصر جانے کا ہما کس کس کے سر پر بیٹھتا ہے۔ کیونکہ کانفرنس 6 نومبر سے شروع ہورہی ہے۔ ٹاس ہو چکا ہے، میچ شروع ہونے جارہا ہے۔ لیکن پلئیرز کو ابھی تک پتہ نہیں کہ کس نے کھیلنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب ایک نوجوان، متحرک اور پڑھے لکھے وزیر خارجہ ہیں۔ وہ پالیسی لیول پر تو اچھا بول لیتے ہیں، لیکن نچلی کمیٹیوں کی سطح پر ان کے ساتھ اس کانفرنس میں اچھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سمجھدار اور کام کرنے والی ٹیم ہونی چاہئے یہ موقع پھر نہیں ملے گا۔ امید ہے، وہ اس دفعہ ایک مستعد ٹیم کا انتخاب کریں گے۔ جو پاکستان کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑ سکے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply