گولڈن ایج (25) ۔ مراغہ/وہارا امباکر

نصیر الدین طوسی خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوئے تھے اور حشیشیوں کا حصہ رہے۔
جب ہلاکو خان نے طوس اور نیشاپور کے شہر اجاڑے تو یہاں سے فرار ہوئے۔ حسن صباح کے ساتھ پہاڑی قلعے الموت چلے گئے۔ بعد میں منگول الموت تک بھی پہنچ گئے اور اسے تاراج کیا۔ طوسی نے منگولوں کو اپنا سائنس کا مشیر مقرر کرنے پر قائل کر لیا۔ اور تہران کے مشرق میں “رصد گاہ مراغہ” 1259 میں بنایا جو آسٹرونوی کا بڑا مرکز تھا۔
طوسی نے ہونہار آسٹرونومر اکٹھے کئے۔ ان کے بنائے “زیج الخانی” ایک ماسٹر پیس ہیں۔ ان کی لکھی کتاب شکل القطعہ پہلی کتاب ہے جس کا موضوع صرف trigonometry ہے اور اسے ریاضی سے بالکل الگ ڈیل کیا گیا ہے۔ اس میں سائن رول کا اطلاق سفئیر کی مثلث پر کرنے کا طریقہ دیا گیا ہے۔
ان کی تحریریں فلسفے اور منطق پر بھی تھیں اور منگول تباہی کے بعد علمی جذبے اور روایات کو برقرار رکھا۔
مراغہ صرف ایک رصدگاہ نہیں تھی۔ اس نے کئی طرح کی سائنس کی بحالی میں بڑا کردار ادا کیا۔ کئی مورخین نے اسے انقلابِ ماراغا کہا ہے۔ یہ ابن الہیثم کے دئے گئے چیلنج کے مطابق بطلیموس کی آسٹرونومی کا ازسرِ نو جائزہ تھا۔
الطوسی کی مشہور کتاب “التذکرہ فی العلم الحی” ہے۔ اس میں طوسی جیومیٹریکل کنسٹرکشن کی وضاحت کرتے ہیں۔ (یہ Tusi couple کہلاتا ہے)۔ اس میں ایک چھوٹا دائرہ جو اپنے سے دگنے بڑے دائرے کے اندر گھوم رہا ہے۔ اور یہاں پر اس کی حرکت سے وہ بطلیموس کے سیاراتی ماڈل میں کامیابی سے اصلاح کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اور اس میں سے equants کی ضرورت ختم کر یتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج مراغہ کے کھنڈرات میں دیکھنے کو کچھ نہیں (ساتھ لگی تصویر اس جگہ کی ہے جس پر بنایا گیا گنبد کھنڈرات کی حفاظت کیلئے ہے)۔ کسی وقت میں یہاں دفاتر تھے، لائبریریاں تھیں۔ یہ تحقیقاتی مرکز تھا جس میں العرضی اور الشیرازی جیسے سکالرز تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الطوسی نے ہلاکو خان کو رصدگاہ بنانے پر قائل اس لئے کیا تھا کہ ستاروں کی چال سے زائچے بنا سکیں گے ہلاکو کی قسمت کا حال زیادہ بہتر بتا سکیں گے۔ لیکن اس کا استعمال کسی اور کام کیلئے کیا گیا۔
ماراغا سے باہر آسٹرونومی کا کام کرنے والے “موقت” تھے جن کا کام اوقاتِ نماز کا تعین تھا۔ ان میں سے سب سے مشہور دمشق کے ابنِ شاطر تھے جنہوں چودہویں صدی کا سب سے بڑا آسٹرونومر کہا جاتا ہے۔ ان کی شہرت سب سے زیادہ ایکوریٹ سورج گھڑی بنانی کی تھی۔ دمشق کی مسجد کی مینار پر نصب اس آلے سے ابنِ شاطر پیمائش کر کے مینار پر کھڑے موذن کو ٹھیک وقت پر اشارہ کر سکتے تھے۔ (یہ اس وقت دمشق کے میوزیم میں موجود ہے)۔
لیکن ابنِ شاطر کا بڑا کام الطوسی کے ریاضیاتی حربے کی مدد سے بطلیموس کے ماڈل کی تعمیرِنو کرنا ہے۔ نئی تھیوریوں پر بنا یہ ماڈل پہلے سے کہیں بہتر تھا۔ اور اس لئے کئی بار ابنِ شاطر کو “مراغہ مکتبہ فکر” کا آخری بڑا آسٹرونومر کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوپرنیکس نے سورج کی مرکزیت کا ماڈل پیش کیا۔ اس وقت تک یورپی سکالر بطلیموسی فلکیات کو ماسٹر کر چکے تھے۔ کاپرنیکس نے پیورباک اور رجیومونٹاس کی لکھی کتاب کو بڑی تفصیل سے پڑھا تھا اور بطلیموس کو بھی۔ لیکن صرف یہی نہیں۔ انہوں نے ثابت ابن القریٰ اور البطانی کو بھی پڑھا تھا اور طلیطلیہ کی زیج کو بھی۔ اور ان کی تصنیف سے لگتا ہے کہ نصیرالدین طوسی کے Tusi couple سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اور انہی کی ڈایاگرام اپنی کتاب میں استعمال کی ہے۔ چاند کی حرکت کے لئے جو ماڈل استعمال کیا ہے، وہ ابنِ شاطر کا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ کاپرنیکس کا کام غیرمعمولی نہیں تھا۔ یہ نکتہ نہیں ہے۔
بطلیموس کا ماڈل ریاضیاتی طور پر درست تھا۔ اور ماراغا کا کوئی بھی سکالر یہ انقلابی قدم نہیں لے سکا تھا کہ زمین کی مرکزیت کو ترک کرتا۔
باریک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ کاپرنیکس اپنے کام کیلئے ماراغا سکول کی تیار کردہ tricks استعمال کر رہے تھے۔ اور اس کے بغیر وہ سورج کی مرکزیت کے ماڈل تک نہ پہنچ پاتے۔
اور کاپرنیکس کا کام ماراغا کے آسٹرونومرز سے اتنا قریب ہے کہ کئی بار مورخین انہیں جدید فلکیات کے پہلے سکالر کے بجائے “مراغہ مکتب” کا آخری بڑا نام کہتے ہیں۔
بطلیموس اور کاپرنیکس کے درمیان کی کڑی مراغہ مکتب تھا اور اس کے بغیر کاپرنیکس انقلاب نہ آ سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاپرنیکس کا سورج کی مرکزیت کا خیال بڑی دلیرانہ سوچ تھی۔ کاپرنیکس اس کتاب کو پوپ پال سوئم کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور ابتدایہ میں لکھتے ہیں کہ وہ اس تھیوری کو پیش کرتے ہوئے ہچکچاتے رہے ہیں کہ کہیں پر انہیں اپنے ہم عصروں کے ٹھٹھوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ سوچتے رہے کہ اس کو چھوڑ دیں۔ صرف اپنے قریبی دوستوں کے پرزور اور مسلسل اصرار نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنا کام شائع کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سولہویں اور سترہویں صدی کے یورپی سکالر یونانی آسٹرونومر آرسٹارکس کے کام سے واقف تھے اور ان کے سورج کی مرکزیت کے ماڈل سے بھی۔
تو کاپرنیکس ایک دو ہزار سال پرانے نظرانداز کئے گئے ماڈل کو زندہ کر رہے تھے۔
جارج سلالیبا لکھتے ہیں۔
“ کاپرنیکس نے عرب آسٹرونومرز کے دریافت کردہ تھیورم استعمال کئے جو دو سے تین سو سال پرانے تھے۔ اور یہ کسی طرح بھی ان کے کام کی اہمیت کو کم نہیں کرتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ heliocentricity کی تھیوری کے بانی ہیں اور ان کا کام اس حوالے سے ایک ماسٹر پیس ہے”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply