• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ سراؤں کے خلاف پرو پیگنڈہ کرنے کا آسان طریقہ/ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراؤں کے خلاف پرو پیگنڈہ کرنے کا آسان طریقہ/ثاقب لقمان قریشی

پروپیگنڈہ کا مطلب ایسی سچی، جھوٹی معلومات جس کو منظم طریقے سے پھیلایا جائے۔ پھیلانے کے بعد اپنی مرضی کی عوامی رائے قائم کی جائے۔ پھر رائے کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ خواجہ سراء ہمارے معاشرے کا پسا ہوا طبقہ ہے میرے جیسے معمولی لوگ انھیں برابری کے حقوق دلوانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ تو دوسری طرف کچھ معتبر شخصیات خواجہ سراؤں کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہی ہیں۔

پروپیگنڈے کی طاقت سچائی کی طاقت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ہم بھلائی عام کرنے کیلئے صرف سچ کا سہارا لیتے ہیں جبکہ منفی قوتیں ہر قسم کے بے بنیاد الزامات کا سہارا لے کر اپنی بات سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتی  ہیں۔

خواجہ سراء کیونکہ مظلوم اور محروم ترین کمیونٹی ہے۔ اس مختصر سی کمیونٹی میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ لوگ ہم سے لڑ تو نہیں سکتے اس لیے اپنا سارا غصہ ایک دوسرے پر نکال دیتے ہیں۔ شدید احساس محرومی کی وجہ سے یہ ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگا دیتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔

گزشتہ برس میں نے اسلام آباد کے ایک مشہور خواجہ سراء کا انٹریو کیا۔ پھر اگلے انٹرویو کیلئے دوسرے خواجہ سراء کی تلاش شروع کر دی۔ ایک اور مشہور خواجہ سراء کا نمبر ملا میں نے اس سے پچھلے انٹرویو کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگا کہ آپ نے جس خواجہ سراء کا انٹرویو کیا ہے اس کی اصلیت کا علم ہے۔ میں نے کہا ،نہیں! کہنے لگا اسے ایڈز ہے۔ وہ زمانے سے ایڈز کی دوائیاں کھا رہا ہے۔ آپ کہیں تو ثبوت منگوا کر دے سکتا ہوں۔

کچھ عرصہ بعد خیبرپختون خوا کے ایک خواجہ سراء کا انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا۔ ایک خواجہ سراء نے انٹرویو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کیا اور کہنے لگا۔ آپ بھی سادے ہیں ،میں نے کہا ،کیوں؟ کہنے لگا اس کے دو بچے ہیں۔ یہ ویسے ہی خواجہ سرا ء بنا پھرتا ہے۔

اسی طرح لاہور کی ایک خواجہ سراء جس نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ کلاسیکل ڈانس اسکی وجہ شہرت ہے۔ اسکے بارے ایک خواجہ سراء نے کہا کہ اس نے ایل-جی-بی-ٹی والوں سے کروڑوں روپیہ لیا ہوا وغیرہ۔

خواجہ سراؤں نے مجھے اپنا خیر خواہ سمجھتے ہوئے اپنے وٹس ایپ گروپس میں شامل کیا ہوا ہے۔ جہاں میں ان کے درمیان چلنے والے بحث مباحثے سن سکتا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے گفتگو کے دوران جب ایک خواجہ سراء کا دوسرے کے موقف سے اختلاف ہو جاتا ہے تو یہ ایک دوسرے پر طرح طرح کے سنگین الزامات لگا دیتے ہیں۔ ایسی ایسی گالیاں اور بددعائیں دیتے ہیں جو شاید ہم نے پہلے کبھی نہ سنی ہوں۔ بات زیادہ بڑھ جائے تو لاہور میں بیٹھا خواجہ سراء کراچی میں بیٹھے خواجہ سراء سے کہتا ہے تو میرے سے چند گھنٹے کی دوری پر ہے۔ میں نے کراچی آکر تیرا وہ حال کرنا ہے کہ پوری دنیا دیکھے گی۔

میں جانتا ہوں کہ یہ سب گیدڑ بھبھکیاں ہیں، کرنا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بس لڑ جھگڑ کر دل کا بوجھ ہلکا کرنا ہوتا ہے۔ سنگین نوعیت کے بہتان اور الزامات لگانے کی وجہ شاید یہی ہے کہ خواجہ سراؤں کو عام لوگوں سے زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انکی احساس محرومی ہم سے کہیں زیادہ ہے۔

میں نے خواجہ سراؤں کی بھلائی کیلئے کام کرنا تھا اس لیے میں نے ان الزامات پر کبھی کان نہیں دھرے بلکہ خاموشی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ خواجہ سراؤں کے حقوق پر اتنا لکھا جتنا شائد پہلے کبھی کسی نے نہیں لکھا۔

راولپنڈی کی مشہور خواجہ سراء الماس بوبی جو شاید کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ الماس بوبی نے بھر پور زندگی گزاری ہے اور اب گمنامی کی زندگی جی رہی ہیں۔ ان کی جگہ نئے پڑھے لکھے خواجہ سراؤں نے لے لی ہے۔ اسی طرح اسلام آباد سے تعلق رکھنے والا ایک خواجہ سراء جس کا نام ندیم کشش ہے۔ جسے کمیونٹی نے کبھی اہمیت نہیں دی- الماس بوبی اور ندیم کشش کی خواجہ سراء کمیونٹی میں کوئی اہمیت نہیں اس لیے یہ کمیونٹی پر الزامات لگا کر خبروں کی زینت بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

سینیٹر مشتاق صاحب نے خواجہ سراؤں کے بل کو متنازع بنانے کیلئے انہی دو شخصیات کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اوریا مقبول جان صاحب نے بھی ایک خواجہ سراء پر کیس کر رکھا ہے وہ بھی خواجہ سراء کمیونٹی پر الزامات کیلئے اسی قسم کے حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔

ناراض خواجہ سراؤں کے سنگین الزامات کے بعد سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر بیٹھے نام نہاد صحافیوں کو ویڈیوز اور میسجز بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ ویڈیوز دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل جاتی ہیں۔ ایسی ویڈیوز خواجہ سراء کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے تشدد اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت پوری کمیونٹی عدم تحفظ کا شکار ہے جس کی وجہ یہی ویڈیوز ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں سمجھتا ہوں کہ سینیٹر مشتاق اور اوریا مقبول کو اپنے موقف کی جنگ قانونی طور پر لڑنی چاہیے۔ ناراض خواجہ سراؤں کو اپنے ساتھ ملانا پروپیگنڈے کے زمرے میں آئے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply