میں تاں ہونڈا ای لیساں۔۔عارف خٹک

دنیا بھر میں بنک اپنے کسٹمرز کو کیا کیا سہولیات اور سروسز دیتا  ہے، مگر ہمارے ہاں سہولیات اور سروسز کو تو چھوڑو، کسی بنک کا کیشئر بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتا۔ جب آپ بنک کی  برانچ میں جاتے ہیں تو عموماً  وہاں حفاظت پر تعینات سکیورٹی گارڈز ہی ہوتے ہیں جو  آپ کو کرسی پر بٹھاتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں ٹوکن تھماتا   ہے اور  آپ کو بتاتا ہے کہ کیشئر صاحب ابھی مصروف ہیں ، آپ انتظار کریں۔ کیشئر صاحب کا موڈ اچھا ہوا تو سمجھو  آپ کا کام ہوگیا ،ورنہ آپ کا دیا گیا چیک  آپ کے منہ پر واپس مار کر سو قانونی اعتراضات اٹھا دیے جاتے ہیں ۔ ورنہ آسان حل اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا 1960 کا بنا کوئی قانون جس کا اسٹیٹ بنک کو بھی علم نہیں ہوتا، صاف انکار کر کے  آپ کو چلتا کردیتا ہے۔ یہی صورتحال کم و بیش آن لائن سروسز والو ں  کا بھی ہے جنہوں نے دو تین رٹے ہوئے جملے سیکھے ہوتے ہیں “سر میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟”۔ اور دوسرا جملہ “سر میں معذرت خواہ ہوں”۔

کرونا وائرس کی وبا سے پہلے بیرون ملک جانے کا پروگرام بنا۔ جیب میں اپنے بنک کا ڈیبٹ کارڈ رکھا، کہ کیش لیکر جانے کا جھنجھٹ کون پالے۔ کراچی ائیرپورٹ پر کسٹم والوں کی بھرپور تلاشی کے بعد بالآخر مبلغ تین سو پندرہ روپے کیش بر آمد ہوئے۔ حیرت سے پوچھا “سر باہر جاکر کیسے گزارہ کریں گے؟”۔ جواب دیا “جیسے یہاں کررہا ہوں”۔

عارف خٹک

دبئی ایئرپورٹ پہنچا۔ سامنے دو تین ایستادہ اے ٹی ایم مشینوں میں سے ایک کا انتخاب کرکے کارڈ اندر ڈالا کہ ہزار درھم نکال کر ہوٹل اور ٹیکسی کا بندوبست کرلوں۔ تھوڑی دیر کے بعد اسکرین پر پیغام آیا “آپ کو مطلوبہ سروس فراہم نہیں کی جاسکتی”۔ سوچا دبئی والوں کو بھی پاکستان کی ہوا لگ گئی ہے۔ دوسری اور تیسری مشین سے بھی یہی پیغام ملا۔ تو ہاتھ پیر پھول گئے، کہ یااللہ اب کیا کرونگا؟۔ دیار غیر میں ہوں۔ تین سو پندرہ کے بدلے اتنے درھم تو نہیں مل سکتے،کہ ٹیکسی کا کرایہ ادا کرسکوں۔ ہوٹل کی ادائیگی کہاں سے کرونگا؟۔ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور یو بی ایل UBL کی شان میں وہ کلمات بازبان بلند ادا کیے کہ کیا بتاؤں۔ دل میں آیا کہ فیس بک پر اسٹیٹس لگاکر مدد مانگوں مگر دو روپے والے دانشوری کی آنا بیچ میں آجاتی۔ موبائل کارڈ میں بیلنس تک نہیں تھا۔ کہ کسی کو کال کرکے بلالوں۔ سوچا کسی سے موبائل لے لیا جائے مگر کال کس کو کروں۔

اسی کشمکش میں مجھے اندر لاونج میں چار گھنٹے گزر گئے۔ سامنے ایک شاپ پر ایک فلپائنی خاتون غور سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ رات کا ایک بجا ہوگا۔۔ کہ یاد آیا کہ ان لائن بینک سے رابطہ کروں۔ فری وائی فائی سے منسلک ہوا اور ایک پھڑکتی  پھنکارتی  ای میل اپنے UBL کو بھیج دی، کہ مجھے آج آفسوس ہورہا ہے کہ میرا اکاؤنٹ آپ کے بنک میں ہے۔ میں آپ لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرونگا۔ میں پچھلے چار گھنٹے سے دبئی ایئرپورٹ پر بغیر پیسوں کے  بٹھا ہوا ہوں۔ اپنے بیگ پر بیٹھے بیٹھے ایک سیلفی بھی بھجوا دی۔ اب میں کیا کروں۔ یاد رہے، میں نے ای میل کا سبجیکٹ “SOS” لکھا جو پرانے زمانے میں بحری جہاز تباہ ہوتے وقت بوتل میں “ہماری جان بچائیے” کا پیغام بھیج  کر مدد کی  آخری کوشش کرتے تھے۔ میں نے بھی وہی حرکت کی۔

ای میل لکھ کر پھر وہی پریشانیاں وہی اندیشے کہ کیا ہوگا۔۔

دس منٹ بعد میرے موبائل پر ای میل کی گھنٹی بجی۔ بیتابی سے چیک کیا۔ بنک کی طرف سے جوابی ای میل آئی ہوئی تھی۔ کہ سر آپ نے ملک چھوڑتے وقت اپنا کارڈ ایکٹیویٹ نہیں کروایا کیونکہ بیرون ملک آن لائن فراڈز کیوجہ سے ہم نے یہ سہولت ختم کردی ہے۔ آپ ہر گز پریشان نہ ہوں۔ آپ اس نمبر پر کال کریں۔”۔ بیتابی سے جواب لکھا “بھیا میرے پاس بیلنس نہیں ہے صرف سات درھم ہے۔ اپنا پاسپورٹ، اے ٹی ایم کی کاپیاں بھیج رہا ہوں۔ اگر  آپ کال کرسکتے ہیں تو یہ میرا نمبر ہے۔”

اب تھوڑا سکون ہوا کہ ان شاءاللہ اچھا ہوگا۔ دو منٹ کے بعد پاکستان سے UBL کی کال آئی۔ پہلے تو وہ میرے حالات سن کر افسوس کرتا رہا۔ پھر شناختی دستاویزات چیک کئے۔ اور بالآخر کہا “سر میں  آپ کو ایک ٹرانزیکشن کی اجازت دیتا ہوں۔ کل صبح دس بجے بنک  آپ سے رابطہ کرے گا۔  آپ کا کارڈ قابل استعمال ہوجائیگا۔ آپ کو جو تکلیف ہوئی اس کیلئے میں معذرت خواہ ہوں”۔

میں بھاگ کر اے ٹی ایم کے پاس گیا۔اور ایک ہی ٹرانزیکشن میں پانچ ہزار درھم نکال لئے کہ مبادا کل بنک والے فون کرنا نہ بھول جائیں ۔ میری خوشی کی انتہاء نہیں رہی۔ سامنے خاتون کے پاس گیا۔ وہ بھی حیران کہ مجھے ہوا کیا ہے۔ اس کو سارے حالات کا بتایا وہ بھی خوش ہوگئی۔ دل میں آیا کہ پانچ ہزار درھم یہیں  ا س پر اُڑا دوں مگر خود کو قابو میں رکھا کہ گھر میں تین بیویاں بھی انتظار کررہی ہوں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون لکھنے کا مقصد بنک کی مشہوری نہیں ہے بلکہ دوسرے بنکوں کو بتانا ہے کہ مشکل حالات میں  آپ کو کسٹمر کی مدد کرنا چاہیے۔اور  آپ کو بھی بتانا مقصود ہے کہ منہ اٹھا کر صرف “پانچ انچ” کے کارڈ کے آسرے ہرگز باہر نہ جائیں۔ ایک فون کرکے اپنا کارڈ ضرور ایکٹیویٹ کروائیں۔ ورنہ ضروری نہیں کہ آپ کے بنک کو آپ پر رحم آجائیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک