ساس کی درخواست ۔۔۔۔۔ تھانیدار کے نام

تھا نیدار صاحب ! میں ایک جوان اور خوبصورت بیٹے کی ماں اور ایک چڑیل کی سا س ہوں ‘ آج سے پانچ سال پہلے میں نے اپنے بیٹے کی شادی اپنی پسند سے کی تھی‘ میرے بیٹے کے لئے ہزاروں رشتے آئے تھے لیکن میں نے سب کو چھوڑ کر اِس کمینی کو اپنی بہو منتخب کیا۔میرا خیال تھا کہ کھاتے پیتے لوگ ہیں چلو اور کچھ نہ سہی جہیز میں فریج تودیں گے ہی‘ روز روز کی برف لانے سے توجان چھوٹے گی‘کمبخت فریج تو لے آئی لیکن اُسے اپنے کمرے میں لاک لگا کے رکھا ہوا ہے ۔تھانیدار صاحب! میری بہو انتہائی معمولی شکل و صورت کی ہے ‘ بس ذرا رنگ چٹا ہے ‘ زیرو فگر ہے ‘ بڑی بڑی آنکھیں ہیں اور گلابی ہونٹ ہیں ‘ لیکن اِس سے کیا ہوتا ہے ؟؟؟ میں بھی جوانی میں ایسی ہی تھی پھر بھی دو سال بعد شوہر نے منہ پر طلاق دے ماری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تھانیدار صاحب ! میں بڑے چائو سے اِس منحوس کو بیاہ کر لائی تھی ‘ لیکن یہ تو سارا خاندان ہی ”چول ‘‘نکلا‘ ہمارے ہاں رواج ہے کہ لڑکے والوں کی ساری خواتین کو دو دو بنارسی سوٹ دئیے جا تے ہیں لیکن ان کنجوسوں نے ہمارے ہاتھوں میں ” کرنکل کریب ‘‘ کا ایک ایک سوٹ تھما دیا‘ وہ بھی بغیر دوپٹے کے…میں نے منہ بنایا تو مجھے خوش کرنے کے لئے ڈیڑھ تولے کی دو بالیاں پکڑا دیں‘ ڈیزائن پرانا تھا لیکن میں چونکہ اللہ لوک عورت ہوں اس لیے خاموشی سے رکھ لیں اور ہنسی خوشی اس”کلموہی‘‘ کو بیاہ کر گھر لے آئی۔ ولیمے والے روز میں نے بیٹے کو سمجھایا ہوا تھا کہ پتر سلامی کے پیسے مجھے لا کے دینا لیکن اس جا دوگرنی نے ایک ہی رات میں پتا نہیں اُس کے کان میں کیا منتر پھونکا کہ صبح اٹھتے ہی اُس نے سارے پیسے اِس کھصماں نوں کھانی کی جھولی میں ڈال دیئے ۔میں نے پھر بھی درگزرسے کام لیا اور ناشتے سے پہلے دونوں کے لیے بڑی محبت سے گرم گرم دودھ کا گلاس لے کر آئی‘ میرے بیٹے کو ہمیشہ سے دودھ بہت پسند رہا ہے۔ اُس بیچارے نے خوشی خوشی گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو یہ بدبخت عورت دانت پیس کر بولی”کل سے دس گلاس دودھ کے پی چکے ہو‘ اب دودھ کا پیچھا چھوڑو اور کوئی گوشت وغیرہ بھی کھائو‘‘۔
تھانیدار صاحب! میں نے ہمیشہ اپنی بہو کو اپنی بیٹی سے بڑھ کر سمجھا لیکن اس مکار عورت نے کبھی میری عزت نہیں کی۔ شادی کے تیسرے دن میں نے اسے اپنے پاس بٹھایا ‘ سر پر پیار کیا‘ اپنے جہیز کی سب سے قیمتی چیز یعنی ” پیتل کا لوٹا ‘‘ اس کو دیا اور کہا کہ بیٹی یہ آج سے تمہارا ہوا‘ آگے سے منہ بسور کر بولی ” اِس کا میں نے کیا کرنا ہے ؟‘‘ اندازہ کریں… یعنی ساس لوٹا بھی دے اور یہ بھی بتائے کہ اس کا کرنا کیاہے ۔ ایک دن میں نے اس سے کہا کہ بیٹی مجھے کبھی ساس نہ سمجھنا ‘ مجھے اپنی سگی ماں سمجھنا ‘ بڑی چالاکی سے سر جھکا کر بولی ” اچھا امی جی ‘‘ میں خوش ہو گئی کیونکہ میں تو ہوں ہی پیار کی بھوکی‘ میں نے بڑے چائو سے کہا ” پتر میرے لئے تم میری بیٹی سلمٰی سے بھی بڑھ کر ہو‘ یہ گھر تمہارا ہے اور آج کے بعد تم ہی نے اسے سنبھالنا ہے لہٰذا میں نے کام والی کی چھٹی کرا دی ہے ‘ آئندہ سے برتن‘ کپڑے‘ صفائی اور مشین لگانا تمہاری ذمہ داری ہے۔تو بہ استغفار تھانیدار صاحب میری بات سنتے ہی یہ چڑیل بھڑک اٹھی اور بد تمیزی سے بولی ” اگر یہ گھر میرا ہے توآپ نکلیں یہاں سے ‘‘ ۔
تھانیدار صاحب ! میرے بیٹے کی شادی کو پانچ سال ہوچکے ہیںاور میں اب تک پوتے کے لئے ترس رہی ہوں ‘ جب بھی کہتی ہوں کہ ” میں نے پوتے سے کھیلنا ہے ‘‘ تو بڑے عجیب و غریب جواب دیتی ہے۔ تھانیدار صاحب ! میری بیٹی کی شادی کے دن قریب ہیںمیں نے اِس سے کہا کہ اپنے جہیز کا ٹی وی ‘سونے کا سیٹ ‘ چار کڑے ‘ فوڈ فیکٹری ‘ کوکنگ رینج ‘ ڈنر سیٹ ‘ ٹی سیٹ ‘ شو کیس‘ اوون ‘ سینڈوچ میکر ‘ پریشر ککر ‘ چھ وکی رضائیاں‘ چار کمبل اور بڑے والی پیٹی ‘ میری سلمٰی کے لئے دے دو ‘آخر وہ بھی تمہاری چھوٹی بہن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دھاڑ کر بو لی ” میری ایسی لڑاکا بہن ہوتی تو میں اس کے منہ پر تھپڑ دے مارتی ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ اندازہ کریں ” ذات کی شیخ اور راجپوتوں کو تھپڑ‘‘۔۔۔۔۔۔۔!!!
تھانیدار صاحب! مجھے شک ہے کہ اِس نے میرے بیٹے پر تعویذ بھی کروائے ہوئے ہیں اور تعویذ بھی اتنے سخت کہ پہلے میرا بچہ رات کو تین تین بجے تک جاگتا رہتا تھا اب آٹھ بجے ہی جماہیاں لینی شروع کر دیتا ہے۔ محلے کی ساری عورتیں اپنی اپنی بہوئوں سے اسی طرح تنگ ہیں پتا نہیں‘ ہمیں کس گناہ کی سزا ملی ہے‘ میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ میری بہو کس کس قسم کے ”کھلے چاک‘‘ والے کپڑے پہنتی ہے اور کیسا بھڑکیلا میک اپ کرتی ہے۔ ایک دن میں نے دبے لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کی تو گھور کر بولی ” پہلے اپنی بیٹی کو سمجھائو جو ٹا ئٹ جینز پہن کر لگی پھرتی ہے ‘‘ ۔۔۔۔۔ میری تو آنکھیں پھیل گئیں ‘ میری پھول سی بچی پر ایسا بے ہو دہ الزام ‘ وہ بے چاری خود کہاں جینز پہنتی ہے اُسے توہمسائیوںکے لڑکے اشرف نے فر مائش کر دی تو اس نے جینز پہننا شروع کر دی ورنہ اللہ جانتا ہے وہ تو سکرٹ پہننا چاہتی تھی۔ تھانیدار صاحب ! میری بیٹی تو اتنی شرم و حیا والی ہے کہ گلی میں سبزی والا بھی آ جائے تو دس منٹ سے زیادہ اُس سے بات نہیں کرتی اور ایک میری بہو ہے کہ میری ذرا سی بھی نظر ادھر ادھر ہو تو باورچی خانے میں جا کر پکتی ہانڈی میں سے بو ٹیاں نکال کر کھا جا تی ہے۔
تھانیدار صاحب!میں ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ ہوں‘ ڈاکٹر نے مجھے کہا ہو اہے کہ جب بھی بلڈ پریشر ہائی ہوجائے تو فوراً کوئی میٹھی چیز کھالیا کریں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میرا بلڈ پریشر اچانک شوٹ کر گیا اور سر شدید بھاری ہو گیا ‘ میں گھبرا گئی ‘جلدی سے اس کے کمرے میں جا کر اِس کے دراز میں سے فریج کی چابی نکالی او رفریج میں سے ڈیڑھ لیٹر آئس کریم اور سوا دو لیٹر کی پیپسی نکال کر بڑے آرام سے اس کے ڈبل بیڈ کے نیچے گھس کرکھانے لگی‘ ابھی بوتل پینے کے بعد مجھے ڈکار بھی نہیں آیا تھا کہ ِاس ”مرن جوگی‘‘ کی نظر میری ”گُت‘‘ کے کونے پرپڑ گئی ‘ ہائے تھانیدار صاحب! میں کیا بتائوں‘ اِس کمبخت نے وہیں سے میری گُت پکڑ کر کھینچ لی‘ میری چیخیں نکل گئیں‘ میں چلاتی رہ گئی لیکن اِسے ذرا رحم نہ آیا…اِس نے مجھے گھسیٹ کر باہر نکالا اور جمپ لگا کر میرے اوپر چڑھ گئی…میرے تو ہوش اڑ گئے‘ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی‘ اس نے ڈائن کی طرح دونوں ہاتھ کھولے اور میرا گلا پکڑ کر دبانا شروع کر دیا…میرا سانس رک گیا اور نبض ڈوبنے لگی…میرا دم نکلنے ہی والا تھا کہ اللہ بھلا کرے عین وقت پر میرے بیٹے کے سکوٹر کی آواز آگئی اور اِس نے گھبرا کے مجھے چھوڑ دیا۔یقین کریں پونے چھ منٹ تک میری سانس ہی بحال نہیں ہوئی‘ پھر جیسے ہی مجھے ہوش آیا‘ میں نے اپنے بیٹے کو رو رو کر ساری بات بتائی‘ لیکن میں حیران ہوں کہ اُس نے ذرا سا بھی اپنی بیوی کو نہیں ڈانٹا‘ الٹا مجھ پر ناراض ہونے لگا کہ میں کیوں کمرے میں آئی تھی۔میں نے اُسی وقت اپنے بیٹے کو خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ میں تمہاری دوسری شادی کرا دیتی ہوں‘ اِس بانجھ عورت کو طلاق دے دو اِس کے تو اولاد بھی نہیں ہورہی‘ یہ سنتے ہی یہ بدزبان عورت گلا پھاڑ کر چلائی کہ”اولاد چاہیے تو اِس کی نہیں‘ میری دوسری شادی کرائو‘‘۔
تھانیدار صاحب! میری بہو نے مجھ پر جو ”قاتلانہ حملہ‘‘ کرنے کی کوشش کی ہے اُس کے بعد میرے گلے کی ساری نالیاں گڑبڑ ہوگئی ہیں‘ میں کسی بھی وقت مر سکتی ہوں‘ آپ سے گزارش ہے کہ فوراً میری بہو کو گرفتار کریں‘ 302 کا پرچہ دیں اورکسی زہریلے سانپوں والی حوالات میں بند کریں۔شکریہ! فقط دنیا کی سب سے اچھی ساس!!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply