روداد ِسفر (50،آخری قسط) مذہبی فکر کی ری کنسٹرکشن۔۔شاکر ظہیر

پاکستان منتقل ہونے کے بعد بہت سی علمی محفلوں میں شرکت کی تو اندازہ ہوا کہ جو آج کی نئی نسل ہے وہ تو بہت آگے چلی گئی ہے ۔ مذہب کے حوالے سے دو انتہائیں پائی جاتی ہیں اور معاشرہ آہستہ آہستہ دو مخالف سمتوں کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ یا تو مذہب کے حوالے سے بے حد و حساب افراط کا شکار ہے اور یا بالکل لاتعلق ہوتا جا رہا ہے  ، یعنی وہ ساری منزلیں جو یورپ نے پانچ سو سال میں مذہب کے حوالے سے طے کیں وہ شاید آج ذرائع ابلاغ کے دور میں دس بیس سال میں طے ہو جائیں ۔ نوجوان نسل اپنے ہاتھ میں موبائل اور انٹرنیٹ لے کر پیدا ہوئی ہے،اور اس کا رابطہ دنیا کی ہر فکر کے ساتھ ہے ۔ سوالات کا پلندہ ان کے پاس ہے اور شاید مذہب کے نمائندے ان کے جوابات دینے کےلیے تیار ہی نہیں ۔ کچھ خود کو مذہب کا نمائندہ کہنے والے اسلامی نظام کے نعرے لگا رہے ہیں اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ مذہب کوئی نظام دیتا ہے کہ نہیں دیتا، یہ بعد کی بات ہے یہاں تو نئی نسل مذہب کے وجود ہی پر سوال اٹھا کر کھڑی ہے کہ مذہب کی ضرورت کیا ہے ؟ میں کسی الہامی مذہب کو کیسے مانوں جس کا مالک ایک ایسا خدا ہے جس کو میرے حواس خمسہ اپنے احاطے میں نہیں لا سکتے ۔ اور اگر وہ خدا اور خالق ہے بھی تو کہیں یہ سب بنانے کے بعد الگ ہو کر بیٹھ گیا ہے دنیا اور اس کا نظام ہم انسانوں ہی نے چلانا ہے اور ہمارے پاس اس کو چلانے کےلیے عقل بھی ہے اور تجربہ بھی ۔

کچھ مذہب کے نمائندے اپنی خانقاہوں میں محفلیں سجا کر اپنی حکومت قائم کر کے بیٹھے ہیں اور شاید معاشرے سے لاتعلق بھی ۔ ان کی باتیں اس دنیا کی ہیں جو خوابوں اور عقیدت پر بنیاد رکھتی ہیں اور ان دونوں کی علم کی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ۔ یہ صرف اندھی عقیدت ہی ہے کہ کچھ لوگ سکون کی تلاش میں یا اپنی پرانی روایت کے حوالے سے ان کے پاس چلے جاتے ہیں اور میرے خیال میں وہ بھی کچھ عرصے کی ہی بات ہے کہ یہ بھی ختم ہو جائے شاید ۔ اس کا احساس شاید انہیں خود بھی ہے اس لیے تبلیغی جماعت کی شکل میں اس خانقاہ کو وہ محلے محلے اور مسجد مسجد گھما رہے ہیں کہ لوگ اگر ہمارے پاس نہیں آ رہے تو ہم کچھ دین کی بنیادی باتیں لے کر ان کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ ان کے پاس بھی وہی خوابوں اور عقیدتوں کی باتیں ۔

اب تو یہ حالت بھی ہو گئی کہ یہ مذہب کے نمائندے لوگوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہماری اور ہمارے علما  کی  عزت کریں ۔ ابھی یہ عزت کرنے والی بات کسی حد تک نارمل لہجے میں کی جا رہی ہے شاید کچھ عرصہ بعد یہ گزارش والا لہجہ بن جائے ۔ انہیں اس بات کا شاید ادراک نہیں کہ عزت اس علم کی کی جاتی ہے جو لوگوں کےلیے فائدہ مند ہو ۔ ورنہ کیا امام ابو حنیفہ کی کوئی چار کان اور دس آنکھیں تھیں یا کیا ان کو خدا نے کوئی تقدس دے رکھا تھا ۔ وہ علم امام ابوحنیفہ نے لوگوں کو دیا جو اس وقت ان کی ضرورت تھی ۔ آج جس کی ضرورت ہے وہ مذہب کے نمائندے عوام کو دیں ، عزت کےلیے مطالبہ نہیں کرنا پڑے گا ۔

ایک اور طبقہ ہے جو ایک خاندان کی عصبیت لے کر کھڑا ہے  کیونکہ رسول اللہ ﷺ عرب کے ایک خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اسی سے ہمارا تعلق بھی ہے اس لیے ہمیں بھی خاص مقام دیا جائے ۔ یہ مطالبہ بھی آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے ۔ ہماری ٹیکسلا عدالت میں ایک وکیل محترم خود کو سید کہہ کر جنت میں پلاٹوں کی بکنگ کر رہے تھے ۔ ہمارے دوست شیخ کلیم ایڈووکیٹ کو بھی انہوں نے آفر کی ۔ شیخ صاحب نے ان سے مطالبہ کیا کہ پہلے اپنی ڈی این اے رپورٹ دکھاؤ کہ تمہارا کوئی تعلق عرب سے ہے بھی کہ نہیں ۔ ہم پلاٹ خرید لیں بعد میں پتہ چلے کہ تم تو بھکر کے مصلی ہو ۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی ایک مذاق ہی بن گیا ہے ۔ پھر 14  سو سال پہلے کی بات وہیں رہ گئی  ، ریاست ریاست ہوتی ہے یہ آج بھی ویسے ہی ظالم ہے کہ اپنے خلاف متوقع خطرے کو برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ۔ انسانی جان کی حرمت برابر ہے چاہے کسی عالم کی ہو یا عامی کی ۔ فرق دنیاوی نقصان ہی کے حوالے سے ہوتا ہے ۔ یہ طبقہ بھی بہت سے سوالات لئے کھڑا ہے اور ان کے علما  وہی عقیدت کی کہانیاں سنا کر وقت   گزار رہے ہیں ۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا، سوالات کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ عقیدت کوئی بنیاد نہیں رکھتی یہ ایک پردہ ہوتا ہے جو جب تک دماغ پر پڑا رہے تب تک انسان ہر بات کو قبول کرنے کےلیے تیار ہو جاتا ہے لیکن جیسے ہی اس پردے میں سوراخ ہو جائے تو حقیقی علم کی روشنی کو آنکھوں تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔

ایک عرصے سے مذہب کو معاشرے پر معاشرے کی حقیقی حالت کو سمجھے بغیر یا معاشرے کی اس کے حوالے سے تربیت کیے بغیر نفاذ کے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور مطالبات کیے جا رہے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ مذہبی جماعتیں سمٹتی جا رہی ہیں اور اس میں جماعت اسلامی نمایاں ہے ۔ لوگ اب ان کے نعرے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔ اس کی وجہ معاشرے کی اصل حقیقی حالت کا مذہب کے حوالے سے ادراک نہ کرنا ہے ۔ مذہب ہمیشہ آئیڈیل کی بات کرتا ہے جب کہ انسانی سماج تاریخ میں کبھی آئیڈیل نہیں ہوا ۔ یہ مذہبی نمائندے آئیڈیل کو اٹھا کر معاشرے پر لاگو کرنا چاہتے ہیں ۔ جب کہ اصل کرنے کا کام معاشرہ جس حالت میں ہے اس کا ادراک کرکے معاشرے کو آئیڈیل کی طرف لے کر چلنا ہے ۔

یہ خیالات ان کے پاس ہیں جو ہائیر ایجوکیشن میں ہیں یعنی یونیورسٹیوں کے طلبہ ۔ یہ لوگ معاشرے کی کریم کہلاتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے کل کو معاشرے کی باگ دوڑ سنبھالنی ہوتی ہے ۔ یہ میں کوئی خیالی باتیں نہیں کر رہا یہ ان علمی محفلوں کی بات کر رہا ہوں جہاں یونیورسٹیوں کے طلبہ شریک ہوتے رہے ہیں ۔ ان کے سوالات ایسے ہی تھے ۔ پھر ہمارا مذہبی طبقہ ان پر مذہب کے نام سے وہ کچھ لادنے کی کوشش اور انتہائی کوشش میں ہے جو مذہب کا مطالبہ نہیں بلکہ کلچر ہے ۔

سوال تو یہاں تک اٹھ رہے ہیں کہ آج کا نوجوان اگر آپ اسے اعتماد دیں تو یہ بھی پوچھتا ہے کہ کیا خدا کی ذات پر سوال کیا جا سکتا ہے ۔؟ یا ہمارے عقائد تو صرف تصورات پر قائم ہیں یعنی نہ خدا کو کسی نے دیکھا ، نہ دوسری زندگی کو کہ وہ واپس آ کر ہمیں بتائے کہ اس زندگی کی دوسری طرف بھی کچھ ہے یا نہیں ۔ یہ باتیں کوئی خیالی نہیں خود میرے سامنے یہ سوالات آئے ہیں ۔

ابھی کچھ عرصے سے عشق اور محبت کے نام سے نیا ورژن مارکیٹ میں لانچ کیا گیا ۔ کہ عشق رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے اور موت بھی اپنی نہیں دوسرے کی کہ جس پر چاہے اُٹھا کر الزام لگائیں اور مار دیں ۔ کیا عشق و محبت کے جذبات نعروں سے یا آپ کے نافذ کرنے سے کسی کے دل میں پیدا ہو جائیں گے ۔؟ ایسے لوگ انسان کی نفسیات اور اس کی بناوٹ کے متعلق جانتے ہی نہیں ۔

رسول اللہ ﷺ کی ذات اور کردار مبارک کی اگر اصل تصویر پیش کی جائے تو کسی نعرے کی اور کسی نفاذ کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہ ہو بلکہ لوگوں کے دلوں میں خود محبت کے جذبات پیدا ہوں ۔ آپ کسی کو دھونس لگا کر کسی سے محبت پر مجبور کر سکتے ہیں ؟ جبکہ اللہ پاک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم خو ہیں اگر آپ تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ صحابہ آپ کے گرد سے چھٹ جاتے۔ جو سوال اس ذات مبارکہ کے بارے میں نوجوان نسل کے ذہن میں ہیں ان کے جوابات دیجئے ۔ آپ کے بزرگوں کی بزرگی پر فرق پڑتا ہے تو پڑتا رہے نوجوان کے ایمان اور دل کے اطمینان آپ کے بزرگوں کی بزرگی سے زیادہ قیمتی ہے ۔ ایسی روایات جو نبی کی کردار کشی کرتی ہیں انہیں اپنی کتابوں سے نکال دیجیے تا کہ ایک اعلیٰ  کردار کی اصل تصویر سامنے آئے جس کی تعریفیں دو جہاں کے پرودگار نے کی ہیں ۔ ورنہ مذہب کے نمائندوں کی کہانیاں سننے والے بھی نہیں رہیں گے ۔

یعنی حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ بنیاد ہی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور ہم اسے صرف کسی فتوے سے رَد نہیں کر سکتے ۔ اس لادنے اور دوسری طرف سے اسے سر سے اتارنے کی کوششیں۔۔ ڈر ہے کہیں مذہبی فکر کی بجائے مذہب ہی کو معاشرے سے نکال نہ دے ۔ اس وقت مذہبی فکر کو ری کنسٹرکشن کی شدید ضرورت ہے کہ اسے اس جدید دور کے معاشرے سے متعلق کیا جا سکے ۔ یہ ری کنسٹرکشن ان حالات میں سب سے مشکل کام بن جاتا ہے جب ایک مذہبی پیشوائیت وجود میں آ جاتی ہے ۔ جب تک معاشرے میں مذہبی پیشوائیت وجود میں نہیں آتی ،بات دلیل سے کہنا اور سننا آسان ہوتا ہے ۔ جب وجود میں آ جاتی ہے تو یہ مذہبی پیشوائیت اپنے سے باہر نہ کسی رائے کو اور نہ ہی کسی شخصیت کو قبول کرنے کو تیار ہوتی ہے ۔ یہ پیشوائیت خود کو مذہب کی محافظ اور اصل نمائندہ سمجھتی ہے ۔ اس پیشوائیت کے پاس سب سے مضبوط دلائل ایسے ہوتے ہیں کہ اس بات پر امت کا اجماع ہے ، جمہور اس پر متفق ہے ، ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے اس بات کو ایسے سمجھا ہے ، یہ ہماری صدیوں کی میراث ہے ۔

اس طرح یہ پیشوائیت ایک روایت پر کھڑی ہو جاتی ہے اور پھر اس کی محافظ بن جاتی ہے ۔ یہ اپنی قائم شدہ روایت کے خلاف کسی دلیل کو بھی قبول نہیں کرتی کیونکہ اس کی بھی اصل بنیاد تقدس ہی ہوتا ہے ۔ جو بھی ان کی رائے کے خلاف کوئی بات دلیل سے کہے وہ پہلے فتوؤں کی زد میں آتا ہے پھر جس حد تک اس پیشوائیت کا بس چلتا ہے یہ نئی بات کے خلاف کر گزرتے ہیں ۔ اس کی مثال حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کی دعوت ہے جو اسی پیشوائیت کے خلاف تھی ۔ اور اس نبی اسرائیل کے معاشرے میں یہ مذہبی پیشوائیت اتنی طاقتور تھی کہ رسول کو صلیب دینے کا فیصلہ دینے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ عام لوگ  تو مسیح علیہ السلام کے پیچھے پیچھے ہزاروں کی تعداد میں نکل آتے ہیں ، وہ ان سے شِفا حاصل کرتے ہیں ان کی باتیں سننے ہیں لیکن مذہبی پیشوائیت اس حق کی آواز کو کسی طرح برداشت کرنے کےلیے تیار نہیں ہمارے اس جدید معاشرے میں جہاں ذرائع ابلاغ بہت ترقی کر گئے ہیں اور فرد کو رائے قائم کرنے پر بہت آزادی ہے ، ایک ڈر اس پیشوائیت سے ہے تو سہی لیکن لوگ اپنی بات کسی نہ کسی ذریعے سے کہہ دیتے ہیں ۔ یا جو نہیں کہہ سکتے وہ پھر دل میں شکوک و شبہات لے کر نفرت اور لاتعلقی کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں ۔ بجائے نسلیں گُم کرنے کے اور نئی نسل کو مذہب سے لاتعلق کرنے کے اس مذہبی پیشوائیت کو مکالمے کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا ورنہ سب کچھ اُلٹ پُلٹ ہو جائے گا۔

بہت سے لوگوں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ میں تشکیک کا شکار ہوں ، جبکہ میں نے حقائق کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کےلیے میں نے اپنے گھر کی زندگی کو لوگوں کے سامنے کھولا ہے ۔ آئندہ پیش آنے والے حالات کی تصویر دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ یہ سارے کردار آج میں موجود ہیں اور ہر ایک کا نام اس کی اجازت سے لکھا ہے ۔ سارے لوگ دور سے کھڑے دیکھ رہے ہیں میں میدان میں اُترا ہوا ہوں ۔ تماشائی تماشائی ہوتا ہے اور میدان میں کھیلنے والا کھلاڑی اصل کھلاڑی ۔ میرے گھر میں روز میدان سجا رہا ، دوسرے لوگ صرف تماشائی کی طرح اپنے اندازے لگانے والے ہیں کہ یوں کرتا تو سب اچھا ہو جاتا ۔ میدان میں کھیلنے والا اصل حالات کو سب سے بہتر جانتا ہوتا ہے ۔ باقی جب تک انسان موجود ہے سوال بھی اٹھتے رہیں گے اور جواب دینے والے بھی خدا پیدا کرتا رہے گا ۔ صرف اپنی غاروں میں پناہ گزین لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور آپ کی عقیدت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ اور فتوے تو واش روم میں رکھے ٹشو پیپر ہیں ۔ مکالمے کا راستہ اختیار کریں دلیل کی قوت کو استعمال کریں ۔ یہی بات ہماری آئندہ نسلوں کو بچا سکتی ہے ۔

حقیقی مسائل کا ادراک گھر میں بیٹھے نہیں ہوتا ۔ جب آپ کسی دوسرے کلچر میں زندگی گزارتے ہیں یا دوسرے کلچر والوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی تربیت دیتے ہیں تبھی آپ اسلام کی آفاقیت سے روشناس ہو سکتے ہیں ، جب آپ کو دوسروں کی مشکلات کا حل اسلام کے دائرے کے اندر تلاش کرنا ہو  گا  تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ داعی کا کام فتویٰ  دینے والے مفتی سے ہزار گنا مشکل ہوتا ہے ۔ مفتی نے فیصلہ سنا کر موضوع ختم کر دینا ہوتا ہے جبکہ داعی کو مدعو کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے ۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ یہاں اپنے مریدین کے جھرمٹ سے اٹھ کر امریکہ یا برطانیہ میں اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں جا بیٹھے ہیں تو آپ نے اس سوسائٹی کا اندر سے مطالعہ کر لیا ہے۔ اور اس کی مشکلات اور مسائل کو سمجھ لیا ہے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ داعی کی فقہ منبر و محراب کی فقہ سے بہت مختلف ہوتی ہے ۔ اور ایسے حالات میں سوالات بھی داعی کے سامنے مختلف ہوتے ہیں ۔ بعض چیزیں مذہب کی بجائے کلچر سے تعلق رکھتی ہیں جن سے صرف ِ نظر کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے کہ جس کلچرل عمل کو ہم بچپن سے مذہب سمجھ کر سینے سے لگائے ہوتے ہیں اسے چھوڑ کیسے دیں ۔ ورنہ اسلام تو دین فطرت ہے اس فطری مذہب سے کوئی اجنبیت کیسے محسوس کر سکتا ہے ؟ یہ صرف ہماری پیدا کی گئی رکاوٹیں ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ختم شُد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply