عورت جوتے کی نوک پر۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

جوزف کونراڈکا ناول Heart of darkness افریقہ کے دل کونگو کے بارے میں اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں لکھا گیا تھا جو 1902میں شائع ہوا۔ آج بھی بہت سارے لوگ کونگو کوپس ماندہ ، غریب ، بغاوت اور سازشوں میں گھرا ہوا ملک خیال کرتے ہیں۔ کونگو کا واحد اسلامی ایٹمی طاقت سے کوئی تقابلی جائزہ شایدنازک طبائع پر گراں گزرے۔لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں کونگو خود ساختہ ریاست مدینہ سے کہیں آگے کھڑا ہے۔ بے شک آج بھی کونگو میں انسانی حقوق کی پامالی اورظلم و بربریت کے واقعات تلاش کرنا مشکل نہیں لیکن کونگو میں نا  صرف مسلسل قانون سازی کرکےبلکہ عمل درآمد کرواکےخاص طو رپر خواتین کے حقوق کی پامالی کے مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدگی نظر آتی ہے۔

2018 کے امن کے نوبل انعام کا حقدار کونگو کے ڈاکٹر ڈینس مُک وے جے کو قرار دیا گیا تھا۔جانتے ہیں کیوں ؟ ا س لئے کہ یہ ڈاکٹر ’’عورتیں مرمت ‘‘کرتا ہے۔ڈاکٹر ڈینس نے 1998 میں ایک ٹینٹ لگا کر خانہ جنگی کے دوران میں تشدد کا شکار خواتین اور بچیوں کا علاج کرنے اور ان کو سہارا دینے کا کام شرو ع کیا تھا۔قدرت نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھ دی تو دور دور سے خواتین علاج کے لئے آنے لگیں ۔رفتہ رفتہ دنیا ان کے کام کی معترف ہونے لگی۔ ان کو مختلف تنظیموں اداروں اور ملکوں کی طرف سے مدد ملنے لگی۔ کاررواں بڑھنے لگا، سفر آسان ہونے لگا۔ انہیں دنیا بھر میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 2008 میں اقوام متحدہ کا ہیومن رائٹس پرائز انہیں دیا گیا۔ اور 2009 میں افریقن آف دا ائیر کا خطاب ملا۔ 2012 میں ڈاکٹر ڈینس نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کونگو حکومت اور بعض دوسرے ممالک پرتنقید کر دی کہ جتنا کام انسانی حقوق کے لئے کیا جانا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا۔ اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد ڈاکٹر ڈینس واپس آئے تو ان کے گھر پر مسلح حملہ ہو گیا۔ سکیورٹی گارڈ اوربعض قریبی ساتھی مارے گئے۔ ڈاکٹر ڈینس دل برداشتہ ہوئے اور فیملی سمیت سویڈن چلے گئے۔ ادھر کونگو میں خواتین پر تشدد جاری رہا ۔ پھر ان غریب اور بے سہارا خواتین نے ایک فیصلہ کیا۔ اپنے مختصر کھیتوں سے آنے والی محدود آمدنی کو جمع کر کے ڈاکٹر ڈینس کو واپس بلانے کے لئے چندہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ ان متاثرہ خواتین کی ہمت نے ڈاکٹر کو واپس کونگو آنے پر مجبور کر دیا۔ڈاکٹر ڈینس ہزاروں خواتین کا علاج کر چکے ہیں۔ وہ روزانہ سولہ سترہ گھنٹے آپریشنز اور متاثرہ خواتین کے علاج معالجے میں گزارتے ہیں۔ان کے لئے جس وقت نوبل پرائز کا اعلان ہوا اس وقت بھی وہ ایک آپریشن میں مصروف تھے۔ڈاکٹر ڈینس کو فرنچ زبان میں ‘ l‘homme qui repare les femmes ’کا خطاب دیا گیا ہے۔ یعنی ایسا مرد جو ’’عورتیں مرمت ‘‘کرتا ہے۔

ہم ریاست مدینہ جدید کے باشندے ہیں ۔ ایٹمی طاقت ہیں۔ ہم بھی مرمت کرتے ہیں لیکن ہم” عورتوں کی مرمت” کرتے ہیں۔ سرکش عورتوں کو راہ راست پر لانے کے لئے ان کی مرمت، شادی کا انکار کرنے والی کی مرمت، کبھی اسے جلا کر ،کبھی تیزاب پھینک کر،کبھی ننگا کرکے بازاروں میں گھما کر، کبھی ویڈیو بنا کر اور اسے وائرل کرکے، اور آج ایک نیا انداز مارکیٹ میں آگیا ہے یعنی جوتے چٹوا کر ۔مطلب عورت کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا عملی مظاہرہ ۔ الفاظ   گنگ ہو جاتے ہیں کہ اس بَہِیمِیَت پر کیا لکھا جائے۔

فیصل آبا دمیں ہونے والا واقعہ جس میں اپنی بیٹی کی سہیلی ، بی ڈی ایس فائنل ائیر کی طالبہ لڑکی خدیجہ کو شادی کے انکار پر اغواء کر کے تشدد کرنے اور جوتے چٹوا کر تذلیل کرنے والے مرکزی ملزم کا نام دانش علی ہے۔نام کے لحاظ سے فہم و ادراک اور حکمت کے معنی کے ساتھ ساتھ علی سے بھی نسبت رکھتا ہے۔ لیکن کرتوت ایسے کہ دنیا تڑپ اٹھی ہے۔ ایک زمانہ اس درندگی کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اہے۔سوچتا ہوں اگر فیصل آباد میں کوئی مذہبی جلوس نکلے تو شاید یہی دانش علی سب سے آگے ہولیکن اسے یہ علم کیوں نہیں کہ عورتوں کی توقیر قائم کرنے ، ان کو حقوق دلانے ، ان کو مرضی کی شادی کرنے کی اجازت دینے ، نکاح کا اقرار اور انکار کرنے کا حق دینے والے کی حکم عدولی کرنے سے بھی ناموس رسول پر حرف آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وسطی افریقہ کے ملک جس پر Heart of darkness لکھا گیا میں تو عورتوں کی خدمت کر کے ایک ڈاکٹر نوبل انعام کا حق دار قرار پایا بلکہ ا س کا کام اتنا بڑا ہے کہ نوبل انعام بھی اس کے سامنے چھوٹاپڑ جائے۔ اور ہم جو ریاست مدینہ کا نام لیتے نہیں تھکتے عورتوں کی تذلیل اور ان سے شرمناک سلوک کر کےایک اسلامی فلاحی ریاست تو دور حقیقی معنوں میں Heart of darkness بنتے چلےجا رہے ہیں۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply