جیم فے غوری کا فن و شخصیت/مقالہ نگار -ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

میرے لیے یہ بڑے استحقاق کی بات ہے کہ مجھے جِیم فے غوری کے فن و شخصیت پر بات کرنے کا موقع ملا ۔یقیناً کسی بھی ادیب یا شاعر پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے فن و شخصیت کا گہرا مطالعہ ہو تاکہ اس کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کا از سر نو جائزہ قلبی اور قلمی تاثرات کی روشنی میں بیان کیا جا سکےتاکہ الفاظ کی مجسمہ سازی کرتے وقت اس کی شخصیت کا عکس واضح طور پر نظر آئے۔اس حقیقت کے دو بڑے فائدے ہوتے ہیں پہلا جس میں اس کی ادبی خدمات کا تذکرہ ہوتا ہے اور دوسرا اس کی شخصیت دوسروں کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہے ۔
کوئی بھی فنکار فن ،مہارت اور تخیل کا استعمال کرتے ہوئے خوبصورت یا بامعنی چیز کی آرزو کرتا ہے۔ تاکہ دیکھنے اور پڑھنے والے کا دل بے اختیار ہو کر اس کی طرف للچا جائے۔ وہ اس کی شخصیت کا مدّعا ہو جائے۔

فن کی عام طور پر تین اقسام ہوتی ہیں۔مثلاً نمائندگی اظہار اور شکل۔انہی تین اشکال کی روشنی میں اس کی شخصیت بنتی سنورتی اور توجہ کی مستحق ہوتی ہے۔قدرت اسے جذبات و احساسات کو ابھارنے والے وسائل مہیا کرتی ہے جس کی مرہون منت وہ خداداد صلاحیتوں کو بڑے قرینے سے تراش تراش کر عوام الناس کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ روز اول سے ہی وہ تخلیق ،تحقیق ، اور تنقید کا عادی رہا ہے۔اس کی سوچ کا محور اسے کوئی فن پارا تراشنے کی ترغیب دیتا ہے وہ اسے نثری یا شعری صنف میں ڈھال کر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے۔پھر اس پر تحقیق ہوتی ہے یعنی اس کی تحریر کا جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر تنقید کا وقت آتا ہے۔اس سلسلے میں ادیب کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ عمیق ہونا چاہیے کیونکہ وسیع النظری اور وسیع القلبی سوچ کے قیمتی جوہر ہوتے ہیں جو انسان کو تخلیق پر آمادہ کرتے ہیں۔ایک شاعر کا تخیل جتنا بلند پرواز اور مثبت ہوگا وہ اتنا ہی پھل دار ثابت ہوگا۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ایک ادیب یا شاعر رنگ، نسل، ذات، گروہ ،قبیلے مذہب سے بالاتر ہوکر اپنی آنکھ میں مشاہدہ اور دوسرے کے دلوں میں محبت کا بیج بوتا ہے۔جب تک مٹی کمہار کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس کی کئی اشکال بنتی اور بگڑتی ہیں۔ البتہ ایک مخصوص ریاضت کے بعد اس کی اصلی شکل بن جاتی ہے۔اسی طرح ادب تراشنے کا پہلا کام مطالعاتی تجسس ہے جس کے بغیر نہ تو تخلیق جنم لیتی ہے نہ تحقیق کی جستجو پیدا ہوتی ہے اور نہ تنقید کا فن آتا ہے۔بلاشبہ ادب ایک ریاضیاتی عمل ہے جس کے لئے ایک ادیب کو شب و روز اپنا لہو جلانا پڑتا ہے تب کہیں جاکر تخلیق جنم لیتی ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے ادب کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا آج تک کوئی حتمی جواب نہیں دے سکا۔تاہم مشرق و مغرب کے تخلیق کاروں، نقادوں، دانشوروں نے حتی المقدور اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ادب کا عمل تخلیقی عمل سے ہے جو پچیدہ اور پر اسرار عمل ہے۔ڈاکٹر انور سدید کے مطابق ” جتنے اہل ادب ہیں شاید اتنے ہی ادب کے نکتہ ہائے نظر موجود ہیں اور جتنے نظریے ہیں ادب کی اتنی ہی تعریفیں ہیں”

نیاز فتح پوری کے مطابق ادب انسان کے بلند خصائص کو ظاہر کرتا ہےاور دوسرا لفظ تہذیب بھی موجود ہے جو ذہنی شائستگی اور تمدنی تعلقات کی پاکیزگی پر مشتمل ہے۔

ہم حقائق کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ ادب فن لطیف ہے ، اس میں ادیب کے نفسیاتی اور شخصی تجربات شامل ہوتے ہیں ، ادب میں تخیل کی کارفرمائی ہوتی ہے، ادب کا پیرایہ فرحت بخش ، حسین اور موثر ہوتا ہے، ادب قاری کے دل میں بھی وہی جذبات پیدا کرتا ہے جو ایک لکھنے والے کے دل میں موجود ہوتے ہیں۔ادب جمالیاتی اقدار کا حامل ہوتا ہے، اس میں داخلیت پائی جاتی ہے یعنی جذبات و احساسات کا کھل کر اظہار ہوتا ہے۔یہ حقیقت انسان پر ایک موقع اور مکاشفہ کی طرف کھلتی ہے۔

میری مختصر تمہید ایک ہمہ جہت شخصیت کے خلوص اور ادب پرور انسان کی بدولت اپنا سفر طے کر کے اس کے فن و شخصیت پر مرکوز ہوتی ہے۔مجھے آج جس شخصیت پر بات کرنے کی سعادت حاصل ہے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔وہ ادب شناس بھی ہے اور ادب پرور بھی ہے۔وہ اپنے ہاتھ میں ادب کا چراغ تھامے ہوئے ہے۔مثبت سوچ کا حامل ہے۔ادب کے میدان میں کئی عشرے ریاض کر چکا ہے۔اس کی شخصیت میں کئی اصناف کارچاؤ ہے۔وہ ادیب اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا مضمون نگار ، کالم نگار ، افسانہ نگار ، ناول نگار اور مثنوی نگار بھی ہے۔اس نے ادب کی کئی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت میں ادب کی کتنی نئی کونپلیں کھلی ہیں۔البتہ ان کی پسندیدہ صنف غزل ہے جس کا شور اور چرچا سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے جسے وہ شوق سے لکھتے پڑھتے اور سنتے ہیں۔بلاشبہ غزل ایک سمندر کی طرح ہے جس کا پانی کبھی خشک نہیں ہوتا کیونکہ اس سمندر میں جذبات کی کشیدہ کاری ہوتی ہے جو اپنی ارتقائی منازل طے کر کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتی ہے۔میں جیم فے غوری ان کے اس شعر سے خاصا متاثر ہوں۔

زمین پر بہتے دریا کے کنارے مل نہیں سکتے
خلا میں ٹوٹ کر پھر سے ستارے مل نہیں سکتے

ان کی شخصیت کئی لحاظ سے منفرد اور جاذبِ نظر ہے۔
ان کی زندگی کا کوئی دور بھی ادبی محبت سے خالی نظر نہیں آتا۔ان کے بچپن کی یادیں تازہ کریں تو ادبی یادوں کا میلہ نظر آتا ہے ، جوانی کا احاطہ کریں تو ایک طویل جستجو نظر آتی ہے اور اب بڑھاپے میں ادب کی خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں۔بیرون ملک جا کر بھی ان کا ادبی شوق ختم نہیں ہوا بلکہ ادب کی خدمت میں جذبہ شدت اختیار کرگیا۔وہ ساکواہ ساموا کے بانی ہونے کے ناطے آن لائن شعراء اور ادباء سے ملاقاتوں کا انتظام کرتے ہیں۔کتب کی رونمائی اور پذیرائی ان کے منشور کا اہم حصہ ہے۔وہ ملنساری اور مہربانی میں پختہ شعور کے مالک ہیں۔میں ان کی شخصیت کے لئے مارک ٹوین کی ایک مثل پیش کرتا ہوں۔
” مہربانی ایسی زبان ہے جسے بہرے سن سکتے ہیں اور اندھے پڑھ سکتے ہیں”

خلیل جبران کا ایک زبردست قول ہے۔” انا کا مضبوط ترین خول محبت توڑ تی ہے”

ان کے تعلقات و روابط کا حدود اربع مشرق ہو یا مغرب ہو ہمیں کثرت سے جڑا ہوا ملتا ہے۔وہ اچھے قاری بھی ہیں اور کتاب دوست بھی۔ان کے پاس بصارت کا ایک چراغ ہے جس کی مدد سے وہ دنیا میں کسی کونے میں بیٹھے ہوئے ادیب اور شاعر کو تلاش کر لیتے ہیں۔میں ان کی شخصیت پر ہیلن کیلر کا ایک قول پیش کرتا ہوں۔
” دنیا کی بہترین اور خوبصورت ترین چیزوں کو دیکھا یا چھوا نہیں جا سکتا۔انہیں صرف آپ کا دل محسوس کرتا ہے ”

ایسی سعادت جیم فےغوری کو حاصل ہے جو ادب پروری کے لئے ادبا اور شعراء کیلئے ایسے پروگرام منعقد کرتے ہیں تاکہ ان کا فن و شخصیت کسی ایک مخصوص خطے یا علاقے کی ملکیت نہ رہے بلکہ وہ عالمگیر بن جائے۔اس جذبے کو جلا دینے کے لیے انہوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے خاص طور پر کرونا کے ایام سے لے کر اب تک جاری و ساری ہے۔
میں ان کی ادبی خدمات پر چند سطور منظور نظر کے لیے پیش کرتا ہوں۔وہ شعری اور نثری ادب میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔وہ شعری اور نثری ادب کی متوازن خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔حالیہ دنوں میں انہوں نے میری کتاب “گوہر افشاں” پر فنی اور جمالیاتی تجزیہ لکھا۔جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔مجھے گوناگوں ان کی نثری خوبیوں سے شناسائی اور آگاہی ملی۔ان کی ساری زندگی ادب کی خدمت میں گزر گئی۔وہ تقریباً  14 کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
١۔ ستارہ ندی اور میں ٢٠١٦ شعری مجموعہ
٢۔ ہاتھ پر دیا رکھنا ٢٠٠٨ شعری مجموعہ
٣۔ ندی میں اترتا ستارہ ٢٠١٢ شعری مجموعہ
۴۔ خواب کی کشتی پر ٢٠١١ ماہیے
۵۔ نئی رت کے گیت ١٩٨٦ گیت
٦۔ لاریب ١٩٨١ افسانوی مجموعہ
٧۔ شطرنج لڑکی اور فالتو چیز ٢٠١١ افسانوی مجموعہ
٨۔ مسیحی مسلم رابطہ وقت کی اہم ضرورت ١٩٩۴ مضامین
٩۔ بچوں کی بائبل ١٩٨٨
١٠۔ یسوع نمبر، گریفن جون شرر نمبر ، نذیر قیصر نمبر ١٩٨١_ ٨۴
١١۔ ہم گمشدہ ٢٠١٩ ناول
١٢۔ محبت میں تمام ہوا زیر طبع شاعری
١٣۔ دیوان جیم فے غوری زیر طبع
١۴۔ برگزیدہ حسین لوگ ٢٠١٧ شاعری

مشہور ڈرامہ نگار فلسفی اور اور شاعر شیکسپیئر ولیم نے ایک بات کہی تھی۔
” دنیا میں کچھ لوگ عظیم پیدا ہوتے ہیں۔کچھ پر عظمت لاد دی جاتی ہے اور کچھ لوگ محنت سے عظمت حاصل کرتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں ایک ادیب کو شہرت ایک دن ایک مہینے یا ایک سال سے نہیں ملتی بلکہ اسے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کے لیے اور تاریخ کے اوراق میں زندہ رہنے کے لیے کئی عشرے درکار ہوتے ہیں جو اس کی فن و شخصیت کو چار چاند لگاتے ہیں۔تب کہیں جاکر اسے ادب کی پرکار گھمانے کا فن آتا ہے۔ادب کے فن میں نہ جانے جیم فے غوری نے کتنے سال کا چلہ کاٹا ہے۔اگر کوئی اس حقیقت کو سمجھنا چاہے تو سمجھ لے کہ چالیس کا عدد آزمائش پر پورا اترتا ہے جس کے اثبات عہد عتیق میں ملتے ہیں۔
آخر میں ان کی ایک غزل آپ کے سامنے پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔

جدا زندگی سے سلیقہ ہوا ہے
فنا میں کہیں گم صحیفہ ہوا ہے

اندھیرے کی خاطر اجالوں سے ہم نے
محبت کی تو یہ نتیجہ ہوا ہے

عجب شہر آشوب کی دشمنی میں
محبت کا پہلا کرشمہ ہوا ہے

محبت نے حیرت سے امبر پہ دیکھا
ستاروں کا شب میں تماشا ہوا ہے

کہا میرے غالب نے مے خوار سے ہے
ترا بھی مقرر وظیفہ ہوا ہے

میں اس عہد میں ہوں کہ جس اجنبی کے
ہما سر پہ بیٹھا خلیفہ ہوا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بہت جیم رویا بکھر کر ہوا میں
کہ وہ دشت میں پر شکستہ ہوا ہے
یہ مقالہ جیم فے غوری کے فن و شخصیت کے اعزاز میں مورخہ 20 اگست 2022 شام آٹھ بجے پروگرام ساکواہ سامواہ کے زیر اہتمام پڑھا گیا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply