تتھاگت نظم 19۔۔۔انگلی مالا (2)

انگلی مالا(ا )میں اس ڈاکو کو کہانی بیان کی جا چکی ہے، جو جنگل میں لوگوں کو لوٹ کر ان کی انگلیاں کاٹ لیتا تھا اور پھر انہیں ایک ہار میں پرو کر اپنے گلے میں پہن لیتا تھا۔ تتھا گت نے اسے اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ بودھ آشرم میں آ کر پناہ لے اور اپنے گناہوں کا کفارہ اس طرح ادا کرے کہ بھکشووں کے پھٹے ہوئے چولے مرمت کرتا رہے۔ آنند کو اس بات پر کچھ شک تھا کہ اس طرح کسی عادی مجرم کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔ اب آگے پڑھیں۔
انگلی مالا ۔ ۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دنوں تک گفتگو کا یہ سفر ساکت رہا … لیکن تتھا گت
خود بھی شاید گو مگو کی کیفیت میں تھے…
یقیناً چاہتے تھے بات کو آگے بڑھانا

اس لیے آنند کو تب تیسرے دن خود تتھا گت نے بلایا

’’آج بھی تم دل میں کچھ شنکائیں ۰ رکھ کر
کچھ تردد سے پریشاں پھر رہے ہو، بات کیا ہے؟‘‘

’’ہاں، تتھا گت، اس تذبذب میں رہا ہوں
انگلی مالا کو اگر اس آشرم میں شرن۰ دینے کی جگہ
سیدھا ہی بندی گھر یا ’کاراواس‘ ۰
میں رکھتے تو اس میں کیا بُرائی تھی، تتھا گت؟‘‘

ؔ کچھ برائی تو نہیں تھی اس میں، لیکن
کچھ اچھائی بھی نہیں تھی
بندی گھر میں قید ہو جانے کا تو بس ایک ہی مقصد ہے
قیدی اپنی آزادی سے گر ’وَنچِت‘ رہے تو
وہ کوئی بھی جرم کر سکنے کی حالت میں نہیں ہو گا، مگر
آنند بھکشو، تم نے کیا سوچا کہ وہ کوئی بھی دیگر کام
ایسا کر نہیں پائے گا، جس میں
بہی خواہی، رحم، خدمت، درد مندی کا بھی کچھ عنصر ہو، بھکشو
ترس کھانا، سیوا کرنا
اشک شوئی، آنسوؤں کا پونچھنا بھی ایک بخشش ہے
مگر یہ کام بندی گھر میں رہ کر سیکھنا، اس پر عمل کرنا
کہاں ممکن ہے اک بے رحم قاتل کے لیے …
کیوں ہے نا سچی بات، بھکشو؟‘‘

’’ہاں، تتھا گت‘‘

’’اورہمارے آشرم میں سیکھنے کو کیا نہیں ہے؟
خلق کی خدمت کا جذبہ
مہرباں ہونا، سبھی سے پیار رکھنا، صلح کل رہنا
سخاوت، خیر خواہی، نیک اندیشی، عنایت
یہاں تو ہر طرف ان کی حکومت ہے، نہیں کیا؟
… یہ سبھی انسانیت کیایسے گُن ۰ ہیں
جو کوئی بھی انگلی مالا سا مجرم
سیکھ سکتا ہے ہمارے آشرم میں …
پر حکومت کے بنائے بندی گھر میں
تو فقط نا ترس ہونا، بربریت میں یقیں رکھنا
درندہ صفت، وحشی، سنگدل
بے رحم ہونے کا سبق سیکھے گا قیدی
کیا تمہیں تسلیم ہے یہ بات بھکشو؟

’’ہاں، تتھا گت !‘‘

طے ہوا کہ کوئی قیدی
بندی گھر میں قید رہنے سے سدھر سکتا نہیں ہے ….”
اور جب وہ قید سے نکلے گا تو ویسے کا ہی ویسا
لوٹ جائے گا اُسی دنیا میں، یعنی
اس پرانے جرم کی دنیا میں
جس سے وہ گیا تھا بندی گھر میں‘

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

طے ہوا بھکشو، کہ عادی مجرموں کو
ہم اگر اُن قید خانوں میں رکھیں ، جن میں انہیں
کچھ کام کی شِکھشا، ہنر مندی کی تربیت ملے تو
ان کے لیے اچھا رہے گا
اورجب پھر کوئی پیشہ ، کا م کا کوئی ہنر وہ سیکھ جائیں
تو انہیں اک اور موقع دے دیا جائے کہ وہ اب
لوٹ جائیں …اور یہ ثابت کریں
وہ اچھے شہری بن چکے ہیں

چُپ رہے کچھ دیر تک، پھر سوچ کر
بولے تتھاگت
عین ممکن ہے کہ اُن میں سے کئی اک بار پھر بھٹکیں ، مگر یہ
تجربہ اچھا رہے گا ….کچھ تو سُدھریں گے، یقینا

’’ہاں، تتھاگت!‘‘

’’انگلی مالا کے تئیں اب سوچ کیسی ہے تمہاری؟‘‘

اور تب آنند نے پرنام کی مُدرا ۰میں اپنا سر جھکایا
پر اُسے ایسا لگا اک بار پھر
جیسے تتھا گت کے لبوں پر
شائبہُ مسکان کا
اپنی ہلکی چھپ دکھا کر اُڑ گیا ہو
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شنکائیں: شکوک
شرن : پناہ
کاراواس: زنداں

Advertisements
julia rana solicitors london

گُن : اچھی خصوصیات
وَنچِت : بغیر ، خالی
مُدرا : انداز

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply