بیٹیاں تو رحمت ہیں

شہزادہِ رسول حضرت قاسم رضی اللہ عنہ وصال پا چکے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہِ اقدس پر شفقتِ پدری نمایاں ہے۔ دشمنوں تک خبر پہنچتی ہے تو بغلیں بجانا شروع ہو جاتے ہیں۔ نقل کفرکفر نا باشد، خوشی سے چیختے شور مچاتے کفار پکارتے ہیں، محمد (صلی اللہ علیہ و بارک وسلم ) مقطوع النسل ہو گئے۔ اب اسلام کا سورج بانیِ اسلام کے ساتھ ہی ڈوب جائے گا۔ اس سے پہلے کہ کفار کی لاف زنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اقدس کو تکلیف پہنچائے، جبرائیل علیہ السلام سورۃ الکوثر کا تحفہ لئیے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر ہوتے ہیں “اے حبیب ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کیا، پس آپ اپنے رب کی نماز پڑھیں اور قربانی دیں، بے شک آپ کا دشمن ہی مٹ جانے والا (مقطوع النسل) ہے۔
آیات کی تشریح و تفسیر میں مفسرین نے جو توجیہات بیان فرمائی ہیں وہ بجا ہیں مگر میں یہاں جو عرض کرنا چاھتا ہوں وہ کچھ اور ہے۔ سیدنا قاسم کی وفات، کفار کی بدگوئی اور سورت کا نزول، ان کڑیوں کو ملانے سے جو مفہوم میری سمجھ میں آتا ہے وہ بیٹیوں کی فضیلت بھی ہے کہ “اے اللہ کے حبیب ہم نے آپ کو فاطمہ (بیٹی) عطا کی ہے جس سے خیرِ کثیر کے جھرنے پھوٹیں گے،پس آپ نماز پڑھیں اور قاسم کی قربانی پر صبر کریں، بے شک آپ کے دشمن جو آپ کو مقطوع النسل کہہ رہے ہیں، کل ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہ رہے گا”۔سیدنا انس فرماتے ہیں کہ رحمت اللعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا “بیٹیاں رحمت ہیں”۔ ناطق کی شان ملاحظہ فرمائیں اور ارشاد کے مندرجات پر غور کریں۔ وہ ذات جو سراپا رحمت ہے وہ کس کو رحمت قرار دے رہی ہے۔۔بیٹی کو! ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر زمانہ جاہلیت کا واقعہ سناتا ہے ،جس میں بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا ذکر ہے۔نبی اقدس ﷺاشک بار ہو کر چادر بھگو دیتے ہیں۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کو خاتون جنت کا رتبہ عنائت کرنا کوئی اقربا پرستی نہیں بلکہ بیٹیوں کے ساتھ بے پناہ محبت کے دستور کی پہلی کڑی ہے۔ امت کو پیغام دیا کہ بیٹیوں کو تحائف میں وہ دو جو تمہاری نظر میں سب سے معتبر ترین ہو۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ” آقا کریم ﷺ نے فرمایا جس کے گھر دو بیٹیاں یا بہنیں ہوں اور وہ ان کی تربیت احسن طریقے سے کرے تو اس کے لئے جنت ہے”۔ بیٹی کی قدر ومنزلت کا اندازہ لگانا ھو تو اتنا کافی ہے کہ یہ دین ایک عظیم پیغمبر کی بےمثال بیٹی کے آنگن میں پھولتا پودا ہے۔ طوافِ کعبہ کے دوران بیت اللہ پر نظر پڑتے ہی جو دل میں سرشاری اور الفت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، ایسے ہی جذبات ایک بیٹی کے دل میں باپ کا چہرہ دیکھ کر پیدا ہوتے ہیں۔ بیٹی کے دل میں باپ کے لئے جس قدر محبت اور تقدیس پائی جاتی ہے اگر اتنی محبت کوئی شخص خدا سے کرے تو غوثِ زماں کا درجہ پائے۔ بیٹیاں رحمت ہیں، یہ رحمت اللعالمین نے فرمایا ہے ۔
بیٹوں میں بازوؤں کی قوت اور وارث تلاش کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کائنات کے عظیم ترین شخص کی وراثت ایک بیٹی کے دامن میں جلوہ افروز ہے۔ہم بیٹے مانگتے ہیں، گڑگڑاتے ہیں رو رو کر اللہ سے فریاد کرتے ہیں مگر وہ بیٹیاں دیتا ہے ،پتہ ہے کیوں ؟ کیوں کہ وہ جانتا ہے تمہیں رحمت کی ضرورت ہے ۔رحمت سے بڑھ کر دنیا میں کیا قابل قدر شئے ہو سکتی ہے، جب دنیا کے نفیس ترین شخص کا لقب رحمت ہو،جب ہم رحمت سے منہ موڑتے ہیں تو عذاب اور لعنت سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ شخص جو بیٹی کی پیدائش پر افسردہ ہو، وہ ماں جو بیٹی کی آمد پر رنجیدہ ہو، وہ گھر جہاں بیٹے کادرجہ بیٹی سے بڑھ کر ہو، وہ گھر کیسے خوشحال ہو سکتا ہے ؟ وہ گھر رحمت خداوندی اور اطاعت محمدی کا دعوی کیسے کر سکتا ھے۔بیٹیاں آنگن کی بہار ہوتی ہیں۔بیٹیاں گھر کا قیمتی ترین زیور ، کانچ کی گڑیا ہوتی ہیں ، بیٹیاں گھرانے کی رونق اور رحمت ہوتی ہیں۔ یہی بیٹی باپ کے گھر رحمت ہوتی ہے تو آگے جا کر کسی کے بچوں کی جنت بنتی ہے۔ جنت ماں کے قدموں میں ہے اور ماں ایک بیٹی بنتی ہے۔آئیے عہد کریں کہ ہم بیٹیوں کو رحمت سمجھیں گے، بیٹیوں کو بے لوث محبت سے نوازیں گے اور ان کی ولادت پر جشن منائیں گے۔ ہماری بیٹیاں ہماری بخشش کا ساماں ، راحت کا وسیلہ ہیں، بیٹیاں تو رحمت ہیں!

Facebook Comments

نعیم حيدر
سوچنے، محسوس کرنے، جاننے اور جستجو کےخبط میں مبتلا ایک طالبِ علم ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply