(محبت کُھرک ہے سے اقتباس)
“پچیس سال پہلے کی بات ہے”
میں کسی کاند ھے پہ سر رکھ کے رونا چاھتا تھا۔مجھے کوئی ایسا شانہ نہ ملا، جس پہ سر رکھ کے رویا جا سکتا۔پچیس سالوں میں، پچاس لوگ ملے جو دل کا درماں بن سکتے تھے، مگر وھاں دل ہوتا تو مداوا ہوتا۔
پھر آج وہ آگئی، میرے سینے سے لگ کے ان گزرے برسوں کا ماتم کرنے۔۔
میری بیوی نے اچھا کھانا پکایا گھر سنوارا بچے نہلائے،
وہ آگئی تو میں نے سوچا کہ وہ جدائی کا لمحہ لمحہ کریدے گی، مگر موضوع کسی نئی ہاؤسنگ سکیم میں پانچ مرلے کا گھر تھا،
” یہ بہت فلرٹ ہیں”
میری بیوی نے شکائیت کی ، تو اس نےشاکی نظروں سے دیکھا
لیکن کہا کچھ نہیں،
پوچھتی تو بتاتا کہ اس کے جانے کے بعد لوگ تو بہت ملے، جائے اماں ملی ہی نہیں ۔
جسے جیتا، اسے ہارا
اور جسے ہارا،؟
ہا رتو سامنے بیٹھی تھی۔ ۔
بس ایک ماں تھی ،اسے بھی آٹھ سال بعد احساس ہوا لڑکا جینا نہیں چاہتا،ممتا کاواسطہ دے کر شادی کردی،لڑکا اب مرنا چاہے بھی تو نہیں مر سکتا،سٹار فش کی طرح چار بچوں میں بٹ کر چار زندگیاں جی رہا ہے۔
پہلے اسے ہار گیا،
پھرخود کو۔۔
” مجھے بھی اپنے شوہرکو سمجھنے میں بائیس برس لگے”اس کا مخاطب میں تھا۔
“کھوتے کا پتر ”
ایک عورت کو اس کے بیوی ہونے کا احساس دلانے میں اتنا عرصہ کب لگتا ہے ۔؟
میں نے سوچا،کہا نہیں۔
کیسے کہتا، محبت اگر کھیل ہوتی تو میں شاید سب سے اچھا کھلاڑی ہوتا،بدقسمتی تو یہ ہے کہ محبت کھیل نہیں ہے ۔پھر بھی ایک عورت کو چکر دینا کیا مشکل ہے؟
چند فقرے ، کچھ الفاظ، جنہیں آپ خود بھی بھول جاتے ہیں۔۔عورتیں برسوں یاد رکھتی ہیں۔سیونگ اکاؤنٹ میں سنبھال کر رکھتی ہیں ۔برسوں بنک نہ جاؤ۔کھاتہ ہمیشہ کھلا ہی رہتا ہے۔
” یہ مچھلی میں نے بیک کی ہے، فرائی نہیں کی ”
بیگم نے مچھلی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے مجھے حاتم طائی کی نظروں سے دیکھا ۔
“تم اتنے فلرٹ کیوں ہو”؟
میری پہلی محبت نے محبت سے پوچھا
“نہیں میں نہیں ہوں”
میں نے بس اتنا کہا اور اپنی آخری محبت کو محبت سے سوچا ۔
سچائی کبھی کبھار اذیت ناک بھی ہوجاتی ہے ۔ ۔۔لہذا فائدہ؟
” تم اب بھی شاعری کرتے ہو “؟
پتہ نہیں اس نے مچھلی سے پوچھا تھا کہ مجھ سے؟ اس کا دھیان پلیٹ میں تھا
” نہیں شاید اب کرنے لگوں”
میں نے جواب دیا تو ریفری نے گھورا
پچیس سال میں اس لڑکی کیلئے دربدر رہا ؟
میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا،
اگر میں اس کے سامنے پچیس سال کی اذیتوں کا حساب رکھ دیتا تو وہ مر جاتی،
” یہ تم کو اکثر یاد کرکے رو دیتے ہیں”
بیگم نے اپنے تئیں انکشاف کیا
“یہ تو شروع ہی سے پاگل تھا ”
اس کی آنکھوں میں سارے جہاں کی ممتا تھی ۔
مجھے ذرا سمجھ نہیں آئی کہ مجھے ان دو خواتین کے سامنے شرمندہ ہونا ہے، کہ فخر کرنا ہے ۔
میں صرف مسکرادیا،
دونوں ہی الو کی پٹھی ہیں ،ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ۔
ایک نے میرے پاؤں تلے زمیں نہ رہنے دی
اور دوسری نے زندگی پہ اتنا بوجھ لاد دیا کہ
کھوتا بنا دیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں