• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اربعین کے مسائل، کیا ذمہ دار صرف عراقی حکومت ہے؟

اربعین کے مسائل، کیا ذمہ دار صرف عراقی حکومت ہے؟

کل آفس میں بیٹھا تھا کہ چنیوٹ سے ایک دوست کی کال آئی کہ وہ اسلام آباد کے راستے میں ہیں اور اربعین کے لئے عازم سفر ہونا چاہتے۔ میں نے قلبی خوشی کا اظہار کیا، اس کے بعد وہ کہنے لگے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ویزہ اپرول ابھی تک نہیں پہنچی۔ جیسے جیسے وقت کم ہو رہا ہے ویسے ہی میرا اضطراب بڑھ رہا ہے اس لئے میں اسلام آباد آ رہا ہوں کہ شائد یہاں سے مسئلہ حل ہوجائے، اگر آپ کا کوئی تعلق ہے تو مہربانی کریں اور ویزہ کا مسئلہ حل کرائیں۔ یہ ایک آدمی کا مسئلہ نہیں ہے، آپ اپنے اردگرد غور کریں بہت سے ایسے عاشقان امام حسینؑ ہیں جو ان دنوں شدید پریشانی کے عالم میں ہیں۔ کچھ ویزے کے حصول کے لئے سرگرداں ہیں اور جن کے ویزے لگ چکے ہیں اور ان کی مالی پوزیشن کمزور ہے، وہ اس لئے پریشان ہیں کہ اگر بارڈر پر پہنچ گئے اور بارڈر ہی نہ کھلا تو کیا کریں گے؟

ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق بہت سے بڑی تعداد میں زائرین اس وقت ایران میں موجود ہیں اور بڑی بے قراری سے بارڈر کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ عراقی حکومت نے فقط بائی ایئر راستے سے پاکستانیوں اور افغانیوں کو عراق داخلے کی اجازت دی ہے۔ زائرین کی غالب اکثریت غریب بلکہ انتہائی غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے، وہ تو اے سی بسوں اور اچھی ٹرینوں کا کرایہ ادا نہیں کر سکتے، وہ ہوائی سفر کے اخراجات کہاں سے لائیں گے؟ اس طرح تو اربعین صرف ان لوگوں کے لئے رہ جائے گا جو مالی آسودگی رکھتے ہیں۔

زیادہ پرانی بات نہیں میں گھر میں تھا، والدہ محترمہ کے پاس دو تین خواتین ملنے کے لئے آئیں، اتفاق سے محرم کا مہینہ تھا۔ جب وہ چلی گئیں تو امی بتانے لگیں کہ بہت ہی عقیدت رکھنے والا خاندان ہے، یہ پورا محرم شہر میں ہونے والی مجالس پیدل سننے جاتی ہیں، اپنا کھانا کھا آتی ہیں اور گھر والوں کا لنگر لے آتی ہیں۔ کوشش کرتی ہیں کہ گھر میں کھانا پکانے کی نوبت نہ آئے یوں پورا سال بچت کرکے یہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرتی ہیں اور ایک انتہائی سستے قافلے کے ساتھ زیارات پر جاتی ہیں۔ انہیں رہنے کے لئے فور اسٹار ہوٹل نہیں چاہیئے، نہ ہی انہیں دس پندرہ کھانوں کا دسترخوان چاہیئے۔ ان کی عقیدتوں کا محور امام حسینؑ کی ذات ہے۔

ان کی زیارت کے لئے بھوک، پیاس، تھکاوٹ سمیت ہر طرح کی تکالیف برداشت کر لیتی ہیں۔ میں کافی دیر ان مومنہ خواتین کے بارے میں سوچتا رہا اور ان کے لئے دعائیں کرتا رہا کہ یہ عشق حسینؑ کی آگ ہے جو حرارت ایمانی پیدا کرتی ہے۔ آج کے اس پر آشوب دور میں جب لوگ اپنے قریبی عزیزوں کو بھول جاتے ہیں، سالوں ان کی قبروں پر نہیں جاتے، یہ نبیؐ کے نواسےؑ کی زیارت پر جانے کے لئے اس قدر بے قرار ہیں۔ یہ ایک گھر کی کہانی نہیں آپ قافلہ سالاروں سے پوچھیں یا خود زائرین کے انٹرویو کریں ایسے ایمان افروز واقعات سننے کو ملیں کہ آپ کا ایمان تازہ ہو جائے۔

آخر ویزے کے یہ مسائل کیوں پیدا ہوئے؟ کیوں پاکستانی اور افغانستانی زائرین پر زمینی بارڈر بند کر دیئے گئے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں، وہ عراق جس نے داعش سے جنگ کرتے ہوئے بھی ایسا اقدام نہیں کیا اب ایسا کیوں کیا؟ زائرین صرف اپنی قلوب کو ایمان سے مزین کرنے کے لئے عراق جاتے ہیں مگر سارے جانے والے ایسے نہیں ہیں۔ نجف، کربلا، بغداد اور عراق کے بہت سارے شہر ایسے ہیں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے پاکستانی موجود ہیں جو اربعین کے موقع پر زیارت کے ویزے پر گئے اور واپس نہیں آئے۔ انہوں نے وہیں پر چھوٹی موٹی جاب ڈھونڈی اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ مقامی عراقی جو بے روزگاری کا شکار ہیں انہوں نے اس پر کافی احتجاج کیا، پہلے تو اسے نظر انداز کیا گیا مگر اب عراقی حکومت کے لئے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔

اس لئے پچھلے چند سال سے مسلسل اربعین کے موقع پر بارڈر کھلنے کا مسئلہ پیش آنے لگا۔ چند دن پہلے میری عراقی سفارتخانے میں بات ہوئی وہ کہہ رہے تھے کہ اربعین کے موقع پر پاکستانیوں کے لئے بارڈر کھولنے کے حوالے سے مثبت فیصلہ ہونے ہی والا تھا کہ نجف ایئرپورٹ سے بھکاریوں کا ایک گروہ عراقی سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا۔ جرائم پیشہ افراد لوگوں کی عقیدتوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے ایسے مقدس مقامات کا رخ کرتے ہیں اور اپنا کاروبار چمکاتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی تھی کہ لوگ عمرہ کے سیزن میں عمرہ کا ویزہ لگوا کر جاتے ہیں اور ان کا کام بھیک مانگنا ہے اور وہ یہی کام کرتے ہیں۔

ہر سال سعودی پولیس ایسے لوگوں کو پکڑ کر ڈی پورٹ کرتی ہے۔ عراقی حکومت کے لئے واقعا یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ ایسے جرائم پیشہ افرد کو کیسے روکا جائے؟ جو طریقہ عراقی حکومت نے اختیار کیا ہے وہ نامناسب ہے اس سے زائرین متاثر ہو رہے ہیں۔ آپ قافلہ سالاروں کی رجسٹریشن کریں، معقول سکیورٹی فیس رکھ دیں، دیگر کئی طرح کی ضمانتیں ہوسکتی ہیں جن کے بعد ایسے لوگوں کا زائرین کے روپ میں داخل ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ جن ہوٹلز اور اداروں میں یہ غیر قانونی طریقے سے کام کرتے ہیں ان کے خلاف کاروائی کریں، جب کوئی جاب ہی نہیں دے گا تو خود بخود یہ سلسلہ بند ہو جائے گا۔ یہ سلسلہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کے تحت ہی کام کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک گذارش یہ بھی ہے کہ ویزہ پروسس میں اسکروٹنی کو مزید بہتر کریں، ایسا تبھی ہوتا ہے جب اداروں میں ایسے گروہوں کے رابطے ہوں، جن ذرائع سے یہ لوگ عراق داخل ہو رہے ہوتے ہیں۔ نجف ایئرپورٹ سے بھکاریوں کا داخل ہونا یہ بتا رہا ہے کہ مسئلہ صرف زمینی بارڈر بند کرنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ اور حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ پاکستانی بارڈر سے لے کر عراقی بارڈر تک ایران کی مومن عوام نے اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے بہترین انتظامات کئے ہیں جس میں زائرین کو ہر طرح کی سہولت دی گئی ہے۔ عراقی حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ اس بار بارڈر کو کھول دیں اور اگلے سال کے لئے بھرپور حکمت طے کریں تاکہ بارڈر روٹین کے مطابق کھلا رہے اور زائرین کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply