تجدید وفا اور تجدید پاسپورٹ۔۔ فرزانہ افضل

تجدید وفا اور تجدید پاسپورٹ۔۔ فرزانہ افضل/ چھٹیاں منانے کی خواہش دل میں جاگی تو سب سے پہلے میں نے اپنا برطانوی پاسپورٹ دیکھا ۔ پتہ چلا کہ اس کی مدت تو جنوری میں ختم ہونے والی ہے ۔ کاغذات کی تاریخوں سے لیکر گاڑی و گھر کی انشورنس کی مدت معیاد یا تجدید یاد رکھنے کی عادت میں نے اپنے والد محترم سے سیکھی ہے ۔میں انہیں پیار سے ڈیڈی کہتی تھی اور ان سے اتنی محبت تھی کہ میرے بچے بھی اپنی توتلی زبان کی عمر سے ہی انہیں ڈیڈی جان کہنا شروع ہوگئے تھے۔ڈیڈی جان اتنے منظم تھے کہ ان کے پاس ایک ڈائری ہوتی تھی جس میں وہ حساب کتاب سے لیکر کاغذات کی تجدید و دیگر اہم معاملات کا ریکا رڈ رکھتے تھے ۔

برطانوی پاسپورٹ توآج کل آن لائین سروس بذریعہ کمپیوٹر جمع ہوجاتا ہے لیکن مجھے مشین سے کھینچی گئی تصویر کی بجائے فوٹو اسٹوڈیو میں جا کر تصویر کھنچوانا پسند ہے ، بھئی کوئی تو اہتمام ہو آخر کو یہ تصویر ہماری شناختی دستاویز پر چسپاں ہونی ہے ورنہ تو بقول شخصے انسان اتنا بدصورت نہیں ہوتا جتنا پاسپورٹ پر نظر آتا ہے ۔ خیر تصویر کھنچوا کر درخواست فارم پُر کیا اور بذریعہ ڈاک بھیج دیا۔ اگلے دن ہمارے فون پر محکمے کا پیغام آیا کہ آپ کی درخواست مل گئی ہے اور آپکا پاسپورٹ مارچ تک تیار ہو جائے گا یہ پڑھ کر میں تو اچھی خاصی بوکھلا گئی کہ یہ تو تقریباً  بارہ ہفتے کاانتظار ہے ۔ ایسے میں اگر مجھے کہیں سفر کرنا پڑ گیا تو کیا کروں گی لہذا ہم نے جھٹ سے پاسپورٹ آفس فون گھما دیا۔

فون گھمانا بھی اب محاورتاً ہی رہ گیا  ہے،ورنہ آج کل تو بٹنوں والے فون سے لیکر ٹچ سکرین سمارٹ فونز نے ہم سے تو وہ فون کے نمبر گھمانے کی موسیقی ہی چھین لی ۔ فون پر مطلوبہ سروس منتخب کرنے کے تکلیف دہ مراحل سے  گزرنے کے بعدایک شائستہ اور میٹھی آواز والی خاتون نے مدعا دریافت کیا تومیں نے بھی نہایت شائستگی مگر قدرے پریشانی میں بتایا کہ میں اتنے ہفتے انتظار نہیں کر سکتی کیا میں اپنی درخواست فاسٹ ٹریک سروس کے لیے تبدیل کروا سکتی ہوں ۔وہ بولی اس صورت میں آپ کو نئی فیس ادا کرنی پڑے گی ، موجودہ درخواست منسوخ ہوجائے گی اور پہلی درخواست کی فیس بھی ضائع ہو جائے گی۔ ہم نے یہاں سے آئندہ کے لئے یہ سبق سیکھا کہ اب ایسا کبھی کوئی خطرہ مول نہیں لینا اور پاسپورٹ کی معیاد ختم ہونے سے قبل ہی درخواست بھیج دینی چاہیے۔ خیر وہ بولی آپ کی درخواست مطلوبہ سروس کے آپریٹرز کو بھیج دی گئی ہے وہ آپ سے بذریعہ فون رابطہ کر لیں گے۔

آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ میرے موبائل فون پر پرائیویٹ نمبر سے کال آئی ۔برطانیہ میں زیادہ تر سرکاری دفاتر یا ادارے پرائیویٹ نمبر سے کال کرتے ہیں مگر دھیان رہے کبھی کبھار یہ فراڈ کالز بھی ہو سکتی ہیں۔ میں نے بے چینی سے فون اٹھایا تو ایک خاتون نے نہایت خوش اخلاقی سے اپنا تعارف کروایا کہ وہ پاسپورٹ دفتر سے بول رہی ہیں انہوں نے میرے فارم میں سپیلنگ کی کچھ غلطی نکالی تھی اور مجھ سے اجازت چاہی کہ کیا وہ فارم واپس بھیجنے کی بجائے اسے خود ہی ٹھیک کر دے ۔ میں نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ ۔البتہ میرے ذہن میں فاسٹ ٹریک سروس کا خیال ابھی بھی تلملا رہا تھا میں نے اس بارے پوچھا تو وہ مہربان خاتون کہنے لگی کہ میں ہی آپ کے پاسپورٹ پر کام کر رہی ہوں۔آپ کا پاسپورٹ آج شام تک ویسے ہی بن جائے گا اور اگلے تین چار روز میں آپ کو مل جائے گا۔ آپ کو اس کی ضرورت ہی نہیں ۔ میری خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ رہا ، میں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا۔تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ فاسٹ ٹریک سروس والوں کا بھی فون   آگیا اس مرتبہ ایک اورخاتون گویا ہوئیں کہ ہمیں آپ سے رابطہ کرنے کا کہا گیا ہے آپ فاسٹ ٹریک سروس چاہتی ہیں ۔ میں نے فوراً  ہی اسے کہاکہ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ مجھے بتا دیا گیا ہے کہ میرا پاسپورٹ تیار ہوگیا ہے اس نے اپنے سسٹم میں چیک کر کے اس بات کی تصدیق کی ۔ اور کوئی خدمت ہمارے لائق کا جملہ بولا اور بڑی شائستگی سے فون بند کردیا ۔

یقین کریں میں پاسپورٹ آفس اسٹاف کی خوش اخلاقی اوراس تیز ترین سروسز پر عش عش کر اٹھی ،اس سسٹم کے لیے دل سے دعائیں نکلیں ،اور سوچا کہ تجدید پاسپورٹ کی اس سروس پر دل اتنا شاداں و رقصاں ہے تو اگر دل کی دنیا میں بھی ایسا ہی کوئی محکمہ تجدید وفاکا ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔ایسی کوئی سروس انسانی دل میں ہوتی تو ہر سال تجدید وفا کروا لی جاتی مگر کیا کریں کچھ حسرتیں کچھ خواہشیں دل میں ہی رہتی ہیں بقول فیض احمد فیض
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

پاسپورٹ آفس کی اس بہترین سروس کے بعد میرے ذہن میں سوالا ت سر اٹھانے لگے کہ احساس کی دنیا تو شاید ہمارے لئے ممکن نہیں لیکن انسانوں کے معاشرے میں ممالک کا نظام تو بہتر بنایا جا سکتا ہے اگرایسا موثر ، تیز اور شفاف نظام مغربی ممالک میں ممکن ہے تو ہمارے آبائی وطن میں کیوں ممکن نہیں ۔ جہاں بدقسمتی سے کسی بھی سرکاری محکمے سے پالا پڑ جائے تو چائے پانی کے نام پر رشوت اور کسی بااثر شخصیت کی سفارش کا سہار اڈھونڈنا پڑتا ہے سوچتی ہوں انسان تویہاں بھی ہیں اور ادھر بھی بستے ہیں تو پھر دل و دماغ اور سوچ میں مماثلت کیوں نہیں۔؟

بُرا سمجھوں اُنھیں ،مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا

کہ میں خود بھی ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں

Advertisements
julia rana solicitors

مہنگائی، کرپشن ، بڑھتی ہوئی آبادی ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، جنسی بے راہ روی، کم عمر معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی، دہشت گردی ، خواتین کے حقوق اور عصمت کی پامالی، جانبدار میڈیا ، حکومتوں کی بے حسی تو شاید پیچیدہ معاملے ہوں لیکن کیا ہم اپنے دفاتر میں فائلیں دبانے سے لیکر فاسٹ ٹریک کےلئے رشوت طلب کرنے والے نظام کو بھی تبدیل کرنے سے قاصر ہیں ؟کیا یہ نظام بنانے میں بھی کسی معجزے کی ضرورت ہے ۔ہم نے بحیثیت قوم اپنی کیا پہچان بنائی ہے۔؟ہمارے معاشرے میں انفرادی طور پر بھی غیر ذمہ دارانہ رویہ پختہ ہو چکا ہے۔؟
دل چیر دینے والے مری حادثے کی بھی تمام تر ذمہ داری عوام نے حکومت پر تھوپ دی یا پھر تقدیر کا لکھا کہہ کر مغفرت پڑھ لی ،کیا بطور فرد ہماری کوئی  ذمہ داری  نہیں تھی ۔کیاچھٹیوں پر جانے سے قبل ضروری معلومات لینا، ہوٹل بکنگ سے لیکر ،سیفٹی اقدامات ،اور موسم کی خبر لینا افراد کی اپنی ذمہ داری نہیں ۔؟اب تو ہر شخص کے پاس اسمارٹ فون ہے جسے ہم سوشل میڈیا، چیٹنگ اور ٹک ٹاک جیسی فضول سرگرمیوں میں تو استعمال کرتے ہیں کیا اس پر دوسری اہم معلومات لینے کا آپشن نہیں ہوتاتو پھر ان سے استفادہ کیوں نہیں کیا جاتا ۔ مری میں لوگ گاڑیوں میں گئے تھے تو صاف ظاہر ہے وہ صاحب ِ حیثیت اور کسی حد تک تعلیم یافتہ بھی ہوں گے مگر کیوں شعور اور آگاہی کی کمی ہے۔ اگر ہم نقصانات اور سسٹم کی خرابی کی ذمہ داری خود پر بھی لینا شروع کر دیں اور دوسروں یا حکومت اور تقدیر پر ذمہ داری ڈال کر سبکدوش ہونے کی بجائے اپنے شعور کو بہتر بنائیں، تو کیا وجہ ہے کہ معاشرے کے تمام تر بگاڑ ختم نہ ہوں۔ آئیے ہم اپنے وطن سے ہی تجدید وفا کرلیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply