• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نواز شریف اور مریم نواز : ٹیکنیکل ناک آؤٹ/تحریر- محمد اسد شاہ

نواز شریف اور مریم نواز : ٹیکنیکل ناک آؤٹ/تحریر- محمد اسد شاہ

پانامہ لیکس کے نام پر صرف شریف فیملی کے خلاف بھرپور عدالتی کارروائی کے دوران پہلی بار دیکھا گیا کہ عدالت میں زیر التوا کسی مقدمے پر ٹی وی چینلز ، اخبارات اور سوشل میڈیا پر بھرپور تبصرے اور بحثیں جاری رہیں – عدالت اس سلسلے کو روک سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا – تب سے یہ روایت بن گئی ہے کہ ہر مشہور مقدمے اور عدالتی کارروائی پر عام مباحث جاری رہتے ہیں – اب اگر کوئی عدالت اسے روکنا چاہے گی تو سوال اٹھے گا کہ پانامہ لیکس کے ہنگام جب شریف فیملی کے ٹرائلز ہو رہے تھے ، تب کیوں نہ روکا گیا – میرے خیال میں عدالتی احترام کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم ایسے معاملات پر خاموشی اختیار کریں – تا کہ عدالتوں پر دباؤ ڈالنے ، یا کسی طے شدہ فیصلے کی راہ ہموار کرنے جیسا تاثر نہ پیدا ہو – سرکاری افسران اور ایک خاتون جج کے نام لے کر جلسہ عام میں دھمکیاں دینے کے ملزم عمران خان کو بن مانگے مہلت دینا ، اور ایک مزید جواب دینے کا موقع دینا آج کل ہر جگہ زیر بحث ہے – اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ ملزم عمران خان کو عدالت میں جو غیر معمولی احترام حاصل ہے، کیا آئین یا عدالتی غیر جانب داری اس بات کی اجازت دیتے ہیں؟ ایسا احترام تمام ملزموں کے لیے کیوں نہیں؟ کیا اس کے لیے آئین میں کوئی خاص پیمانہ مقرر ہے جس پر صرف عمران پورا اترتا ہے؟ عوام کو بہت اچھی طرح یاد ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی ، محترمہ مریم نواز ، خواجہ سعد رفیق ، سید نہال ہاشمی ، دانیال عزیز ، طلال بدر چودھری اور بعض دیگر سیاسی قائدین کو بطورِ ملزم پیش ہونے پر عدالتوں میں کیا کچھ دیکھنا ، سننا اور سہنا پڑا – وہ سب مکالمے ان کے حامیوں کے اذہان کے علاوہ ٹی وی چینلز اور اخبارات کی آرکائیو میں بھی محفوظ ہیں- ذوالفقار علی بھٹو سے محترمہ مریم نواز تک ، کسی کو بھی “بہت بڑے لیڈر” ہونے یا بے حد فالوونگ رکھنے کی وجہ سے کسی خصوصی اعزاز ، تکریم یا رعایت کا مستحق نہیں گردانا گیا – بل کہ ان کو عدالتوں میں ہمیشہ ملزمان والا درجہ ہی دیا گیا – عدلیہ کا احترام یقیناً بہت ضروری ہے – عوام اس بات کو سمجھتے ہیں، اور اس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی تبصرے کر رہے ہیں – مثلاً گزشتہ روز کسی ٹی وی چینل پر ایک معروف قانون دان بڑے محتاط الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ ایک اور جواب جمع کروانے کا حکم اور بن مانگے مہلت دینے کا جواز ان کی سمجھ میں نہیں آیا – مقدمہ یہ ہے کہ عمران خان نے اقتدار سے محروم ہوتے ہی اداروں ، سیاسی جماعتوں اور عدلیہ سمیت سرکاری ملازمین تک کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے – جس سے عوام میں بہت خوف ناک اور خطرناک دراڑیں پڑتی نظر آ رہی ہیں – آئین کی رو سے کسی سرکاری ادارے یا ملازم کو سیاست میں دخل دینے کا کوئی حق یا اختیار قطعاً نہیں ہے – لیکن بدقسمتی کہ پاکستان میں روز اول سے اس معاملے میں خرابیوں کی بنیاد رکھ دی گئی – سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کو روکنے کے لیے محترمہ فاطمہ جناح ، ذوالفقار علی بھٹو ، بیگم نصرت بھٹو ، بے نظیر بھٹو ، میاں محمد نواز شریف ، آصف علی زرداری، محترمہ کلثوم نواز اور محترمہ مریم نواز سمیت بے شمار سیاسی راہ نماؤں اور کارکنوں نے بہت جدوجہد کی ہے – اس حوالے سے عوام اب تک شعور کی جس منزل تک پہنچ پائے ہیں ، یہ دراصل انھی کی جہد مسلسل کا نتیجہ ہے – سیاست میں نادیدہ قوتوں کا راستہ روکنے کی جدوجہد میں ان لوگوں کو مقدمات ، پیشیاں ، گرفتاریاں ، ہتھ کڑیاں ، بیڑیاں ، چھاپے ، میڈیا ٹرائل، کرپشن کے الزامات، بدنامیاں ، تحقیر ، تذلیل ، طعنے ، تلخ ریمارکس، تشدد اور قید و بند تک کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں – محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کو مورخین قتل عمد قرار دیتے ہیں – وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا – وزیراعظم محمد نواز شریف کو ہوائی جہاز کی نشست کے ساتھ زنجیروں کے ذریعے باندھ کر سفر کروایا گیا اور آہنی پنجرے میں بند کر کے کراچی کی سڑکوں پر گھمایا گیا – بے نظیر اور نصرت بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کا آخری دیدار تک نہ کرنے دیا گیا – محترمہ کلثوم نواز بستر مرگ پر تھیں اور ہسپتال پر پتھراؤ کیا جاتا تھا- محترمہ مریم نواز کو ہسپتال میں مریض باپ کے سامنے رات کے وقت ہتھ کڑیاں لگائی گئیں – لیکن ان لوگوں نے کبھی قوم یا اداروں کو تقسیم کرنے کی راہ اختیار نہیں کی – پوری قوم یہ چاہتی ہے کہ ادارے سیاست سے دور رہیں – لیکن عمران کو شکایت یہ ہے کہ اداروں نے اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام کرنے کے لیے خفیہ راستے کیوں نہ اپنائے – عمران کھلم کھلا ہر جلسے میں اداروں کو مخاطب کر کے مطالبہ کرتا ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹا کر اسے اقتدار دلوائیں – چناں چہ عمران اور اس کی جماعت قوم اور اداروں کو اندرونی طور پر تقسیم کرنے کی واضح پالیسی پر گام زن ہیں – ہمیں معلوم نہیں کہ آیا یہ پالیسی پی ٹی آئی کے کسی باقاعدہ اجلاس میں طے کی گئی ، یہ عمران خان کی ذاتی سوچ ہے یا کسی اندرونی یا بیرونی مشیر یا سرپرست کے کہنے پر عمران نے اختیار کی اور پھر پوری پارٹی نے ذہنی غلام بن کر اپنا لی – اگر بیرونی ڈالرز قبول کیے جا سکتے ہیں تو یقیناً بیرونی مشورے بھی قبول کرنا پڑتے ہیں – ہمارے سامنے اس سلسلے میں کوئی تحقیقی رپورٹ یا ثبوت نہیں ہے – لیکن قوم اور اداروں کی تقسیم کا ایجنڈہ انتہائی خطرناک ہے ، جسے روکنے کی ہر سطح پر کوشش کرنا لازم ہے – شہباز گل نے جو کہا ، عمران نے آج تک اس کی غیر مشروط مذمت نہیں کی – البتہ شہباز گل کی حمایت میں تو عمران بہت آگے تک چلا گیا – شہباز گل کی گرفتاری کے بعد سے آج تک عمران کے ساتھ اس کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی – پھر عمران کو اتنا شدید یقین کیسے ہو گیا کہ اس پر کوئی تشدد ہوا- تشدد والا جھوٹ تو اسی وقت پکڑا گیا جب وکلاء شہباز گل سے پوچھ رہے تھے کہ وہیل چیئر اور آکسیجن ماسک کے بغیر خود ہی چل کر عدالت کیوں آئے تو اس نے کہا کہ پولیس نے بتایا تھا کہ ضمانت منظور ہو گئی – لیکن عمران نے تشدد کے خود ساختہ الزام کو بنیاد بنا کر شہباز گل کی بھرپور حمایت کی اور پوری پارٹی کو بھی شہباز گل کے پیچھے کھڑا کر دیا – ثابت ہوا کہ شہباز گل نے جو کچھ کہا وہ عمران کی منشاء کے مطابق کہا – اب خود عمران نے بھی کھل کر وہی راہ اپنا رکھی ہے – آرمی چیف کی تعیناتی کو عوامی سیاست کا موضوع بنانا ملک دشمنی کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ عمران آرمی چیف کو کرپشن کے مقدمات سے کیوں جوڑتا ہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں عمران کی مبینہ فرنٹ پرسن فرح گوگی کے مقدمات جس تیزی کے ساتھ ختم کیے گئے ہیں ، اس میں کسی آرمی چیف کا کوئی کردار نہیں – تفتیشی افسران کو فوری طور پر تبدیل کر کے مقدمات ختم کرنا ، اور پھر بری کرنے والے افسران کی ترقیاں یہ ثابت کر رہی ہیں کہ دوسروں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگانے والا سیاست دان خود کرپشن کے کتنے راستے جانتا ہے – وزیراعظم شہباز شریف کو تو سرکاری افسران کے تبادلوں سے روکا گیا لیکن فرح گوگی کے تفتیشی افسران کے تبادلوں پر کوئی پابندی نہیں – سوال یہ بھی ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے خود عمران کا بھی کیا تعلق ہے؟ یہ تو صرف وزیراعظم پاکستان کا آئینی اختیار ہے – عمران کو اگر کوئی وزیراعظم پسند نہیں ہے تو آئین کیوں بدل دیا جائے- ویسے عمران کو خود اپنے آپ کے علاوہ کوئی شخص بطورِ وزیراعظم یا اپوزیشن لیڈر پسند نہیں آتا – اپنی مرضی کا آرمی چیف بنوانے کے شوق میں عمران کے ترجمان فواد چودھری نے وفاقی حکومت کو متنازعہ تک کہہ دیا – سوال یہ ہے کہ کیا عمران متنازعہ شخصیت نہیں؟ کیا پوری پی ٹی آئی متنازعہ نہیں؟ کیا فواد چودھری متنازعہ نہیں؟ کیا پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت متنازعہ ترین صوبائی حکومت نہیں؟ اسمبلی میں تو دو مرتبہ حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے – جب ان کے ووٹ 200 تھے تب بھی کام نہیں کرنے دیا گیا اور جب 176 ہو گئے تب بھی – اب عمران کی خواہش ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف کی پہلے فروخت اور بعد میں خرید ، اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے ، فارن فنڈنگ کے بہت سے اکاؤنٹس چھپانے ، سرکاری افسران اور خاتون جج کو دھمکیاں دینے کے باوجود اسے نااہل قرار نہ دیا جائے – وہ اسے ٹیکنیکل ناک آؤٹ قرار دے رہا ہے – حال آں کہ یہ قانونی و آئینی راستہ ہے اور قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے – پاکستانی تاریخ میں ٹیکنیکل ناک آؤٹ کی واحد مثال صرف میاں محمد نواز شریف ہیں جنھیں عوام نے تین بار وزیراعظم منتخب کیا ، جو عوامی خدمت اور مقبولیت کی انتہاء پر تھے اور صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر انھیں ٹیکنیکل ناک آؤٹ نہ کیا جاتا تو 2018 اور اس کے بعد بھی انھیں شکست دینا تقریباً ناممکن تھا – تب عمران خان ، سراج الحق اور شیخ رشید نے نادیدہ قوتوں کے اشارے پر ان کے خلاف پانامہ لیکس کا مقدمہ کیا – پانامہ لیکس میں 446 پاکستانیوں کے نام تھے – لیکن آج تک ان میں سے کسی کو کچھ نہیں کہا گیا – میاں صاحب کا نام پانامہ لیکس میں نہیں تھا – لیکن انھیں اور محترمہ مریم نواز کو بھی راستے سے ہٹانا مقصود تھا – ورنہ عمران کی وزیراعظم بننے کی حسرت کبھی پوری نہیں ہو سکتی تھی – میاں صاحب کو اس بات پر تاحیات نااہل قرار دیا گیا کہ اپنے بیٹے کی کمپنی سے غیر وصول شدہ تنخواہ کو انھیں نے اپنے اثاثوں میں شامل نہیں کیا تھا – اور محترمہ مریم نواز کو بھی نااہل قرار دے دیا گیا جب کہ وہ کسی پارلیمنٹ کی رکن نہیں تھیں – یہ ہوتا ہے اصلی ٹیکنیکل ناک آؤٹ – جب کہ عمران پر تو مقدمہ یہ ہے کہ اس نے فارن فنڈنگ کے وصول شدہ ڈالرز اور اکاؤنٹس چھپائے ، اور توشہ خانے سے وصول کردہ تحائف بھی چھپائے ، اور جلسوں میں سرکاری ملازمین اور خاتون جج کو “تیار رہنے” کی دھمکیاں دیں – اگر یہ جرائم عدالت میں ثابت ہو جائیں تو تاحیات نااہل قرار کیوں نہ دیا جائے؟ کیا سچائی کے معیارات 22 کروڑ عوام کے لیے مختلف ہیں اور عمران کے لیے مختلف ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply