بلوچ کا نوآبادکار کے خلاف جوابی تشدد (1)۔۔ذوالفقار علی زلفی

بلوچستان کے شہروں نوشکی اور پنجگور میں پاکستانی فوج کے کیمپوں پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی ذیلی تنظیم مجید بریگیڈ کے فدائی حملوں کے بعد بلوچ تحریک ایک دفعہ پھر پاکستان کے دانش ور حلقوں میں موضوعِ بحث بن گیا ہے ـ البتہ تبصروں و تجزیوں کا وہ طوفان نظر نہیں آرہا جو نواب اکبر خان بگٹی کی پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل اور بلوچ خطے (بشمول کراچی) میں اس کے شدید و وسیع ردعمل کے بعد دیکھا گیا ـ غالباً اس کی اہم ترین وجہ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے غیراعلانیہ طور پر بلوچستان کو “ممنوعہ” قرار دینا بھی ہے ـ
بلوچ تحریک کے حوالے سے بلاتخصیص دائیں و بائیں سیاسی نظریات کے حامل پاکستانی دانش وروں و لکھاریوں کا غالب نظریہ ماضی کی طرح آج بھی یہی ہے کہ یہ ایک بیرونی (عموماً بھارت) سازش ہے ـ پاکستانی مارکسیوں کی اکثریت البتہ اسے عالمی سرمایہ دار بالخصوص امریکی سازش بھی قرار دیتے رہتے ہیں ـ رائٹ ونگ حلقوں کی جانب سے بلوچ تحریک پر حملہ نیا نہیں ہے ـ 1948 کو بلوچستان کے جبری الحاق سے ہی بلوچ تحریک کو وہ کبھی روسی، کبھی عراقی تو کبھی بھارتی سازش منوانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں ـ خود کو مارکس وادی قرار دینے والے پاکستانیوں کی جانب سے بلوچ تحریک پر حملہ تاہم نئی صدی کی پہلی دہائی کے وسط سے شروع ہوا ـ
مزکورہ حلقوں کی بحث سے ایسا لگتا ہے جیسے بلوچ قومی آزادی کا نعرہ ایک اچانک پیش آنے والا واقعہ ہے ـ سوشل میڈیا پر سرگرم ایک معروف “پاکستانی مارکسسٹ” تو اسے “بلوچ بورژوازی کے ظالم ترین نمائندے” نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کا موقع پرستانہ ردعمل بھی قرار دے چکے ہیں ـ حالانکہ بلوچ تاریخ کی جدلیات سے واضح ہے کہ ایسا قطعاً نہیں ہے ـ
*بلوچ تحریک کا مختصر پس منظر*
بلوچ قومی آزادی کا پہلا تصور 1749 کو نوری نصیر خان کے اقدامات سے نظر آتا ہے ـ نوری نصیر خان وہ پہلے بلوچ حکمران ہیں جنہوں نے نہ صرف ایک آزاد بلوچ ریاست کا تصور دیا بلکہ عملی صورت میں مختلف قبائل و علاقوں میں بکھرے بلوچوں کو ایک ڈھیلے ڈھالے وفاق میں متحد بھی کردیا ـ نوری نصیر خان کی اقتصادی پالیسیوں کے باعث بلوچ سماج رفتہ رفتہ جاگیردارانہ سماج میں ڈھلنے لگا ـ
بلوچ خطے میں انگریز حملہ آوروں کی آمد اور نوآبادیاتی پالیسیوں نے سماجی ارتقا کا عمل سست کردیا ـ اس کے ساتھ ساتھ انگریز کی براہ راست بیرونی مداخلت کے باعث سماجی تبدیلی کا عمل پیچیدہ اور ناہموار ہوتا گیا ـ نوری نصیر خان کی اقتصادی پالیسیوں کے باعث جو جاگیردار طبقہ پیدا ہوا تھا انگریز کی پالیسیوں نے اس طبقے کی طاقت میں کئی گنا اضافہ کردیا ـ سماج واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گیا ـ
بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مڈل کلاس قوم پرستانہ تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا ـ ان تحریکوں پر جدید مغربی نظریات کا اثر تھا ـ بلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے تعلق رکھنے والے نوجوان سردار، میر یوسف عزیز مگسی اول ان تحریکات سے متاثر ہوئے بعد میں وہ 1917 کے انقلاب روس سے غذا لینے لگے اور انہوں نے باقاعدہ جدید مغربی و مارکسی نظریات کی روشنی میں برطانوی نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی داغ بیل ڈالی ـ
یوسف عزیز مگسی کا تعلق بورژوا طبقے سے تھا لیکن انہوں نے جدوجہد کے لئے مارکسزم کو اپنا ہتھیار بنایا ـ ایک جانب وہ سماج میں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے خلاف تھے تو دوسری جانب وہ ایک آزاد بلوچ ریاست کی تشکیل کے بھی خواہاں تھے ـ بلوچ حکمران طبقہ ایک غیر ترقی یافتہ اور نیم جاگیردارانہ و نیم قبائلی بورژوازی تھا جس کی طاقت اور طبقاتی برتری برطانیہ کی پشت پناہی سے قائم تھی ـ میر یوسف عزیز مگسی کی تحریک بلوچ بورژوازی کی حاکمیت اور طبقاتی برتری کے خلاف بلاشبہ ایک خطرہ تھا ـ سرداروں کی اکثریت نے طبقاتی نظریے کے تحت بلوچستان کی آزادی کے تصور کو مسترد کردیا ـ انہیں خدشہ تھا کہ برطانیہ کے نکل جانے کے بعد ان کی طبقاتی برتری کو نقصان پہنچ سکتا ہے ـ
1937 کو میر یوسف عزیز مگسی کی ناگہانی وفات کے بعد ان کی تحریک کو ان کے دیگر دوستوں نے آگے بڑھایا ـ غیر ترقی یافتہ پیداواری نظام پر مشتمل بلوچ قبائلی سماج میں منظم اور نظریاتی تحریک چلانا اور اسے کامیاب کرنا نہایت ہی مشکل تھا ـ یہ کام اس صورت میں مزید ناممکن ہوجاتا ہے جب طاقت ور مقامی بورژوازی کو ایک دہوہیکل نوآبادیاتی طاقت کی حمایت بھی حاصل ہو ـ
1946 کو ہندوستانی جہازیوں کی بغاوت اور دوسری جنگ عظیم کے نقصانات سمیت دیگر عوامل نے برطانیہ کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کردیا ـ بلوچ حکمران طبقے نے خود کو لاوارث اور قومی شناخت کی بحالی و دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے مخالف تعلیم یافتہ مڈل کلاس کے سامنے کمزور محسوس کیا ـ بورژوازی ایک جانب اپنی حاکمیت بھی بچانا چاہتی تھی اور دوسری جانب وہ دولت کے غیرمنصفانہ نظام کو برقرار رکھنے کی بھی خواہاں رہی ـ اندرونی تضادات سے خوف زدہ حکمران طبقہ نوزائیدہ پاکستان کے حوالے سے کوئی واضح پوزیشن لینے میں ناکام رہی ـ جس کے نتیجے میں بلوچستان ایک آزاد ریاست بننے کی بجائے جبری طور پر پنجابی نوآبادیاتی نظام کا حصہ بن گیا ـ
*پنجابی نوآبادیاتی نظام*
پنجابی نوآبادیاتی نظام کا جبری حصہ بننے کے بعد بلوچ بورژوازی کے ایک حصے نے اپنی آزاد حکمران حیثیت کی بحالی کے لئے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا لیکن انہوں نے محنت کشوں کو منظم کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ بورژوازی کا مقصد محض پنجابی نوآبادکار سے اپنی طبقاتی حقِ حکمرانی منوانا تھا ـ بہرکیف عوامی حمایت سے محرومی، مڈل کلاس طبقے کی عدم شمولیت اور خطے کے بدلتے معروضی حالات کے باعث بورژوازی کی یہ جدوجہد بری طرح ناکام رہی ـ
اس ناکامی کے بعد بورژوازی کے ایک چھوٹے سے حصے نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لئے بلوچ قومی شناخت کی بحالی اور آزاد ریاست کے قیام کے خام تصور پر جدوجہد کے مزید تین ادوار چلائے ـ اس جدوجہد کا آخری دور 1970 کی دہائی ہے ـ اس دہائی کی جدوجہد میں قبائلی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ مڈل کلاس طبقہ بھی شامل ہوا ـ مڈل کلاس طبقے نے قومی سوال کے ساتھ ساتھ طبقاتی سوال کو بھی اٹھایا ـ 70 کی جدوجہد قومی جہدِ آزادی کے حوالے سے خوش گوار تجربہ ثابت ہوا ـ گوکہ اس کے بعد نظریاتی کرپشن کا بھی دور دورہ ہوا اور متوسط طبقے نے پنجابی نوآبادکار کے ساتھ سمجھوتے کرکے اس کے ساتھ نیا رشتہ بنا کر نوآبادیاتی نظام کو قابلِ قبول بنانے کی بھی کوشش کی ـ تاہم قومی آزادی کی جو تڑپ عوام میں پیدا کی گئی تھی متوسط طبقہ کیچڑ میں دھنسنے کے باوجود اس کا مکمل خاتمہ کرنے میں ناکام رہی ـ
*پیش منظر*
اس پوری بحث سے یہ بات کھل کر ثابت ہوتی ہے بلوچ قومی سوال اور اس کے گرد ابھرنے والی تحریک آزادی کوئی اچانک سے پیش آنے والا واقعہ نہیں ہے ـ اس کی جڑیں بلوچ سماج میں گہرائی تک پیوست ہیں ـ معروضی سیاسی حالات کے ارتقا اور مختلف طبقات کے اتفاق و تضادات کی وجہ سے تحریک کی شکل بدلتی رہی ہے ـ اسے کسی بیرونی طاقت کی سازش قرار دینا یا بلوچ حکمران طبقے کے طبقاتی مفادات کے تحفظ کی کوشش کے طور پر منوانا محض ہوا میں تیر چلانا ہے ـ بلوچ قومی بورژوازی کا ایک مختصر حصہ قومی جہد میں شامل ضرور ہوا ہے لیکن تحریک کی اندرونی حرکیات کی وجہ سے ان کے طبقاتی مفادات پسِ پشت چلے گئے تھے ـ جہاں بورژوازی اپنی طبقاتی برتری پر اٹل رہی وہاں تحریک نے اسے غیر متعلق بنا دیا ـ
*بلوچ تشدد*
بلوچ تحریک کے حوالے سے ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ یہ ایک پرتشدد تحریک ہے اس لئے اس کی کامیابی کا امکان کم اور عالمی سطح پر حمایت ناممکنات میں سے ہے ـ
کسی بھی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا تصور محض ایک التباس ہے ـ تحریکات چلتی رہتی ہیں اور شکلیں بدلتی رہتی ہیں ـ یوسف عزیز مگسی کی نیشنلسٹ تحریک بظاہر 1947 کو کامیاب ہوگئی تھی مگر زمینی سطح پر ایسا ہرگز نہ تھا ـ برطانوی نوآبادکار کی جگہ پنجابی نوآبادکار نے لے لی اور دولت کا غیر منصفانہ نظام مزید سفاک ہوتا چلا گیا ـ وہ بلوچ بورژوازی جس کی وفاداریاں انگریز کے ساتھ تھیں اس نے قبلہ بدل کر پنجابی نوآبادکار کو اپنا آقا مان لیا ـ مگسی تحریک نے بھی بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیا ـ قومی شناخت کی بحالی اور قومی آزادی کے حصول کی ایک اور لڑائی شروع ہوگئی ـ
بلوچ حکمران طبقے کی ساخت و پرداخت میں برطانوی نوآبادیاتی نظام کا اہم کردار تھا ـ یہ ایک سدھایا ہوا طبقہ تھا جس کی اپنی کوئی آزادانہ رائے نہیں تھی اور نہ ہی وہ قوتِ فیصلہ رکھتی تھی ـ اسے ایک سرپرست کی ضرورت تھی جس کی چھاؤں میں وہ اپنے حریصانہ مفادات کا تحفظ کرسکے ـ بانیِ پاکستان محمد علی جناح ؛ بلوچ حکمران طبقے کی اس کمزوری سے واقف تھے اس لئے انہوں نے اس طبقے کو اپنی سرپرستی میں لینے کو کسی پس و پیش سے کام نہ لیا ـ بقول جناح “بلوچ سرداروں کی پیدائش انگریز کے ہاتھوں ہوئی لیکن ان کی اصلی تخلیق کا سہرا ہمارے سر جاتا ہے” ـ
سرداروں نے برطانوی نوآبادیاتی دور سے اپنی رعیت کو ایسا تاثر دے رکھا تھا جیسے ان کی زندگی میں کچھ بھی نہیں بدلا، وہ آج بھی آزادی کے ساتھ بھیڑ بکریاں چرا سکتے ہیں، آتشیں اسلحے کے ساتھ نقل و حرکت کرسکتے ہیں اور ہاں بڑی سہولت کے ساتھ قبائلی جنگیں بھی لڑ سکتے ہیں ـ پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کے بعد بھی ان کا یہی رویہ برقرار رہا ـ
پنجابی نوآبادیاتی نظام کے پاسبان پاکستانی دانش وروں نے بلوچ شناخت کی بحالی اور آزاد ریاست کی خواہش کو مادی پسماندگی اور احساس محرومی کا نام دے کر اس کا ذمہ دار سردار کو ٹھہرایا اور دوسری جانب نوآبادکار نے سردار کو اپنی سرپرستی میں لے کر استحصال اور لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھا ـ سرداروں کے صرف ایک مختصر حصے نے اس صورتحال کے خلاف احتجاج کیا ـ یہ مختصر حصہ یوسف عزیز مگسی کی مانند نظریاتی نہ تھا اور نہ ہی اس کے ذہن میں ان کی طرح مستقبل یا جاری جدوجہد کا کوئی مستقل خاکہ تھا ـ اس کے باوجود بورژوازی کے اس چھوٹے سے حصے نے بلوچ شناخت کی بحالی کی جدوجہد میں تمام پرامن ذرائع استعمال کئے ـ اس پرامن جدوجہد کو البتہ بلوچ محنت کش طبقے کے بنیادی مفادات سے زیادہ سروکار نہیں تھا ـ یہ جدوجہد بڑی حد تک قومی بورژوازی اور کسی حد تک پیٹی بورژوازی کے مفادات کا احاطہ کرتا تھا ـ ان میں آزادانہ انتخابات، نوکریوں کی تعداد بڑھانا، لوٹے جارہے وسائل سے حصہ ، تحریر و تقریر کی وہ آزادی جو پنجابی شہری کو حاصل ہے اور نوآبادکار کے قانون ساز اسمبلیوں سے پاس کئے گئے “انسانی حقوق” کا دیے جانا وغیرہ ـ ان پڑھ دیہی آبادی جو اکثریت ہے یہ سرے سے اس کا مسئلہ ہی نہ تھے ـ
پنجابی نوآبادکار جو عالمی سطح پر خود ایک طفیلی ہے، جس کی معیشت امریکی امداد کی بیساکھی پر کھڑی ہے جدید عالمی نوآبادیاتی نظام کا حصہ ہے نے “بے ضرر” مطالبات پر مبنی پرامن بلوچ جدوجہد کو بھی بہت بڑے خطرے سے تعبیر کیا اور اس کے خلاف تشدد کے بدترین امثال قائم کئے ـ فرانز فینن نے نوآبادیاتی نظام پر بحث کرتے لکھا “نوآبادیاتی نظام سوچنے والی مشین نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ایسا جسم ہوتا ہے جس میں دلائل کی صلاحیتیں ہوں ـ یہ نہایت ہی وحشیانہ قسم کا تشدد ہوتا ہے اور یہ محض اس وقت گھٹنے ٹیکتا ہے جب اس کا مقابلہ زیادہ بڑے تشدد سے ہو” ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply