یوشع بن نون علیہ السلام /تحریر و تحقیق: ہمایوں احتشام

اللہ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو دو فرزندان سے نوازا۔ بڑے صاحبزادے جناب اسماعیل علیہ السلام اور چھوٹے صاحبزادے جناب اسحاق علیہ السلام ہیں۔ بنو اسماعیل کو عرب کا خطہ عطا کیا گیا اور بنو اسحاق کو فلسطین و اردن کا علاقہ عطا ہوا۔ وقتی طور پر اللہ نے نبوت کا سلسلہ خاندان اسحاق علیہ السلام کو عطا کیا اور اللہ نے جناب اسحاق علیہ السلام کے بیٹے جناب یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل یعنی یعقوب کی اولاد کو عروج بخشا۔

اسرائیلیوں کا اصل وطن فلسطین تھا۔ لیکن یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈال دیا اور پھر خداوند یعقوب نے یوسف علیہ السلام کو عروج عطا کیا اور ان کو مصر کا بادشاہ بنا دیا۔ یوسف علیہ السلام کی جدائی کے دکھ میں بینائی سے محروم یعقوب علیہ السلام اپنے گیارہ بیٹوں کے ساتھ عزیزِ مصر یوسف علیہ السلام کے دربار میں پیش ہوتے ہیں۔ خداوندِ ابراہیم بنی اسرائیل کو مصر میں آباد ہونے کا موقعہ عطا کرتا ہے۔

مصر میں بنی اسرائیل خوب پھلتی پھولتی ہے، ترقی کرتی ہے اور بڑا نسلی گروہ بن کر سامنے آتی ہے۔ مگر اس ترقی اور نسلی توازن بگڑ جانے کی وجہ سے مقامی مصری اس گروہ کے مخالف ہوجاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ بنی اسرائیل تنزلی کی جانب سفر شروع کردیتی ہے۔ بنی اسرائیل ابراہیم، اسحاق، اسماعیل، یعقوب علیہ السلام کے خدا سے منہ موڑ کر مصری دیویوں اور دیوتاوں کی پرستش میں لگ جاتے ہیں۔ اللہ گائے کے ان پجاریوں سے منہ موڑ لیتا ہے۔

موسیٰ اور ہارون علیہ السلام خداوند کے سامنے جھک کر اپنی قوم کے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام خداوند کا نہایت برگزیدہ بندہ تھا، سو اللہ نے بنی اسرائیل کو معافی کا موقعہ دیا اور ان کو مصریوں کے ظلم و جبر سے بچانے کے لئے موسیٰ علیہ السلام کو امیر بنایا۔

موسیٰ علیہ السلام خداوند کے پیارے ترین بندوں میں تھا۔ جب سمندر کو پار کرنے بابت خداوند نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا تو ان کے ایک شاگرد نے سمندر میں اپنا گھوڑا دوڑا دیا اور سمندر کی گہرائی سے ہوکر واپس آگیا، ایسا تین بار ہوا اور پھر خداوند کے پیامبر جبرائیل علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ اپنا عصا سمندر میں ماریں۔ سمندر بارہ حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بارہ قبائل کی گزرگاہ بن گیا۔

سمندر میں گھوڑا دوڑا دینے والا نوجوان جناب یوشع بن نون علیہ السلام تھے۔ 1350 ق م میں مصر میں پیدا ہونے والے جناب یوشع بن نون علیہ السلام جناب یوسف کے بیٹے افراثیم کی اولاد میں سے تھے۔ انگریزی میں جناب یوشع کو جاشوا کہا جاتا ہے۔ جناب یوشع علیہ السلام جناب موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد اور خدمت گزار تھے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنا پہلا خلیفہ جناب یوشع بن نون علیہ السلام کو مقرر کیا۔ اللہ نے جناب یوشع علیہ السلام کو نبوت سے نوازا۔

جناب یوشع بن نون علیہ السلام پہلے امیر المومنین تھے، جنھوں نے بیعت المقدس کو فتح کیا۔ قرآن میں جناب یوشع بن نون علیہ السلام کا نام لے کر زکر موجود نہیں لیکن سورۃ کہف کی 61 اور 62 آیات میں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ایک جوان کا زکر کیا گیا ہے، آیات میں اللہ فرماتا ہے، ” پھر جب وہ دو دریاؤں کے جمع ہونے کی جگہ پر پہنچے دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے پھر مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا۔ پھر جب وہ دونوں آگے بڑھ گئے تو اپنے جوان سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لے آ، البتہ تحقیق ہم نے اس سفر میں تکلیف اٹھائی ہے۔” ابی بن کعب رض سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات میں متذکرہ اس جوان کے بابت فرمایا کہ یہ یوشع بن نون علیہ السلام ہی ہیں۔

خداوند نے بنی اسرائیل کو مصریوں کے ظلم سے نجات دلائی، انھیں موسیٰ اور ہارون علیہ السلام جیسے انبیا عطا کئے، مگر انھوں نے خداوند کے احکام کی تکذیب کی، اپنے نبی کو جھٹلایا۔ جب خداوند نے اسرائیلیوں کو فرمایا کہ عمالقہ کی قوم سے لڑو اور بیت المقدس کو آزاد کرواو تو اسرائیلیوں نے موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا کہ ” تم اور تمہارا پروردگار لڑے، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔” سو خداوند نے ان کو چالیس سال تک صحرائے سینا میں بھٹکائے رکھا۔

چالیس سال کے دورانیہ میں تمام منکرینِ قتال مرکھپ گئے۔ موسیٰ اور ہارون علیہ السلام خداوند کے سامنے جھک گئے اور اس سے رحم کی درخواست کرنے لگے۔ خداوند نے موسیٰ، ہارون اور یوشع علیہ السلام کی درخواستوں کو قبول کیا اور ان کو جلاوطنی سے امان دی۔

ایک روز اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السّلام کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ہر قبیلے کا ایک رہنما مقرّر کردیں اور اُنہیں اپنے قبیلے کی قیادت و رہنُمائی، قتال (جہ اد) کی تربیت اور دیگر معاملات کی ذمّے داری دے دیں۔ دراصل، یہ ساری تیاری قومِ عمالقہ سے قتال (جہ اد) کے لیے تھی۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے’’اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور اُنہی میں بارہ سردار بنائے اور اللہ نے فرمایا’’ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور میرے رسولوں پر ایمان لاو، ان کی توقیر کرو اور اللہ کو قرضۂ حسنہ دو، تو میں تم سے تمہاری برائیوں کو دُور کردوں گا اور تم کو ایسے باغات میں داخل کروں گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ پس، جس نے تم میں سے اس کے بعد کفر کیا، تو بے شک وہ سیدھے راستے سے گم راہ ہوا۔‘‘
(سورۃ المائدہ12:)

جناب موسیٰ علیہ السّلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بارہ قبائل میں سے بارہ سردار منتخب کیے اور جناب یوشع بن نون علیہ السّلام کو اُن سب کا سپہ سالار مقرّر کردیا۔ ابھی وادیٔ سینا کی سزا کی مدّت پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ پہلے جناب ہارون علیہ السّلام اور پھر دو سال بعد جناب موسیٰ علیہ السّلام انتقال فرما گئے، تاہم جناب موسیٰ علیہ السّلام نے انتقال سے قبل جناب یوشع علیہ السّلام کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرّر فرما دیا تھا۔

صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کی کوئی معاشی سرگرمی نہ تھی، کیونکہ کھانا پینا خداوند کی جانب سے من و سلویٰ کی شکل میں آتا تھا۔ جناب یوشع بن نون علیہ السلام نے سارے مردانِ بنی اسرائیل کو فنون حرب کی تربیت میں لگا دیا اور خداوند کے حکم کی تکمیل کے لئے ابتدائی تیاریاں مکمل کرلیں۔

چالیس سالہ سزا مکمل ہوئی۔ خداوند نے یوشع علیہ السلام کی قیادت میں اسرائیلیوں کو صحرائے سینا پار کرنے کا حکم دیا اور عمالقیوں سے قتال کا حکم دیا۔ نئی نسل صحرائے سینا کی سختیاں سہہ چکی تھی، اور پھر خداوند کا گھر واپس لینا بھی ان کے لئے پرتجسس تھا۔ سو وہ راضی خوشی قتال کے لئے نکل پڑے۔

نہر اردن پار کرکے جناب یوشع علیہ السلام کا سامنا سب سے پہلے اریحا کے عمالقہ قلعہ سے ہوا۔ جو بہت مضبوط قلعہ تھا۔ جناب یوشع علیہ السلام نے چھ ماہ کے عرصے میں یہ قلعہ فتح کیا۔ اس کی فتح کے آخری دن کا واقعہ بتایا جاتا ہے کہ جب اریحا فتح ہونے والا تھا تو جمعہ کے روز کا اختتام یعنی مغرب کا وقت ہوگیا۔ موسوی شریعت میں ہفتہ کو جنگ نہیں لڑی جاسکتی، سو اس وقت جناب یوشع علیہ السلام نے اللہ سے کچھ وقت کی استدعا کی اور سورج ٹھہر گیا۔ کہتے ہیں کہ جناب یوشع علیہ السلام نے فرمایا کہ “اے سورج تو بھی خداوند کے حکم کا پابند ہے اور میں بھی۔ پس تو ٹھہر جا۔” سو سورج ٹھہر گیا اور حتیٰ کہ اریحا کا قلعہ مکمل فتح ہوگیا۔ مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سورج کسی انسان کے لیے نہیں روکا گیا، سوائے جناب یوشع علیہ السّلام کے، جب وہ بیتُ المقدِس کی طرف کُوچ فرما رہے تھے۔‘‘

اللہ نے یوشع بن نون علیہ السلام کو عزت دی اور انھوں نے کنعان کے سارے قلعہ یکے بعد دیگرے فتح کرتے ہوئے ارض مقدس میں قدم رکھا۔ قوم عمالقہ مکمل شکست فاش ہوئی۔ ابن کثیر کے بقول اللہ نے یوشع بن نون علیہ السلام کو اکتیس بادشاہوں پر غلبہ عطا کیا۔

ارض مقدس میں داخلے سے پیشتر خداوند نے خصوصی حکم نامہ جاری کیا کہ اس شہر میں غرور، تکبر، فتح کے نشے سے سرشار، ہلڑ بازی کرتے ہوئے داخل مت ہونا، بلکہ عاجزی، انکساری کے ساتھ اپنے پیغمبر کے پیچھے رہنا۔ اپنی گردن جھکائے رکھنا اور خداوند سے اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے مسلسل درخواست کرتے رہنا۔ اپنی زبانوں پر حطۃ کا ورد رکھنا یعنی اے خداوند ہمیں بخش دے۔ جس طرح خداوند قرآن میں فرماتا ہے، ” اور جب ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہوجاو اور اس میں جہاں سے چاہو خُوب کھاو، پیو اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور’’حِطّۃ‘‘(یعنی اے اللہ! معاف کردے)کہتے جانا، تو ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔‘‘ (سورۃ البقرہ 58)
’’اور جب اُن سے کہا گیا کہ اس شہر میں سکونت اختیار کرلو اور اس میں جہاں سے جی چاہے کھانا، پینا اور جب شہر میں داخل ہو تو ’’حِطّۃ‘‘ کہنا اور دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ کرنا، ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔‘‘ (سورۃ الاعراف161)

یوشع علیہ السّلام نے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے یہ احکام بتائے، سمجھایا اور نصیحت کی اور اُنہیں ان احکام پر یکسو ہوکر عمل کا حکم فرمایا، لیکن سرکش بنی اسرائیل نے حکم عدولی کی، اور جناب یوشع علیہ السّلام کے احکامات کی پروا نہ کی۔ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے توبہ و استغفار کی بجائے غرور و تکبّر سے اکڑتے، اتراتے، تمسخر و استہزا کرتے شہر میں داخل ہوئے۔ بنی اسرائیل کا ناشُکرا پن، غرور و نخوت، سرکشی و بغاوت اور نافرمانی ایک بار پھر اللہ کی ناراضی کا سبب بنی اور اُن پر عذاب نازل کیا گیا۔سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’پھر اُن ظالموں نے اس بات کو جو اُن سے کہی گئی تھی، بدل ڈالی۔ ہم نے بھی اُن ظالموں پر اُن کے فسق و نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔‘‘
(سورۃ البقرہ59)
سورۃ الاعراف میں ارشادِ باری ہے’’مگر جو اُن میں ظالم تھے، اُنہوں نے اس لفظ کو جس کا اُن کو حکم دیا گیا تھا، بدل کر اُس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا، تو ہم نے اُن پر آسمان سے عذاب بھیجا ،اس لیے کہ یہ ظلم کرتے تھے۔‘‘
(سورۃ الاعراف16)

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ شہر میں نہایت عاجزی سے داخل ہوں اور اپنی زبان سے حِطّۃ، حِطّۃ کہتے جاؤ (یعنی استغفار کرتے رہو) لیکن اُنہوں نے یہ کیا کہ زمین پر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حِطّۃ کو چھوڑ کر’’ حبتہ فی شعرۃ‘‘ کہنا شروع کردیا یعنی دانہ بالی کے اندر ہے۔‘‘
(صحیح بخاری)
یعنی اُنہوں نے اللہ سے توبہ اور معافی کی بجائے گندم اور جو کی فرمائش کردی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیت المقدس کی فتح کے بعد اور امن کی بحالی کرنے کے بعد حکم خداوندی کے تحت یوشع بن نون علیہ السلام کو خدا نے اپنے پاس بلا لیا اور اس رخصت کے وقت جناب یوشع علیہ السلام 127 سال کے تھے۔ جناب یوشع بن نون علیہ السلام کی قبر فلسطین اور اردن میں بتائی جاتی ہے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply