اعصاب پہ عورت ہے سوار۔۔روبینہ فیصل

چند سالوں پہلے، ایک گوری لیڈی کونسلر سے، میری ٹم ہارٹنز (کافی شاپ) پر تفصیلی ملاقات ہو ئی۔ وہ نئی نئی کو نسلر منتخب ہو ئی تھیں اوران کے ذہن میں الیکشن کمپین کی یادیں تازہ تھیں۔
جس مسئلے کے لئے میں نے ان سے ملنا تھا، اس پر بات ختم ہوئی تووہ مجھ سے کہنے لگیں؛ ایک بات تو بتاؤ پاکستان کی عورتیں اپنا ووٹ اپنی مر ضی سے کیو ں نہیں کاسٹ کرتی ہیں؟۔میں نے حسب معمول سورما بنتے ہو ئے کہا آپ کو غلط لگا ہے ہم تو اپنی مر ضی سے ہی کر تی ہیں۔

وہ بڑے مہذبانہ انداز میں بولی؛اچھا پھر شاید میرا تجر بہ مختلف  رہا ہوگا کیونکہ مجھے الیکشن کمپین میں جن عورتوں کی طرف سے اپنے لئے ووٹ کے جواب میں یہ سننا پڑتا تھا کہ ہم اپنے شوہر سے پو چھ کر بتائیں گی، ان کا تعلق زیادہ تر پاکستان سے ہی ہو تا تھا۔
تو میں نے مسکرا کر کہا؛”تو یہی تو ہماری مر ضی ہو تی ہے۔” وہ جو میری چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بڑے بڑے قہقہے لگا رہی تھی، اس بات پر بجھ کر رہ گئی۔

میں نے اسے ہنسنانے کی کوشش جاری رکھتے ہو ئے کہا؛ جو عورتیں خود فیصلے کر نے لگ جائیں انہیں ہماری سوسائٹی کچھ خاص اچھی نظر سے نہیں دیکھتی ہے۔ ہاں ہماری عورتیں بہت پڑھ لکھ گئی ہیں۔ پھر بھی انہیں خود اچھا لگتا ہے کہ ان کے فیصلے ان کے مرد ہی کریں۔

وہ پھر بھی نہ مسکرائی اور افسردگی سے بولی؛” تو پھر تو جسے تم “اپنی مرضی کہہ رہی ہو” وہ اصل میں ایسے ہی تمہارے اندر فیڈ ہے۔۔”

اب میرے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو نے کی باری تھی۔
اس کے بعد میں سارا دن یہی سوچتی رہی ہمیں تو پتہ بھی نہیں ہو تاکہ ہماری مر ضی ہے کیا۔ یہ سچ ہے کہ ہماری سائکی میں غیر محسوس طریقے سے یہ شامل ہو جاتا ہے کہ ہم اکیلے فیصلہ کر نے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔

میں کو ئی روایتی فیمینسٹ نہیں ہوں، ایک ہیومنسٹ ہوں۔ میں جنس کی تفریق سے بالاتر ہو کر سوچتی ہوں کیونکہ میری ماں نے ہمیشہ یہی سکھایاہے کہ اصل فیمینزم یہ ہے کہ عورت خود کو محض شو پیس نہ سمجھے بلکہ مردوں کی طرح ہی خود کو ایک محنت کر نے والا انسان جانے اورکسی مرد کو بھی خلائی مخلوق نہیں بس ایک انسان ہی سمجھے۔نہ عورت ہو نے کا نقصان اٹھایا جائے اور نہ ہی فائدہ۔ایسی تربیت نے میرے اندر عزت نفس اور سوچ میں آزادی رکھ دی ہے۔
لیکن کیا کِیا جائے کہ سارے معاشرے کی تربیت کر نے والی میری ماں نہیں تھی۔یہاں بار بار آپ کو گھسیٹ کر اس مقام پر لایا جاتا ہے، جہاں لفظ” عورت” کسی دوسرے سیارے کی مخلوق محسوس ہونے لگتی ہے۔ قدم قدم پر آپ کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ” آپ عورت ہیں تو آپ سوچ نہیں سکتیں یا اگر سوچ سکتی ہیں تو وہ کیوں نہیں سوچتیں جو ہم کہہ رہے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے توآپ ایک اچھی عورت نہیں ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ بری عورت ہیں مگر آپ اچھی بھی نہیں ہیں۔”

ایسی باتیں مختلف انداز سے آپ کے کانوں تک پہنچتی رہتی ہیں اور ایک بچی کو ایک عورت بننے تک ہراساں کئے رکھتی ہیں۔

اور انتہا تو تب ہو تی ہے جب کوئی اہلِ قلم اسے الفاظ کا روپ دے دے۔ ایک ایسا ہی کالم نگار ہے جس کے کالم کا نام تکبیر  کی بجائے
تبخیرِ مسلسل ہو نا چاہیے۔ وہ حضرت، پی ٹی آئی کی ضمنی انتحابات میں کامیابی کے اسباب بیان کرتے ہو ئے پہلا سبب ،نوجوانوں کو ٹھہراتے ہو ئے کہتے ہیں کہ؛چونکہ ہم نے ان کی ٹریننگ ٹھیک سے نہیں کی اسی لئے وہ جمہوریت کا مطلب نہیں سمجھتے اور اسی وجہ سے ہمارے ہاتھوں سے نکل کرپاپولر سیاست کا شکار ہو گئے ہیں۔

اِس کالم نگار کو ووٹوں سے جیتنے والی اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ایک غیر جمہوری اور غیر آئینی پارٹی لگ رہی ہے اوراس کی حمایت کر نے والے نوجوان جمہوریت اور آئین سے نابلد ۔

نوجوانوں کو مرد و زن کی تحصیص کے بغیر بے شعور قرار دینے کے بعد ان کا رخ روشن پاکستان کی پچاس فیصد آبادی یعنی خواتین کی طرف مڑتا ہے، وہاں بھی وہی اندھیر نگری مچی ہو ئی ہے،نوے فیصد اعلانیہ اور باقی دس فی صد غیر اعلانیہ سب خواتین عمران خان کی حمایتی ہیں۔جن کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ ان کو نہ تو رجیم چینج کا پتہ ہے اور نہ ہی انہیں اندازہ ہے کہ ریاستی ادارے کس چڑیا کا نام ہیں؟یہ کہہ کر انہوں نے سو فی صدی خواتین کو سیاست میں مکمل نااہل اور جاہل قرار دے دیا اور ساتھ ہی وہ اس بات پر اظہار ِ افسوس فرماتے ہیں کہ چونکہ ہمارے ہاں تحقیق کا ماحول نہیں ہے ورنہ اس بات پر ضرور تحقیق کروائی جاتی کہ عمران خان کو اس قدر نسوانی حمایت کیوں حاصل ہے(اس کے در پردہ ان کا حسد بھی بول رہا تھا کیونکہ محترم کالم نگار کو تو اپنے گھر کی خواتین ہی کی حمایت نہیں حاصل)۔

اگر یہ حضرت کسرِ نفسی سے کام نہ لیں تو یہ جان سکتے ہیں کہ” عمران خان کو نسوانی حمایت کیوں حاصل ہے “جیسے گھمبیر نفسیاتی اور سماجی اور علمی موضوع پر تحقیق کے لئے کسی خاص ماحول یا بڑے ادارے کی محتاجی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کام کے لئے ان کا اپنا گھرانہ ہی کافی ہوگا۔۔ مگر منکسر المزاج لوگوں کو ہمیشہ” چراغ تلے اندھیرا ہی نظر آتا ہے” یا “بچی بغل میں ڈھنڈورا شہر میں “، والا حال ہو تا ہے۔ یہی تو درویشی اور عاجزی کی معراج ہے۔

تیسرا سبب وہ خان صاحب کی جرات مندانہ اور جارحانہ سیاست کو قرار دیتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے ریاستی اداروں کو للکارا ہے اس نے ان کی مقبولیت کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ یہ چونکہ آخری پیراگراف تھا اس لئے یہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ یہ بھو ل گئے کہ شروع میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہمارا نوجوان اس لئے خان صاحب کے ساتھ ہے کیونکہ اسے جمہوریت اور آئین کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ پھر اگلے ہی لمحے ان کے سر پر کو ئی ڈنڈا بجا اور یاداشت لوٹ آئی تو خیال آیا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تو باؤ جی اور ان کی صاحبزادی کی جاگیر ہے جو انہوں نے پچاس روپے کے مچلکے پر ضمانت کروا کرنہایت جانفشانی سے تیار کیا تھا۔اس غلطی کا احساس ہو تے ہی محترم کالم نگار نے خان صاحب کی جمہوریت کے لئے دلیرانہ للکار کو بدتمیزی اور باؤ جی کی منمناہٹ کو بھگوڑی جرات قرار دیا اور ایسا قلم توڑ کالم لکھنے کے بعد اب وہ سوچ رہے ہو ں گے کہ میں کہنا کیا چاہتا تھا اور کہہ کیا گیا ہوں۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں،پی ٹی آئی کی فتح کے تین اسباب، (جن میں دو گھٹیا ترین اور ایک میں، سچ بتا کر یو ٹرن لے لیا) لکھنے والا، یہ کالم نگار خود تحقیق کے لئے بہترین سبجیکٹ ہے۔نوجوانوں اور خواتین کو چاہیئے کہ اپنے شعور کو بہتر بنانے کے لئے اس قسم کے الجھے ہوئے کرداروں کا مطالعہ کریں جو اہل قلم کہلائے جاتے ہیں اور جو اپناکام نوجوانوں اور خواتین میں شعور پیدا کرنا سمجھتے ہیں مگر افسوس وہ دونوں ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں اور رجیم چینج اور ریاستی اداروں کا مفہوم سمجھنے کے لئے ایک کھلاڑی ایک اناڑی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور یہ بیچارے دانشور سوچ رہے ہیں کہ کیا ہمارے کالم بس کاغذ سیاہ کر رہے ہیں اور اس کا غذ کا واحد مصرف یہی رہ گیا ہے کہ یہ بہکے ہوئے نوجوان اور خواتین خان کے جلسوں میں ان کے اوپر پکوڑے رکھ کر کھائیں۔

خان صاحب کی خواتین میں مقبولیت کے راز میں ان لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے جو عورتوں سے انسیکیور ہو کر انہیں عورت پن کے کمپلیکس میں مبتلا کرتے نظر آتے ہیں۔

میرا ذاتی تجر بہ ہے جب خان صاحب سے بات کرو تو وہ آپ کو خاتون سمجھ کر اپنی باتوں سے، اپنی آنکھوں سے ہراس نہیں کرتے بلکہ ان کی نظروں میں حیا کی جھلک اور احترام ہو تا ہے۔ وہ قابلیت کی بنا پر انسانوں کو مرد و زن کی تخصیص کے بغیر پر کھ رہے ہو تے ہیں۔ یہ راز ہے ان کی خواتین میں مقبولیت کا۔

مسلسل تبخیر والے صاحب اور اس سوچ رکھنے والے باقی سب مردوں کو بھی یہ پتہ ہو نا چاہیے کہ آج کی پڑھی لکھی اور باشعور عورتیں کبھی اس مرد کو دل سے پسند نہیں کر تیں جو   مہنگے تحائف اور فیورز کی آفر ز کے ذریعے انہیں خریدنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی عورت ان آفرز کو قبول کر رہی ہو تی ہے تو وہ بزنس ہی کر رہی ہو تی ہے، اس میں کبھی بھی وہ عقیدت یا محبت کا عنصر شامل نہیں ہو سکتا جو اس مرد کے لئے ہو تا ہے جو انہیں احترام دیتا ہے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کر تا ہے کہ وہ صرف جسم نہیں بلکہ دماغ بھی ہیں۔تو وہ جو کہتے ہیں کہ خان صاحب کی مقبولیت کی وجہ عورتوں کے لئے ان کی جنسی کشش ہے تو یہ عورتوں کی نفسیات کے بالکل الٹ بات ہے۔آپ عورت کی عمومی نفسیات کو اپنے ارد گرد موجود عورتوں کی نفسیات کو بنیاد بنا کر ڈیفائن نہیں کر سکتے ہیں۔

قائد اعظم بھی خواتین میں اس لئے مقبول تھے کہ وہ انہیں عورت نہیں انسان سمجھ کر بات کرتے تھے۔ اس سے عورتوں میں اعتماد پیدا ہوتا تھا اور اسی لئے ان کی تحریک میں عورتوں نے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا تھا۔ ان کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی عورتیں ہی ہوا کر تی تھیں۔۔ دیواریں پھاند کر، سیکریٹریٹ کے دروازے کھولنے والیاں کبھی یہ گمان نہیں رکھتی تھیں کہ انہیں تتلی سمجھا جا رہا ہے یا ایسی عورتیں سمجھا جا رہا ہے جو آوارہ مزاج یا بدکردار ہیں کہ ان کے لیڈر نے انہیں اس معاشرتی جھجک اور فرق سے آزاد کر دیا تھا۔اور وہ اپنے آپ کو تحریک کا کارکن سمجھتی تھیں۔۔ محض ایک عورت نہیں۔ وہ جذبہ آج کی پی ٹی آئی کی خاتون ورکر میں نظر آتا ہے کیونکہ ان کا لیڈر بھی انہیں مرد کارکنوں سے کم نہیں سمجھتا ہے۔
مگر بڑے کینوس پر دیکھیں تو ہمارے معاشرے کو اس خورشیدی خمیر اور تبخیر نے ہائی جیک کر رکھا ہے اور اس کی آزادی کا خوف ان نام نہاد اہل ِ علم کو راتوں کو سونے نہیں دیتا۔۔کیا ہو گا اگر عورت اپنا فیصلہ خود کر نے لگ گئی؟کیا ہو گا اگر اس نے اِس ایموشنل ابیوز اور ایسے قلمی ہراسمنٹ کوچیلنج کرنا شروع کردیا ۔کیا ہو گا اگر اس نے اپنی ذہنی گروتھ روکنے والے اس اَن دیکھے ہاتھ کو کاٹنا شروع کردیا؟ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ” کیا ہو گا”کا سوال انہیں عورتوں کو جنسی جملے کس کر انہیں ہراساں کر نے پر مجبور کرتا ہے اور وہ یہ بھول جاتے ہیں عورت کے لئے عورت ہونا اس کا نہیں ان کا مسئلہ ہے جن کے اعصاب پر عورت کا جسم ہی سوار رہتا ہے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply