اور سازش ناکام ہو گئی

ایک سازش تھی جو ناکام ہوئی، مگر تمام بھی ہوئی؟ گو آگ بجھ گئی مگر کچھ لوگ اب بھی راکھ کریدتے دِکھیں گے، مگر وہ بھی اپنی انگلیاں ہی جلائیں گے۔
پاکستان میں ہونے والے تازہ ترین دھماکوں کے بعد یکدم ایک ہوّا کھڑا ہوا سوشل میڈیا پر اور لگا جیسے اس ملک میں فقط ایک ہی مسلئہ ہے، پنجابی پٹھان کا۔ ایک منافرت کا بادل تھا جو نہ جانے کہاں سے آیا اور پھر نفرت کی موسلادھار بارش برسا گیا۔ ہاں مگر یہ ہوا کہ نہ جانے کتنے ہی چہرے تھے جو دھل گئے، اور اخلاق، دانش اور مروت کے میک اپ کے نیچے سے کیا کیا بلائیں نکلیں۔ بہت سے لوگ ہر دو جانب سے نکلے، موقف بھی آئے، الزامات بھی لگائے گئے اور اعتدال کی دہائیاں بھی دی گئیں۔ اور پھر ایک مختصر سا سٹیٹس لگا میرے دوست عارف خٹک کا اور کئی دوست ٹھٹھک کر رک گئے، سازش کی بو سونگھ گئے۔ وہ سٹیٹس جو ہزاروں بار شیئر ہو چکا، اس نفرت کی بارش میں ایک چھتری بن گیا۔ جی یہ وہی عارف ہے جسے “آپ سب” چترالی میگزین کا لکھاری کہتے تھے، وہی ایک قومی خدمت کر گیا۔
مگر یارو زرا رکئیے۔ کیا سب ٹھیک ہے؟ کئی پمفلٹ جعلی تھے مگر کیا واقعی پنجاب پولیس مظلوم ہے؟ کیا واقعی کوئی زیادتی نہیں ہو رہی؟ پولیس کا ادارہ جو استعمار نے جبر کے اصولوں پر پروان چڑھایا تھا آج بھی جبر کی علامت ہے۔ پولیس کے ہاتھوں خود پنجابی کس ظلم کا شکار ہیں کیا کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟ تو یہ ماننے میں کیا عار ہے کہ یقینا پولیس نے “صاب لوگوں” کو پرفارمنس دکھانے کیلیے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آسان ٹارگٹ چن لیا۔ پیسے کمانے کا زریعہ دریافت کر لیا۔ بلاشبہ پنجاب میں پٹھانوں کی چیکنگ ہوئی، ان کو چیکنگ کے نام پر تنگ کیا گیا اور پھر پیسے بنائے گئے۔ کیونکہ پنجاب پولیس تو سگا باپ نہیں بخشتی۔ کچھ دوست توجیہ دیتے ہیں کہ فقط کوائف کی پڑتال ہوئی سکیورٹی کے نام پر۔ یارو سوچو وہ کون “عالی دماغ” تھا جو اس ابتلا میں یہ بھی نا سوچ سکا کہ اگر ایک قومیت کو اس پڑتال کیلیے مخصوص کیا گیا تو نفرت جنم لے گی اور سازشیوں کو موقع ملے گا۔ کیوں اس پڑتال کو جنرلائز نہیں کیا گیا تاکہ سب ہی کی پڑتال ہو جاتی اور اس میں آپ افغانیوں کی بھی کر لیتے۔ دہشت گرد تو پنجابی بھی ہیں، انکے کوائف کیا فقط رانا ثنااللہ کے پاس رہیں گے؟
شاید دوست کہیں کہ جب میں پنجاب پولیس کی زیادتی مان رھا ہوں تو پھر سازش کی دہائی کیوں کہ یہ تو انکے موقف کی تائید ہے۔ نہیں یارو، اگر الزام پنجاب پولیس اور حکومت پر رہتا اور پنجابی اور دوسری قومیت کے دوست مل کر اس پہ آواز اٹھاتے تو یہ ایک بھرپور احتجاج بن جاتا، اس لوک دانش کہ جدید مظہر سوشل میڈیا کو ایک مظبوط اپوزیشن بننے کا موقع ملتا۔ مگر یہاں تو نفرت اور تقسیم کی کوشش کی گئی۔ وہ جو اپنے شہر شاید بوٹ پولش کی نوکری کرتا، اسے یکدم بنگالیوں سے سلوک اور بلوچوں سے زیادتی اور نہ جانے کیا کیا یاد آیا۔ جسے شاید این جی او کی نوکری کے بغیر کوئٹہ واپسی کی ٹکٹ بھی ادھار لینی پڑتی اسے پاکستان پنجابستان لگنے لگا جہاں اسکی گاڑی بار بار چیک ہوتی ہے(پنجابیوں کی نہیں ہوتی؟)۔ سوال فورا پولیس و حکومت زیادتی سے صوبائی اور قومیتی تعصبات کی طرف موڑ دیا گیا۔ دوسری جانب سے بھی عالی دماغ سامنے آئے جنھیں ساون کے اندھے کی مانند سب ہرا نظر آیا، سرسبز۔ جیسے پنجاب تو کسی جنت کا نام ہو۔ اور اس الزام و دشنام کی دھول میں، اصل مدعا گم گیا، دہشت گردی کا۔ اگر اس کے بجائے اہل پنجاب کو ساتھ ملا کر جبر کے نظام اور اسکے نمائندہ پنجاب پولیس کے خلاف بات ہوتی تو بات موثر بھی ہوتی اور نتیجہ خیز بھی۔
گو سازش کی بارش گٹر کا پانی بن کر بہ گئی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ زیادتی بھی برداشت کر لی جائے۔ اگر کہیں کسی پختون یا کسی بھی قومیت کے بھائی کے ساتھ زیادتی ہوتی نظر آئے تو فورا اہل پنجاب کو اسکی ڈھال بننا ہو گا۔ پولیس اور حکومت کے روئیے کے خلاف مسلسل اور مظبوط آواز اٹھائیے تاکہ “پختون پروفائلنگ” کی آڑ میں “اصل بات” سے توجہ نا ہٹائی جا سکے۔ ہم سب کو مل کر دہشت گردی کا سامنا کرنا ہے جو ہم سب ہی کی موت ہے۔ یوں تقسیم ہو کر آپ فقط انکے ہاتھ مظبوط کر رہے ہیں جو اس وقت شکر کا سانس لے رہے ہیں کہ توجہ ان سے ہٹ کر عصبیت کی برف ہو گئی۔ سوچئیے تو اس تقسیم نے ہاتھ کس کے مضبوط کئیے؟ خطرہ کس کے سر سے ٹلا؟ کیسے مقتول ہو یارو کہ قاتل کی راحت کا ساماں بن گئے ہو۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply