• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • وزیراعظم صاحب کے نام ایک کھلا خط۔۔محمد وقاص رشید

وزیراعظم صاحب کے نام ایک کھلا خط۔۔محمد وقاص رشید

وزیراعظم عمران خان صاحب!آپ کے قوم سے حالیہ رابطے کا منظر نامہ دیکھا۔۔تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔۔بارِ دگر عرض ہے کہ یہ اگر مدینے کی ریاست ہوتی تو میں یہ باتیں آپ کے سامنے گوش گزار کرکے آپ سے یہ سوال پوچھتا کہ آپ اپنی قوم سے جھوٹ کیوں بولتے ہیں،دھوکہ کیوں دیتے ہیں،دروغ گوئی سے کام کیوں لیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر سب کو تقدس کے قالین کے نیچے چھپانے کے لئے مذہب کا استعمال کیوں کرتے ہیں؟ مگر آپکے قول و فعل میں اتنا ہی تضاد ہے جتنا پاکستان اور مدینے کی ریاست میں ہے ۔میں آپکے اس خطاب میں بیان کیے گئے نقاط کو علیحدہ علیحدہ قارئین کی نذر کرنا چاہوں گا۔

1-مہنگائی
مہنگائی ایک ایسی لعنت ہے جس سے روزانہ کی بنیاد پر زندگی کے گلے میں گزارے کا پھندا تنگ ہوتا جاتا ہے، لیکن آپ نے اس مہنگائی پر کبھی مافیا ، کبھی اپوزیشن کے سٹاکسٹ ،کبھی میڈیا کا جھوٹ کبھی پرائس کنٹرول کمیٹیاں ،کبھی ٹائیگر فورس اور کبھی وزیراعظم ہاؤس سیل کے سیاسی پینترے بدلے  ۔لیکن جو چیز آپ کے تین سو کنال کے محل میں مہنگائی کی وجہ سے نیند نہ آنے کے دعوے  کا باقاعدہ منہ چڑاتی ہے وہ یہ ہے کہ ٹھیک اسی طرح پچھلے ٹیلی فونک عوامی رابطہ مہم میں اسی طرح ایک خاتون کے سوال پر آپ نے کہا تھا کہ پاکستان تو سستا ترین ملک ہے۔  سوال یہ ہے کہ دو مہینے پہلے جو پاکستان سستا ترین ملک تھا آج آپکی نیندیں اڑا رہا ہے وہ بھی مہنگائی کے باعث۔

2-پاکستان میں کمپنیوں کا ریکارڈ منافع
آپ اکثر 180ڈگری پر دو متضاد ترین باتیں ایک ہی سانس میں کر جاتے ہیں۔۔ اب تو پوری قوم کو عادت ہو چکی ہے  لیکن کل آپ نے ایک ایسی بات کہی جو کہ بہت ہی بھیانک تھی ۔ آپ نے کہا کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پاکستان کی مختلف کمپنیوں نے ریکارڈ منافع کمایا ہے۔یہی تو پوری قوم چیخ رہی ہے۔ صارفین کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ من چاہا منافع کما رہے ہیں ۔روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں ہفتہ وار بڑھتی رہی ہیں اور آپ واقعی دفتر میں بیٹھ کر خاموشی سے تماشا  دیکھتے رہے ہیں  اور غریب عوام لٹتی رہی ہے لیکن پاکستانی سرمایہ داروں کے ہاتھوں عوام کا بھرکس نکلوانے کے بعد اسکو عالمی سطح سے جوڑنا سفید جھوٹ ہے ۔ایک سروے کے مطابق دنیا میں پام آئل کی قیمتوں میں استحکام آنے کے باوجود پاکستان میں گھی اور تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا اور ہو رہا ہے۔

3- اپوزیشن فوبیا
وزیراعظم صاحب بارِ دگر عرض ہے کہ لاطینی زبان کے مقولے کے مطابق “منتقم مزاج آدمی کی سوچ اپنے انتقام سے آگے نہیں بڑھ سکتی “۔۔۔آپ کی منتقم مزاجی نے اس قوم کا اتنا نقصان کیا جتنا شاید ان سیاستدانوں نے نہیں کیا جنہیں آپ چور ڈاکو تو کہتے ہی تھے لیکن کل خود کو خودساختہ اعلی ٰ سمجھتے ہوئے وزیرِاعظم کے عہدے کے تقدس کو بالائے طاق رکھ کر “گھٹیا ” کہہ دیا۔جس نظام کے تحت آپ ملک کے وزیراعظم ہیں اسی نظام کے تحت شہباز شریف صاحب اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اس نظام میں رہتے ہوئے ان سے نظام کو عوامی بہتری کی طرف لے جانے کے لیے ہاتھ ملانا یہ اعلیٰ  ظرفی تھی۔ یہ ایک سٹیٹس مین کا کام تھا۔۔لیکن اپوزیشن فوبیا کا شکار منتقم مزاج اور مطلق العنانیت کی ماری ہوئی سوچ صرف اپنے سیاسی انتقام کی آگ بجھانا جانتی ہے چاہے اسے بجھانے کے لیے عوام کا خون پسینہ استعمال ہو۔۔ کاش کہ آپ 22 سال ایک جماعت کے سربراہ اپوزیشن رہنما کی خو سے نکل کر پوری قوم کے رہبرو رہنما حکمران کی سوچ اپنا سکتے ۔اس سےعوام کا کتنا بھلا ہوتا۔ سیاسی استحکام کو اپنے انتقام کی آگ کا ایندھن بنانے سے جو سماجی اور معاشی نقصان ہوا وہ اس نقصان سے کہیں زیادہ ہے جو بقول آپ کے سابقہ حکمرانوں نے ملک کو پہنچایا ۔

4- نیب اور عدلیہ
آپ نے کہا کہ نیب اور عدلیہ آزاد ہیں۔۔ میرے نیچے نہیں اور پھر ہمیشہ کی طرح اپنے تضادات کی تاریخ دہراتے ہوئے کہا کہ۔۔ اب میں نیب میں وائٹ کالر کرائم سے نمٹنے کے لیے اور عدلیہ میں کیسز کے جلدی خاتمے کے لئے اصلاحات لانے جا رہا ہوں ۔ آپ یقین کیجیے وزیراعظم بننے کے بعد آپ کے کم و بیش یہی الفاظ تھے۔  سوال یہ ہے کہ چار سال حکومت کرنے کے بعد بھی آپ کے پاس وہی ٹرک کی بتی ہے جسکے پیچھے آپ نے 22 سال بطورِ اپوزیشن لیڈر قوم کو لگائے رکھا۔

6-اگر میں سڑکوں پر نکل آیا
جب آپ اپوزیشن میں تھے تو میرے جیسے لوگ دن رات اس سبز باغ میں ٹہلتے ہوئے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے تھے جب آپ کہتے تھے “ایک دفعہ بس میں وزیراعظم بن گیا تو پھر دیکھنا۔۔ 90دن ، تبدیلی ، اصلاحات ، خودکشی وغیرہ وغیرہ۔۔۔خان صاحب یہ سڑکوں پر آنے والا خناس ذہن سے نکال دیجیے کہ اب آپ لوگوں کو کیسے کہیں گے کہ اگر میں وزیراعظم ہوتا۔  جب تحریکِ انصاف کی حکومت آئے گی۔  پہلے 90دن میں۔ ۔پہلا آرڈر گورنر ہاؤس کی دیواریں۔۔جس دن آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا خود کشی۔۔  اور سب سے بڑھ کر۔۔۔ “امپائر کی انگلی ” ۔جسے پکڑ کر آپ اقتدار کی راہداریوں تلک پہنچے اور اپوزیشن کے بقول اب وہ انگلی ایک نیوٹرل امپائر کی انگلی بن چکی ہے اور اگر ایسا ہے تو کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پنجابی محاورے کے مطابق آپ “بیٹی کو کہہ کر بہو کو سنا رہے ہیں “۔۔کاش ملت کی جوان آنکھوں کے خوابوں کو آپ نے سیاسی مصلحتوں کے تابوت میں نہ دفن کیا ہوتا تو راقم شاید آپ پر تنقیدی خط کی بجائے آپ سے پہلے سرِراہ ہوتا۔۔اور ہاں آپ نے جو یہ بات کی کہ لوگوں کو صرف اپوزیشن لیڈروں کے پتے بتانے کی دیر ہے۔۔ انہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔۔ خان صاحب مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس قسم کی تخریبی سوچ کو یہیں روک دیجیے کیونکہ ایک تو عوام کا غیض و غضب اس وقت آپ اور آپکے 500 روپے والے وزیروں مشیروں پر پچھلوں سے کہیں زیادہ ہے کم نہیں۔۔ جو شاید آپ کو آپکے گرد پیراشوٹرز بتانے سے قاصر ہیں دوسرا آپکو تو شاید اس سیاسی منافرت نے وزارتِ عظمی عطا کر دی لیکن ملک و قوم میں پہلے سے موجود سیاسی و مذہبی خلیجوں میں ایک اور سیاسی خلیج کا اضافہ ہی کیا ہے ۔

7-میں کبھی کرپٹ لوگوں سے مفاہمت نہیں کرتا
پوری قوم جانتی ہے کہ یہ سفید جھوٹ آپ کا صرف تب تک ڈھکا چھپا اور میرے جیسے لوگوں کے لیے خواب آفریں تھا جب تلک آپ نے ان خوابوں کی سیڑھی کو اپنی وزارتِ عظمی کے مسند تلک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے ہر قدم پر ان ان لوگوں سے مفاہمت کی جن میں سے کسی کو آپ نے چپڑاسی نہیں رکھنا تھا اور کوئی آپ کی نظر میں پنجاب کا سب سے بڑا قاتل تھا اور کسی کو آپ نے انسانی جانوں کا خون مرتے دم تک معاف نہیں کرنا تھا۔۔charity begins at home اگر کرپشن کے خلاف ہوتے تو اپنی جماعت میں کرپشن کی نشاندہی کرنے والے جسٹس وجیہہ الدین کے ساتھ کھڑے ہوتے۔۔اگر کرپشن کے خلاف ہوتے تو اپنے دورِ حکومت میں آٹا چینی ادویات اور پیٹرول کے بحرانوں کے ذمہ داران کو اپنی کابینہ میں ہی نہ بٹھائے رکھتے۔۔ یہ آپکی کرپشن سے کیسی مخالفت اور عداوت تھی کہ جنرل عاصم سلیم باجوہ صاحب نے جب پاپا جونز پیزا اسکینڈل آنے کے بعد استعفی دیا تو آپ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ٹی وی پر آکر ندیم ملک کے even handed ہونے کے سوال پر یہ کہا کہ جنرل صاحب نے ہمارے وزیرِ قانون کو ذرائع آمدن بتا دیے ہیں۔۔۔آپکے کرپشن کے خلاف نعرے کی ہوا سب سے زیادہ اس دوہرے معیار ہے نکالی ہے۔۔مزیدبرآں یہ سطور تحریر کرتے ہوئے پتا چلا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق آپ کی دعوی کردہ مدینے کی ریاست نے کرپشن میں سترہ ملکوں کو مزید پیچھے چھوڑ دیا۔۔ آپ اپنے سیاسی انتقام میں ملک کو جھونکنے کی بجائے اس مفروضے کا جواب تو دیں کہ اوپر وزیر اعظم ایمان دار ہو تو نیچے کرپشن نہیں ہوتی۔۔

8- مجھے کیا ضرورت تھی سیاست کی۔
خان صاحب۔۔۔بس کیجیے۔۔خدا کی قسم کان پک گئے یہ جملہ سن سن کر۔۔اب قوم جان چکی ہے کہ آپ کو سیاست کی ضرورت تھی کیونکہ آپ نے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کا خواب دیکھا تھا اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے آپ نے اپنا ہر وعدہ توڑا ہے اصول سے منہ پھیرا اور ہر ایک دعوی اور قول کے متضاد عمل کیا۔۔وزیراعظم بننے کے بعد بھی آپ نے سانحہ ساہیوال سے لے کر سانحہ مری تک جس طرح اپنے کیمپ کے ہر ملزم و مجرم کو حکومتی پناہ دی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہاں وزیراعظم بننا ہی محض آپکا خواب تھا اور اسکے لیے آپکو سیاست کیا power politics کی ہی ضرورت تھی۔۔ جو کہ آپ کر رہے ہیں۔۔

9- 5.4 فیصد ترقی
ایک وقت تھا جب آپ حکومتی اعداد و شمار کے الٹ پھیر کو اپنی ہر پریس کانفرنس یا جلسہ تقریر میں اس بنیاد پر رد کر دیتے تھے کہ عام آدمی کی زندگی بہت متأثر ہے۔۔ ڈالر ایک روپیہ بڑھے تو قرض میں اتنا اضافہ ہوتا ہے۔۔قوتِ خرید نیچے چلی جاتی ہے۔۔ تو آج ریکارڈ مہنگائی میں ڈالر 200روپے کو چھو رہا ہے ،پیٹرولیم کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اشیاءِ خوردو نوش کی قیمتیں ہفتہ وار بڑھتی ہیں تو کیا آپ کے خیال میں یہ ترقی ہے۔۔۔مدینے کی ریاست تو وہ تھی جس میں حاکمِ وقت کی اجرت ایک مزدور کے برابر رکھی گئی تھی۔۔ آج آپ دعوی اس ریاست کا کرتے ہیں اور خود جب دو لاکھ تنخواہ میں آپکا گزارہ نہیں ہوتا تو پندرہ ہزار والے مزدور کو کبھی کہتے ہیں گھبرانا نہیں۔ کبھی کہتے ہیں تمہاری وجہ سے نیند نہیں آتی کبھی کہتے ہیں پاکستان سستا ترین ملک ہے اور کبھی 5۔4 فیصد ترقی!

10۔ دینِ اسلام تو انسان کی نیت کی تطہیر کا ایسا ضابطہ حیات ہے کہ انسان چلتا پھرتا اس کا ایک سفیر بن جائے اسکا عمل ہی دوسروں کے لیے تبلیغ کی حیثیت رکھتا ہو۔۔ اسلام کی آڑ میں سیاسی دکانداری بالخصوص تیسری دنیا میں کوئی نئی بات نہیں۔۔آپ بھی اس صف میں کھڑے ہونے والوں میں نہ پہلے ہیں نہ آخری۔۔اپنی من پسند مزہبی تفہیم کو 22 کروڑ کی متنوع مزہبی تشریحات رکھنے والی قوم پر مسلط کرنا ہی ایک بھیانک غلطی تھی لیکن اس مزہبی تفہیم کو اور اسلامی اقدار کو اپنے زعمِ تقوی اور احساسِ برتری کی تسکین اور اپنی نااہلی کی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا بہت ہی افسوسناک ہے۔۔ جیسا کہ ہمیشہ کی طرح کل آپ نے کیا کہ میں اپوزیشن لیڈرز سے اس لیے ہاتھ نہیں ملاتا کہ اس اللہ تعالیٰ کی برکت نہیں آئے گی۔۔بندہ پوچھے اوپر بیان کردہ اپنے کیمپ کی کرپشن اور بد عنوانی کرنے والوں سے ہاتھ ملانے سے کیا خدا کی برکت آئے گی۔۔ خود اپنے منہ سے 140ارب صرف چینی میں لوٹنے والوں سے سیاسی مفاد کی خاطر باہم شیروشکر رہنے سے اللہ کی برکت آئے گی۔۔تازہ ترین خبر کے مطابق ایک اور پیرا شوٹر معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے استعفی دے دیا کیونکہ آپ انکی کارکردگی سے مطمئین نہیں تھے۔۔ جناب سوال یہ ہے کہ کیا تب آپ انکی کارکردگی سے مطمئن تھے جب انہوں نے خود انگلستان کی حکومت کی پکڑی گئی پاکستانی فائلوں کو نوٹوں کے پہیے لگانے والے ملک ریاض کی خطیر رقم انہی کی خواہش پر سیٹل کر دی کیا وہ عمل خدا کی برکت کے لیے تھا۔۔ اگر آپ مزہب کو سیاست کے طور پر استعمال نہ کرتے تو اتنا ہی سوچ لیتے کہ خدا نے تو اپنے آخری پیغمبر ص کی وساطت سے نظام رائج کرتے ہوئے بھی کئی چیزوں میں سماج کو انارکی سے بچانے کے لیے تدریج کے اصول کو مدنظر رکھا۔۔۔ اور آپ اسی نظام سے وزیراعظم بن کر خود کو اعلی سمجھتے ہیں اور اسی نظام کے دوسرے عہدے داران کو گھٹیا کہتے ہیں۔۔۔اسی طرح کل آپ نے اسے خدا سے غداری قرار دیا۔۔نواز شریف صاحب کے جیل میں ہوتے ہوئے آپ کہتے تھے کہ اگر اس کو چھوڑ دیا تو یہ اللہ سے کیے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی تھی۔۔ پھر انہیں باہر بھیجتے ہوئے کہا مجھے خدا کے لیے ترس آ گیا تھا۔۔ پھر منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا۔۔ بورس جانسن سے ملاقات کر کے واپس لاؤں گا۔۔ اور کل کہا پلیز واپس آ جائیں کیونکہ میں آپ کے خلاف جہاد کر رہا ہوں۔۔۔

11-میڈیا مایوسی پھیلا رہا ہے۔
کسی دور میں جن چند افراد کو آپ پاکستان تحریک انصاف اور اپنی مقبولیت کے پیچھے موجود “مجاہد” کہا کرتے تھے آج انکی خود پر اسی طرز کی تنقید کو مایوسی پھیلانا اور اپوزیشن کے ساتھ ملا ہوا ہونا کہہ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ بھی ویسے ہی ایک حکمران ہیں جو کہتا تو یہ ہے کہ تنقید اچھی چیز ہوتی ہے لیکن اسے برداشت کرنے کا نہ ظرف ہے نہ حوصلہ نہ اہلیت۔۔۔

12- سوئٹزرلینڈ اور انگلینڈ میں ایسا اپوزیشن لیڈر نہیں ہوتا۔۔۔
خان صاحب انگلینڈ اور سوئیٹزر لینڈ میں ایسا وزیر اعظم بھی نہیں ہوتا کہ ایک وزیر دواؤں پر کرپشن کرے تو وزیراعظم اس سے وزارت لے کر پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنا دے۔۔ اور دوسرا آٹے میں کرپشن کرے تو اسے جنوبی پنجاب کا صدر بنا دے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قصہ مختصر خان صاحب۔۔۔کل کے خطاب میں آپ نے ایک سچ بولا اور وہ یہ کہ آپ تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بے وقوف نہیں بنا سکتے۔۔۔ واقعی جب آپ 22سال اپنے اپوزیشن میں کئے گئے دعوؤں پر حکومت میں آکر 4سال ان پر عمل پیرا ہونا تو درکنار ان کی خلاف ورزی کرتے ہوں تو آپ اپنی عادت سے مجبور ہو کر انہیں دہراتے تو رہتے ہیں لیکن آپ کے اعمال فضاؤں میں الفاظ سے اونچا گونجتے رہتے ہیں۔۔ جسے انگریزی میں کہتے ہیں۔ Action speaks louder than words۔۔ لیکن آپ یہ گونج بھی سن نہیں پائیں گے کیونکہ جس “میں” کے خول میں آپ بند ہیں وہاں اپنے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔
خدا حافظ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply