کراچی کی تہذیب و ثقافت کو خطرہ آپ سے ہے جناب!

بہت قابل رحم ہیں وہ تعفن زدہ ذہن کہ علم کی روشنی بھی جن میں اجالا نہ کرسکی ۔ یہ بات عام فہم نہیں کہ کوئی شخص ایک ہی سانس میں کس طرح ایک شہر کے باشعور افراد کا احسان مند بھی ہو اس شہر کی تہذیب و ثقافت کے گن بھی گائے اور اسی سانس میں اس شہر کے عوام کے دکھوں پر کمال سادگی اور ہنرمندی سے نمک پاشی کرتے ہوئے رواداری کے گیت گاتا جائے۔ تعصب کی ایک نہ ختم ہونے والی آگ جس سے اسکا دل جل کر سیاہ ہو چکا اسے ظاہر بھی نہ کرے اور زیرِ لب مسکراتے ہوئے اپنے طور پر یہ گمان کر لے کہ یہ چند ہزار ستم رسیدہ جو میرے لکھے کو پڑھ کر سر دھن رہے ہیں انہوں نے گویا میرے تعصب کو ایمان اور میرے الفاظ کو حدیث جانا ہے۔
رائی کا ہونا ایک الگ بات مگر اس کا پہاڑ بنانا واقعی ایک فن ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں جب میں نے7119میں کراچی میں قدم رکھا تو کراچی کچھ اور تھا اور آج کراچی جل چکا ، لٹ چکا ، برباد ہو چکا ہے، اسکی تہذیب و ثقافت کو رات کی تاریکی نگل گئی، کئی قسطوں پر مشتمل تحریر کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ میری تعلیم کسی اسکول کالج یا یونیوسٹی کی نہیں میں نے مدرسے کی تعلیم حاصل کی ہے مگر یہ جو ہر فن پر اظہار خیال کرتا ہوں سماجی ، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار بن بیٹھا ہوں تو یہ کراچی والوں کے ساتھ نشست و برخاست کا ثمر ہے اگر ان سے باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی ہوتی تو پھر میں کیسا ہوتا ؟ اس ایک “میں” کے گرد گھومتی اس تحریر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کراچی تہذیب و ثقافت کا مرکز ضرور تھا اور یہاں ہر شعبہ زندگی میں علم و فن میں کوئی اس شہر کے باسیوں کا ثانی نہیں تھا مگر آج کراچی میں تہذیب و ثقافت دفن ہوگئی اچھے لوگ پیدا ہونا بند ہوگئےاور علم کے دریچے بے صدا ہوگئے محبتوں کے شہر کو کسی کی نظر لگ گئی اور اب کوئی اہل علم ڈھونڈے سے نہیں ملتا ستر اور اسی کی دہائی کا کراچی مثالی تھا اور اسی کے نصف میں ایم کیوایم کے بنتے ہی اس کا زوال شروع ہو گیا ۔ کراچی کے عروج و زوال کی اس کہانی میں زوال کا واحد سبب صرف ایک انسان ہے جس کا نام ہے الطاف حسین ۔ ایک طرف تو خوبصورت الفاظ کے تانے بانے بنتے ہوئے جناب نے اہلیان کراچی کو احسن تقویم کے اعلی ترین مقام پر فائز کر دیا اور پھر ایک الطاف حسین نام کی عفریت کے کارن انہیں اسفل السافلین سے بھی کچھ نیچے لیجا کر پٹخ دیا ۔ بات صرف ایک ٹائم لائن تک محدود ہوتی تو نظر انداز کر دیتے مگر باقاعدہ ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا اور توقع کے عین مطابق اس سیمینار میں بھی صرف مائنس الطاف کے ایک نکاتی ایجنڈے پر دل کھول کر زہر افشانی کی گئی اور کچھ ہمنواؤں نے بھی اس طے شدہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ٹھانی جس سے سیمینار کے اغراض و مقاصد کا بخوبی اندازہ بھی ہوگیا اور اب مختلف مقامات پر زیر گردش تحریروں سے بات پایہء ثبوت پر پہنچ گئی کہ یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ ہے جسکی بنیاد نسل پرستی اور نفرت سے عبارت ہے۔ موصوف کے تعارف کیلئے تو بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہفت روزہ تکبیر کو کراچی کے سنہری دور کی یادگار لکھتے ہیں اور خود روزنامہ امت کراچی میں اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں ۔
لب لباب اس تحریر کا اور اس کے زیر اثر لکھی گئی مزید تحریروں کا صرف یہ ہے کہ اہلیان کراچی تو ایک شاندار تہذیب و ثقافت کے نمائندہ تھے مگر الطاف حسین نامی ایک شخص نے انہیں پہچان اور شناخت جیسی ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا گویا ایک شاندار تہذیب و ثقافت کے امین با شعور اور اہل علم و ہنر یہ جنوبی سندھ میں آباد کروڑوں افراد سر جھکا کر نہایت سعادت مندی سے جوتے کھاتے رہتے اور خود کو ہندوستانی اور مکڑ جیسے القاب پر پکارے جانے پر سر تسلیم خم کیئے رکھتے تو کوئی حرج نہیں تھا مگر ایک ایسے نسل پرست سماج میں ایک ایسی نسل پرست ریاست میں جہاں وسائل کی تقسیم سے لیکر زندگی کی بنیادی ضروریات تک کا حصول نسلی اور لسانی بنیادوں پر قائم سیاسی بندوبست کا مرہون منت رہا ہو وہاں یہ کیونکر ممکن تھا کہ ڈھائی سے تین کروڑ یکساں زبان اور تہذیب و ثقافت رکھنے والے تو خود کو بانیان پاکستان کی نسل قرار دیتے رہیں پاکستانی کہلانے میں فخر محسوس کرتے رہیں مگر جب بات وسائل کی آئے تب سانس لینے کیلئے آکسیجن بھی سندھی ، پنجابی ، پختون اور بلوچ شناخت دیکھ کر دی جائے ؟
قصور موصوف صاحب مضمون کا نہیں کہ وہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ میری تہذیب و ثقافت میں اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کو کفر سمجھا جاتا تھا لہذا میری تمام تعلیم دینی مدرسے کی ہے اور بد قسمتی سے دور بھی وہ جو مدارس میں جہادی نصاب کی تدوین کا دور تھا سو بہت خوبصورت الفاظ کا ذخیرہ ہونے کے باوجود ان کی فکر پر سوفسطائت نے کچھ اس انداز میں جالا بنا ہے کہ وہ بہت سامنے کی باتیں بھی یکسر نظر انداز کر گئے ہیں یا شاید وہ ان زمینی حقائق کا ادراک ہی نہیں رکھتے ۔ اسی کی دہائی میں انہوں نے کراچی کے کالجوں اور مادرِ علمی جامعہ کراچی میں ایک نظر ڈالنے کی زحمت کی ہوتی تو انہیں اندازہ ہو جاتا کہ جنوبی سندھ کے اردو زبان بولنے والوں کیلئے ایک پہچان اور شناخت کیونکر لازم ہوئی ۔ کراچی کے کالجوں اور یونیورسٹی میں انہیں ایک مذہبی جماعت کے تھنڈر اسکواڈ کسی طور برہنہ رقص کرتے نظر نہیں آ سکتے انکی متعصب نظریں جے ٹی آئی اور پی ایس اے کے سامنے ایک مہذب قوم کے مستقبل کے سپوتوں کو رسوا ہوتے نہیں دیکھ سکتیں ۔ انہیں مرد مومن کی پھیلائی ہوئی تباہی ایک مدرسے کے چھپڑ میں بیٹھ کر کیونکر نظر آ سکتی ہے ۔ مذہب کی اس ٹھنڈی چھاؤں اور ڈھال تلے تو انہیں حاجی بندوخان کے کباب اور فریسکو کی مٹھائیاں ہی نظر آئیں گی احمد سوئٹ انہیں جب بھی نظر نہیں آیا ہوگا اور اب بھی نظر نہیں آئے گا ۔ انہیں وہ وقت بھی یاد نہیں ہوگا جب طلبا یونینوں پر پابندی لگا دی گئی تھی مگر جے ٹی آئی اور پی ایس او کی غنڈہ گردی ڈنکے کی چوٹ پر جاری تھی ایسے میں ایم کیوایم کا قیام اور مہاجر تشخص کی جدوجہد کا جو راستہ کھلا وہ قطعی طور پر کوئی عمل(Action)نہیں تھا بلکہ ایک مسلسل روا رکھے جانے والے متعصب نسل پرست رویے اور سماجی ، سیاسی اور معاشی نا ہمواریوں کا نہایت شدید ترین رد عمل(Reaction)تھا ۔
ایم کیو ایم کو اسٹیبلشمنٹ اور جنرل ضیا کی تخلیق کہنے والے جاہل افراد اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ ضیا کا واحد اور اکلوتا مسئلہ پاکستان پیپلز پارٹی تھی اور کراچی میں پی پی کو کبھی قبولیت عام نہیں ملی خود بھٹو کے دور میں بھی اس شہر پر رنگ برنگی ٹوپیوں ہی کا راج رہا ہے اور ضیا کے وقت میں اسکی سب سے بڑی مددگار اس وقت کراچی کے سیاہ و سفید کی مالک تھی جب تک وہ مالک رہی اور اسکی غنڈہ گردی کی راہ میں مزاحمت نہ کی گئی فاضل دوست اسے تو ایک سنہرا دور قرار دیتے ہیں مگر ایم کیو ایم کے قیام کے ساتھ ہی کراچی کی تہذیب کو گرہن لگ گیا، وجہ اسکی شاید یہ تھی کہ کراچی کے عوام نے مردمومن کے تکفیری بیانیہ کو یکسر مسترد کر دیا اور پھر جب تہذیب و ثقافت کے اس مرکز کو ایک مڈل کلاس قیادت نصیب ہوئی تو طبقہ اشرافیہ کے درو دیوار لرز گئے ۔ یہ لرزہ کیوں طاری تھا ؟ آپ نے تو ہر شعبہ ہائے زندگی کے چیدہ چیدہ نام گنوا دیئے ناصر کاظمی سے جمیل جالبی تک اور معین اختر سے انورمقصود تک اور اس میں بھی دل کا بغض چھپائے نہیں چھپ سکا مرحوم ڈاکٹر شاہ کو مہاجر قوم کا ایک نمائندہ فرد تو لکھا مگر ساتھ دھیمی سی آواز میں یہ بھی لکھ دیا کے وہ قاتلوں کے ساتھ جا ملے ۔ آپ صرف انگلیوں پر گنے نام بتا رہے ہیں مگر اشرفیہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھی کہ اس شہر کے ہر پتھر کے نیچے ایک گوہر نایاب چھپا ہے اور مڈل کلاس جماعت کو شریک اقتدار کرنے کا مطلب شاید آپکی محدود سوفسطائی سوچ کے دائرے میں نہ آتا ہو مگر بادشاہ اور بادشاہ گر دونوں نے نہایت ابتدائی ایام میں ہی جان لیا کہ یہ پورے سسٹم کیلئے خطرہ بن جائیں گے۔ اس کے بعد کیا کیا نہیں ہوا کس کس طرح نوے کی دہائی میں ایم کیوایم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اسے بدنام کرنے کیلئے ایک جرائم پیشہ افراد کا گروہ ترتیب دیا گیا جن لاشوں پر آپ آج تک ماتم کر رہے ہیں اس سے ایک ہزار گنا زیادہ لاشیں خود مہاجروں نے اٹھائی ہیں جنھیں مارنے والے بعد ازاں خود ہی یونیفارم پہن کر قاتلوں کو ڈھونڈا کرتے تھے اب آئیں اس رائی پر جس کا کہ ایک تواتر کے ساتھ پہاڑ بنایا جاتا رہا ہے سو آپ نے سوچا میں بھی کیوں کسی سے پیچھے رہوں بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لوں یہی تو بہترین وقت ہے دلوں کا تمام تر بغض نکالنے کا آج تو موقع بھی ہے دستور بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ ہر طرف سے مہاجر غدار ۔۔۔۔ الطاف غدار کی صدائیں آ رہی ہیں سو آپ نے بھی ایک طلسم ہوشربا شروع کر دی گو کہ ابھی آپ سے اس کا انجام نہیں ہوا اور یقین ہے کہ ہو بھی نہیں پائے گا بقول منیر نیازی
کس دا دوش سی کس دا نئیں سی،
ایہہ گلاں ہُن کرن دیاں نئیں،
ویلے لنگ گئے توبہ والے،
راتاں ہوکے بھرن دیاں نئیں،
جو ہوئیا ایہہ ہونا ای سی،
تے ہونی روکدیاں رکدی نئیں،
اک واری جدوں شروع ہو جاوے،
گل فیر اینویں مکدی نئیں،
کجھ اُنجھ وی راہواں اوکھیاں سَن،
کُجھ گل وچ غم دا طوق وی سی،
کُجھ شہر دے لوگ وی ظالم سَن،
کُجھ مینوں مرن دا شوق وی سی۔۔۔۔!!
بات جب شروع ہو جائے تو واقعی ختم نہیں ہوتی ۔ رائی تو فقط اتنی تھی کہ ایم کیوایم کے قریب48ایسے افراد جو کرمنل رحجان کے حامل تھے انہیں ایم کیوایم کو لگام ڈالنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بے لگام کر دیا اور پھر جب ان کی کاروائیوں کو ایم کیو ایم کے سر تھوپ کر ایم کیو ایم کو ایک فاشسٹ جماعت قرار دینے کی تیاری کی گئی تو ایم کیوایم نے ان افراد کو تنظیم سے بے دخل کر دیا یہ وہ نقطہ آغاز تھا جسے باوجود تمام تر ریاستی مشنری رکھتے ہوئے آج تک ریاستی ادارے کسی انجام تک نہیں پہنچا سکے ان بیدخل کیئے گئے افراد کو بکتر بند گاڑیوں میں بٹھا کر کراچی پر قبضہ کروایا گیا اس دوران دو چار نہیں18ہزار بے گناہ مہاجروں کا خون بہایا گیا جانے یہ سب کیوں جناب کی نظروں سے اوجھل رہا ۔ چلیں یہ صاحب کی نظروں میں نہ سمایا تو اس سمے کو ہی یاد کر لیتے جب جنرل بیگ کی ایما پر مہران بینک سے یونس حبیب نے پانچ کروڑ کا ایک بیگ برگیڈئیر امتیاز کے حوالے کیا اور وہ اسے لیکر الطاف حسین کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہم ایک اسلامی اتحاد بنانے جا رہے ہیں آپ اس میں شرکت کریں مگر کئی گھنٹوں کی اس ملاقات کے بعد بھی وہ الطاف حسین کو ایک انتہا پسند اتحاد آئی جے آئی میں شرکت پر قائل نہ کرسکے اور اپنا نوٹوں کا بریف کیس لیکر ناکام چلے گئے جس کا کہ انہوں نے ایک سے زائد انٹرویوز میں اعتراف کیا ہے ۔الغرض اپنے حقوق کیلئے جس جدوجہد کا آغاز ایم کیوایم نے کیا تھا اس کا رخ اپنی بقا کی جنگ کی طرف پھیرنے کا کام بہت ابتدائی دنوں میں اسٹیبلشمنٹ نے نہایت خوبی سے کر لیا تھا جس کے بعد سے آج تک آپ نہیں ہر کوئی یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ تیس برس میں ایم کیو ایم نے علاوہ لفظ مہاجر کے اس قوم کو دیا کیا ہے ۔ مقصد اپنے ہزاروں بے گناہ کارکنوں اور بے بس اور مظلوم عوام کی جانوں کی قربانی کے بعد اس قوم نے اپنی جو شناخت بنائی ہے اسے بھی متنازعہ بنا کر اسے بالکل ہی دیوار سے لگا دو اس سے اسکی پہچان بھی چھین لو ۔ اس ایجنڈے پر کام کرنے والے آپ کے ہم نوا ملک صاحب کے سیمینار میں بھی خوب دل کی بھڑاس نکالتے رہے اور اب بھی ان کے قلم زہر اگل رہے ہیں ۔
نہایت دانشورانہ انداز میں مہاجر قوم سے ہمدردی کا اظہار کرنے کے بعد آخر میں کہا جاتا ہے کہ اب تو مہاجروں کا ووٹ بینک تقسیم ہوگیا اب یا تو فاروق ستار ، آفاق اور مصطفی کمال آپس میں اتحاد کر لیں تو شاید وہ کچھ ووٹ زیادہ لے لیں ورنہ آدھے سے زیادہ کراچی تو گیا ان کے ہاتھ سے ۔ حیرت ہے کہ کسی ایسے ہمدرد دانشور نے اب تک یہ مشورہ نہیں دیا کہ اگر ریاست اپنی سازشی تھیوری سے دستبردار ہو جائے اور خیابان سحر و پی آئی بی میں بھی موجود چند اشتہاری مجرموں پر قانونی گرفت کر کے سیاست اور جرائم میں ایک قابل عمل حدِ فاصل قائم کر دے اور کرمنلز کو استعمال کرنے کے بجائے انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کی روش اختیار کر لے تو الطاف حسین کی اخلاقی اور اعلانیہ حمایت کے ساتھ فاروق ستار مہاجر قوم کی محرومیوں کا ازالہ با سہولت کر پائیں گےاور اس حقیقت کا اقرار کہ باوجود ایک طویل اور مسلسل ریاسی جبر و پراپیگنڈہ کے جنوبی سندھ کے کروڑوں مہاجر آج بھی صرف الطاف حسین پر ہی اعتبار کرتے ہیں مگر ایسا کوئی مشورہ تو وہ دے جس کے سینے میں ایک دل ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا دل جس میں تعصب اور نسل پرستی کی آگ نہ بھڑک رہی ہو اور جو انسانیت کا درد رکھتا ہو، جسے یاد ہو کہ اس شہر میں تکفیریت کے بڑھتے سائے دیکھ کر سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والا شخص الطاف حسین تھا جس نے بہت ابتدائی دنوں میں چیخ چیخ کر کراچی میں جاری طالبانائزیشن پر احتجاج کیا تھا مگر اسکا یہ احتجاج آپ کی نظروں میں کیونکر معتبر ہو سکتا ہے جب آپ رفیق افغان جیسوں کی ہم رکابی کا شرف رکھتے ہیں اور آپکی ذہنی و جسمانی ہر دو نشوونما میں ہی انتہا پسند سوچ کا دخل نمایاں ہے ، آخر میں بس اتنا ہی کہ کراچی کی تہذیب و ثقافت کو خطرہ آپ سے ہے جناب ۔۔۔!!!

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کراچی کی تہذیب و ثقافت کو خطرہ آپ سے ہے جناب!

Leave a Reply