• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم، پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم، پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے

اسلام آبا(جاوید سومرو)د  سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے شارٹ آرڈر لکھا ہے جو گیارہ صفحات پر مشتمل ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے، حمزہ شہباز وزیراعلیٰ نہیں رہے، چیف سیکریٹری پرویز الہٰی کا بطور وزیراعلیٰ نوٹیفکیشن جاری کریں، حمزہ شہباز نے جو حلف اٹھایا وہ بھی غیر آئینی ہے، جو کابینہ بنائی گئی وہ بھی غیر قانونی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر آج ساڑھے 11 بجے تک نئے وزیراعلیٰ سے حلف لیں، حمزہ شہباز نے جو بھی قانونی کام کئے وہ برقرار رہیں گے، اس آرڈر کی کاپی گورنر، ڈپٹی اسپیکر اور چیف سیکریٹری کو ارسال کریں، اگر گورنر حلف نہیں لیتے تو پھرصدر لیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے باہر سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے، قیدیوں کی گاڑیاں اور بکتر بند گاڑیاں سپریم کورٹ کے باہر موجود ہیں، عدالت کے احاطے میں رینجرز کو طلب کرلیا گیا ہے جب کہ سیکیورٹی حکام کی جانب سے سپریم کورٹ جانے والے مختلف راستوں کو بھی بند کردیا گیا ہے۔ سرینا چوک کو بند کیے جانے کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں جب کہ سپریم کورٹ کے باہر مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے موقع پر اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے دی جانے والی رولنگ پر دوران سماعت آج صبح چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربے جیسا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں، اس سوال کے جواب کے لیے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ آج سماعت شروع ہوتے ہی ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میرے موکل نے ہدایات کی ہیں کہ اس کیس میں مزید پیش نہیں ہوں گے، قومی سطح پر ہم نے اس سماعت کا بائیکاٹ کیا ہے۔

پی پی پی کے وکیل فاروق نائیک نے اس موقع پر مؤقف اختیار کیا کہ میرے مؤکل کی جانب سے بھی یہی ہدایات ہیں کہ پیش نہ ہوں، ہم نظر ثانی درخواست دائر کریں گے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو ابھی تک ہم نے فریق نہیں بنایا ہے، جس کے بعد عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اس کیس کو جلدی سے مکمل کریں، ہم فل کورٹ ستمبر کے دوسرے ہفتے تک نہیں بنا سکتے، اس کیس کے میرٹس پر عدالت دلائل سنے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پیپلزپارٹی تو کیس کے فریق ہی نہیں، ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیئے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے؟ آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں، اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے کہ فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ تاخیری حربے جیسا ہے، 1988 میں صدر نے کابینہ کو ہٹایا، 63 والے کیس میں آج جو سوال ہے وہ اس وقت نہیں تھا، 21 ویں ترمیم کے فصلے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہدایات دے سکتا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ ووٹ دینے کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دے سکتی ہے، 18 اور 21 ترمیم والے کیس میں یہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں آیا، 63 اے والے کیس میں بھی ایسا کوئی ایشو سامنے نہیں آیا، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اصل سوال یہ تھا کہ ووٹ دینے کہ ہداہات کون دے سکتا ہے؟ جو دلائل میں باتیں کی گئیں اس کے مطابق فل کورٹ ثشکیل نہیں دی جا سکتا تھا، اس عدالت کا مؤقف تھا کہ وزیر اعظم جو چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اس کے بغیر حکومت نہیں چل سکتی۔

وکیل علی ظفر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا اس وقت 63 اے سے متعلق سوال تھا کہ کیا یہ شق درست ہے یا نہیں؟ آرٹیکل63 اے آئین کی ایسی شق ہے جو پارٹیوں میں نظم پیدا کرتا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازلاحسن نے اس موقع پر کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پارٹی لائن پارلیمانی پارٹی دے سکتی ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ اکیسویں ترمیم سے متعلق درخواستیں 13/4 کی نسبت سے خارج ہوئی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر آپ آئینی نکات پر معاونت کریں یا پھر ہم بنچ سے الگ ہوجائیں، آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ میں اپنا کام عبادت سمجھ کر کرتا ہوں۔

سپریم کورٹ میں علی ظفر نے مختلف عدالتی فیصلوں کے نظائر پیش کیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم نے 63 شق کو موڈیفائی کیا؟ پارلیمانی پارٹی اور پارٹی ہیڈ کیا الگ لگ ہوتے ہیں؟

جسٹس اعجازلاحسن نے سوال کیا کہ کیا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات پر عمل کرتا ہے ؟ پارٹی ہیڈ منحرف ارکان کے خلاف ریفرنس بھیجتا ہے ؟

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اکیلے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی، فیصلے کے لئے کوئی اصول ہوگا۔ میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ پارلمنٹری پارٹی میں کوئی پروسیس ہوگا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ دنیا بھی میں آخری فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، پارٹی ہیڈ کا آئینی اختیار فیصلے پر عمل کرانا ہے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ آئین یہ کہتا ہے کہ پارلمینٹری پارٹی فیصلہ کرتی ہے اور اس فیصلے پر کوئی رکن خلاف جاتا ہے تو سربراہ ایکشن لیتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ پارٹی ہیڈ کچھ بھی intiate نہیں کرسکتا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین میں کہیں بھی پارلیمانی پارٹی کے ساتھ پارٹی ہیڈ نہیں لکھا، جسٹس جواد خواجہ نے اکیسویں ترمیم والے کیس میں 63 کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا، جسٹس جواد خواجہ نے اپنے فیصلے میں وجوہات بیان نہیں کی تھیں، میں جسٹس جواد ایس خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایت پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ کی رائے تھی کہ 63 ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، آرٹیکل 63 میں پہلے 1998میں پارلیمانی پارٹی لکھا تھا جو 2002 میں تبدیل ہو کر پارلیمانی ہیڈ لکھا گیا، سابق جج میاں ثاقب نثار نے وہ درخواستیں خارج کرکے ایک الگ سے نوٹ لکھا تھا، ثاقب نثار نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ 63 آرٹیکل فلور کراسںنگ کا سبب ایک دہائی سے رہا ہے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ پارٹی سے انحراف کرنے والے کے خلاف ایکشن لینا یا اس کی شروعات کرنا آئین کے مطابق پارٹی ہیڈ کے پاس ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ سابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اپنے فیصلے میں کہا کہ 63 اے سے متعلق آئین کے بیسک سٹرکچر تھیوری کا کوئی ذکر نہیں، پرویز مشرف دور میں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کا قانون آیا تھا، اٹھارہویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منیب اختر نے اس پر استفسار کیا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟

وکیل نے سوال کے جواب میں عدالت عظمیٰ کے گوش گزار کیا کہ میری نظر میں جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن آئین کے خلاف ہے، اکیسویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے ایشو نہیں تھا، جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن کی سپریم کورٹ پابند نہیں ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ 2002 میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہوا، پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈر کا لفظ محظ غلطی تھی۔

چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایات پر ووٹ دیا جائے؟ علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمنٹری پارٹی دیتی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹری پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کراتا ہے، ، چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی جماعت اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔سیاسی جماعت کا فیصلہ پارلیمانی جماعت کو آگاہ کیا جاتا ہے جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے، میں نے 21ویں ترمیم والے کیس میں جسٹس عظمت سعید کے موقف کے ساتھ تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کی بار بار رائے تبدیل کرنے سے اچھا تاثر نہیں جاتا۔ ایک جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے، اگر کوئی سالڈ ریزن ہوں تو مجھ سمیت کوئی بھی جج اپنا فیصلہ تبدیل کرسکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل، امتیاز صدیقی نے دلائل شروع کیے، چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ روز چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا تمام ارکان کو نوٹس بھیجا گیا تھا،وکیل تحریک انصاف امتیازی صدیق نے کہا کہ اسمبلی کی تمام کاروائی کا ریکارڈ موجود ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو درست طور پر لیا گیا یا غلط استعمال ہوا، یہ دیکھنا ہے کی ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط استعمال تو نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نکتہ یہ ہے کہ دوسرا فریق یہاں موجود ہے لیکن کاروائی میں حصہ نہیں لے رہا۔ اقوام۔متحدہ میں جو ملک میمبر نہیں ہوتا وہ آبزرور ہوتا ہے۔

ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل احمد اویس عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی کے اںتخاب کا معاملہ ہے دو اپریل سے چل رہا تھا، یہ معاملہ پہلے کیوں سب کو یاد نہ آیا، ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کی کس پیرا کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ نہیں کئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں باقی جو فیصلوں کے نظائر دیئے گئے ہیں اس کو نوٹ کرلیں گے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس میں کوئی شق نہیں 63 اے کے مطابق پارٹی ہیڈ کا اہم کردار ہوتا ہے ۔

علی ظفر نے کہا کہ پارٹی ہیڈ پارٹی کی کئی کمیٹیوں کا سربراہ بھی ہوتا ہے، پارٹی ہیڈ منحرف ارکان کے خلاف ایکشن لے کر ڈکلیئریشن دے سکتا ہے، پارٹی سربراہ کے کردار کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ ارکان کو ہدایت دینا پارٹی ہیڈ کا اختیار ہے ،پارٹی میں تمام اختیارات سربراہ کے ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں بورس جانس نے پارلیمانی پارٹی کے کہنے پر استعفی دیا گیا، عائشہ گلالئی کیس میں عدالت پارٹی سربراہ کے کردار کا جائزہ لیا گیا۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ جو بیس منحرف ارکان تھے ان میں سے کتنے ارکان نے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا؟ علی ظفر ابھی جو آپ دلائل دے رہے ہیں وہ کولیٹرل دلائل ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عائشہ گلالئی کیس میں کہیں لکھا ہے پارٹی ہیڈ کا کیا کردارہوگا۔ ؟ اختیارات پارٹی ہیڈ کے زریعے منتقل ہوتے ہیں، وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی سربراہ میمبران کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، عائشہ گلالئی کیس میرے موکل کے خلاف ہے لیکن آئین کے مطابق ہے ، چیف جسٹس نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ پارٹی سربراہ کا اپنا کردار ہوتا ہے۔

وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ جو میمبران منحرف ہوئے انہوں نے دوبارہ دوسری پارٹی کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا۔

یکم جولائی کے سپریم کورٹ کا حکم نامہ کیا اتفاق رائے پر مبنہ تھا ؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی وہ اتفاق رائے پر مبنی فیصلہ تھا ،چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سپریم کورت کے فیصلے پر کوئی اعتراض کیا جاسکتا ہے ؟

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ دونوں فریقین اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ انتخابات کے بعد جو نتیجہ آئے گا اس پر رن آف الیکشن ہوگا۔

علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں وزیر اعلی کے انتخاب تک حمزہ شہباز کو وزیر اعلی رہنے کی ہدایت کی تھی، جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ پل کے نیچے بھت زیادہ پانی گزر چکا ہے اب اس معاملے کو کیسے سن سکتے ہیں۔؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایڈوکیٹ جنرلز کے جواب کا انتظار کررہے ہیں۔

علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق نہیں دی، ڈپٹی سپیکر الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پابند بھی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کل عدالت میں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، سپریم کورٹ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی پابند ہے؟

علی ظفر نے کہا کہ کوئی قانون سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن فیصلے کا پابند نہیں بناتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کتنے منحرف ارکان نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا؟

فیصل چوہدری نے کہا کہ بیس میں سے 16 نے ن لیگ، دو نے آزاد الیکشن لڑا، جن 18 نے الیکشن لڑا ان میں سے 17 کو شکست ہوئی،۔
چیف جسٹس نے فیصل چوہدری کو ہدایات دیں کہ ڈسپلن کے تحت آئندہ روسٹم پر آ کر ہی بات کیا کریں۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ فریق دفاع کے مطابق منحرف ارکان کے کیس میں ہدایات پارٹی ہیڈ عمران خان نے دی۔ فریق دفاع کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ہوا تو 25 ارکان بحال ہو جائے گے۔ فریق دفاع کا کہنا ہے اپیل منظور ہونے سے حمزہ کے ووٹ 197 ہوجائے گے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد بہت ساری پیشرفت ہو چکی ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزارت اعلی کے الیکشن پر ہائیکورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن ہو چکی ہے، یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے وزارت اعلی کے الیکشن پر متفقہ فیصلہ دیا۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ عدالت کو رضا مندی دی گئی کہ ضمنی الیکشن ہونے دیا جائے، یہ یقین دہانی بھی دی گئی کہ ضمنی الیکشن کے نتائج پر رن آف الیکشن کرایا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یکم جولائی کو وزیراعلی کا الیکشن ضمنی انتخابات کے بعد ہونے کا حکم فریقین کے اتفاق رائے سے تھا، کیا ضمنی انتخابات کے بعد منحرف ارکان کی اپیل تک سماعت روکنے کا اعتراض ہو سکتا ہے؟

علی ظفر نے کہا کہ اصولی طور پر منحرف ارکان کی اپیلوں کو پہلے سننے کا اعتراض نہیں بنتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور میں عدالت نے نوٹسز جاری کرکے کہا تھا قانونی نکات پر دلائل دیئے جائیں۔ اس عدالت کے آٹھ ججز نے اپنے گزشتہ فیصلے میں کہا تھا وہ دیکھ لیا ہے، آرٹیکل۔63 اے پر تشریح ہوچکی ہے اس پر اب مزید ضرورت نہیں، یہاں پر کوئی اور ہے جو دلائل دے۔

وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ یہ لوگ نظر ثانی کی بنیاد پر تمام کاروائی روکنا چاہتے ہیں، ایسے میں ہم نے جو اسپیکر والے معاملے پر نظرثانی دائر کی ہے وہ سنی جائے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل نہیں ہیں تو مجھے دلائل۔دینے کی اجازت دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معلوم۔ہے کہ اٹارنی جنرل بیمار ہیں اور بیرون ملک علاج کرارہے ہیں، وہ یکم کو آئینگے اس وقت تک انتظار نہیں کرسکتے ، آپ دلائل دیں۔

عامر رحمان نے کہا کہ آرٹیکل۔63 والے کیس میں پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی کے کردار پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔عدالت کی ایک فل کورٹ نے 2015میں پارٹی ہیڈ کے بارے میں فیصلہ دیا تھا۔

جسٹس منیب نے کہا کہ ہم آپ کا نکتہ سمجھ گئے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ جس فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ ایک رائے تھی یا فیصلہ تھا؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کو اختیار دینا ضروری ہے، پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کرنا پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2015 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہدایت دے سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل آپ ایسے دلائل دیں جو ہمیں مطمئن کریں، جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ پنجاب اسیمبلی کی کاروائی کا جو مسودہ ہمیں دیا گیا ہے اس میں ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی اور کہا کہ اس کو چیلنج کرسکتے ہیں، ہم۔سمجھتے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر پڑھے لکھے ہیں ، آرٹیکل 63 کی جو زبان ہے وہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چیف جسٹس نے کہا آئین پر عمل کرنا ہماری زمہ داری ہے، تمام وکلا نے عدالت کی معاونت کی ہے، گزشتہ دن دوسرے فریقین نے اپنے جواب جمع کرائے، عدالت پونے6 بجے فیصلہ سنائے گی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply