تحریک عدم انصاف ۔۔محمد اسد شاہ

پاکستان میں سیاست کبھی اپنے قدرتی بہاؤ کے ساتھ نہیں چلی – ہمیشہ یہاں اَن دیکھے سائے متحرک رہتے ہیں ، یہاں سو فی صد درست پیش گوئی کرنا تقریباً ناممکن ہے ۔21 جولائی کی شام ایک نجی چینل پر پانچ بہت مشہور تجزیہ کار موجود تھے ، میزبان خاتون نے ان سب سے باری باری پوچھا کہ کون وزیر اعلیٰ بننے والا ہے ؟ایک نے کہا حمزہ شہباز ۔جب کہ باقی چاروں نے بہت دو ٹوک انداز میں کہا پرویز الہیٰ۔ پروگرام دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ اتنے وثوق کے ساتھ پیش گوئی کیسے کر سکتے ہیں ۔کیا یہاں کبھی قدرتی بہاؤ کے ساتھ اصولی یا اخلاقی سیاست ہوئی ہے؟

گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب دوبارہ ہوا ۔دوبارہ اس لیے ہوا کہ اپریل میں جب وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوا تو پی ٹی آئی سمیت تمام مخالفین کو معلوم تھا کہ اسمبلی کی واحد اکثریتی جماعت مسلم لیگ نواز کے پاس مطلوبہ تعداد سے زیادہ ووٹ تھے ، لیکن معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ سپیکر چودھری پرویز الہیٰ نے اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے اختیارات کا انتہائی غلط استعمال کیا ۔ وہ اس انتخاب کے راستے میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے ۔ وہ اپنی پارٹی کی بجائے پی ٹی آئی کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن چکے تھے ۔یہی حرکت اگر پی ٹی آئی کے خلاف کی جائے تو عمران خان اسے لوٹا کریسی کہتا ہے۔ پرویز الہیٰ  ق لیگ کے ایم پی اے تھے ۔ انھیں وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ کرنا پارٹی لیڈر چودھری شجاعت کا اختیار تھا ، نہ کہ عمران خان کا ۔پی ٹی آئی کی طرف سے امیدوار بن کر پرویز الہیٰ نے انتخابی اجلاس کو مسلسل روکے رکھا ۔ بار بار تاریخ دی گئی ، لیکن پرویز الہیٰ نے سپیکر کے اختیارات کا ناجائز استعمال (انگریزی زبان میں اسی کو کرپشن کہا جاتا ہے) کرتے ہوئے اجلاس کو بار بار ملتوی کیا ۔حتیٰ کہ اکثریتی جماعت کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ۔ عدالت میں پرویز الہیٰ  اور پی ٹی آئی کی خواہش تھی کہ وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں پریزائیڈنگ آفیسر کے اختیارات بھی پرویز الہیٰ  کو دیئے جائیں جو خود امیدوار تھے ۔ آئینی و اخلاقی طور پر یہ کام ان کی بجائے ڈپٹی سپیکر کو کرنا تھا ، لیکن ان پر کسی ثبوت یا بنیاد کے بغیر فرضی اعتراضات اٹھائے گئے ۔ آخر کار عدالتی حکم پر جب اجلاس منعقد ہوا تو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ارکان نے اسمبلی کے اندر بدترین ہنگامہ کیا ۔ مقصد واضح تھا کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہو ہی نہ سکے ۔ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کو پکڑ کر مارا پیٹا گیا، ان کے سر میں پلاسٹک کے لوٹے مارے گئے ۔حالانکہ لوٹے کی سیاسی تعریف کی رو سے تو یہ الزام پرویز الہیٰ پر لگنا چاہیے تھا جو اپنی پارٹی کے ساتھ بے وفائی کر کے پی ٹی آئی کے امیدوار بنے بیٹھے تھے ۔ ڈپٹی سپیکر کو اسمبلی کے فرش پر گرا کر ٹھڈے مارے گئے ، ان کے بال کھینچے گئے اور بدتمیزی کی تمام حدود عبور کر لی گئیں ۔ حتیٰ کہ انھیں اپنی جان بچانے کے لیے پولیس بلوانا پڑی ۔ پولیس کو دیکھتے ہی پی ٹی آئی کے تمام ارکان فوراََ کھسک گئے ۔ ڈپٹی سپیکر نے انتخابی کارروائی مکمل کی جو تمام ٹی وی چینلز پر براہ راست دیکھی جا رہی تھی ۔ اس میں کہیں کوئی گڑبڑ یا جعل سازی نہیں تھی۔ حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے ۔اس انتخاب کے انعقاد میں کہیں بھی کوئی قانون یا آئین نہیں توڑا گیا ، لیکن پی ٹی آئی کے گورنر سرفراز نے طے شدہ منصوبے کے مطابق کارروائی کو متنازع  قرار دیا اور منتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لینے سے انکار کر دیا ۔ وزیراعظم نے گورنر سرفراز کو برطرف کیا تو پی ٹی آئی کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ایڈوائس پر دستخط خط کرنے سے انکار کر دیا ۔عدالت کے بار بار کہنے کے باوجود صدر اور گورنر نے کوئی پرواہ  نہ کی اور “کام” جاری رکھا ۔حتیٰ کہ ہائی کورٹ کے حکم پر سپیکر قومی اسمبلی نے وزیر اعلیٰ سے حلف لیا ۔ پرویز الہیٰ اور عمران خان سپریم کورٹ پہنچ گئے ۔چیف جسٹس سمیت انہی پانچ ججز کا بنچ بنا جن کے کریڈٹ پر کئی مشہور فیصلے موجود ہیں ۔سپریم کورٹ نے تین احکام جاری کیے ۔

ایک: پی ٹی آئی کے جن 25 ارکان نے حمزہ شہباز کی حمایت کی ان کے ووٹ مسترد قرار دیئے جائیں ۔
دو: مذکورہ 25 ارکان کی رکنیت منسوخ کر کے ضمنی انتخابات کروائے جائیں ۔
تین: ضمنی انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ کا انتخاب دوبارہ کروایا جائے۔
یہی تین خواہشیں عمران خان اور پرویز الٰہی کی تھیں جو پوری ہو گئیں ۔ ضمنی انتخابات میں ہر جگہ عمران خان ان لوگوں کو لوٹا اور ضمیر فروش کہہ کر پکارتا رہا جنہوں نے آزاد حیثیت میں جیت کر کسی دباؤ کے تحت پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور پھر مایوس ہو کر حمزہ شہباز کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔ جب کہ لوٹے کی پھبتی تو ان لوگوں پر بنتی ہے ، جن کے جلسوں سے خود عمران نے خطاب کیا ۔ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ ان ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ جھنگ کے حلقہ 125 میں محمد اعظم چیلہ نے حاصل کیے۔ان کے مقابل مسلم لیگ نواز کے امیدوار فیصل حیات جبوآنہ کو عمران خان نے بار بار لوٹا قرار دیا ۔جب کہ فیصل جبوآنہ تو آزاد حیثیت میں جیت کر اسمبلی پہنچے تھے ۔ پھر ذاتی تعلقات یا کسی دباؤ کے تحت بزدار کو ووٹ دیا ۔بزدار کی عدم کارکردگی پر حمزہ شہباز کو ووٹ دیا ۔فیصل جبوآنہ کو لوٹا کہنا سراسر جھوٹ اور زیادتی ہے کیوں کہ اس نے تو کوئی پارٹی تبدیل ہی نہیں کی ، بلکہ آزاد منتخب ہو کر اگر بزدار کو ووٹ دیا تو دراصل فیصل جبوآنہ نے عمران خان اور پی ٹی آئی پر احسان کیا ۔ جب کہ اعظم چیلہ صاحب کئی پارٹیاں تبدیل کر چکے ہیں ۔وہ مسلم لیگ نواز اور ق لیگ سے ہوتے ہوئے حالیہ ضمنی انتخاب میں اچانک پی ٹی آئی میں آئے ۔تقریباً اسی طرح کے حالات سیف الدین کھوسہ سمیت پی ٹی آئی کے اکثر امیدواروں کے ہیں ۔ ایمان داری سے دیکھا جائے تو عمران کو کوئی حق نہیں کہ کسی کو لوٹا کہیں ۔ پی ٹی آئی تو خود ساری لوٹوں سے بھری پڑی ہے ۔

2011 سے 2018 تک ملک کی دونو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے بندے توڑ توڑ کر ہی تو پی ٹی آئی بنائی گئی ۔ اگر وہ سب ٹھیک ہیں تو پھر دوسروں کو لوٹا کہنا بدترین سیاسی منافقت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کے ارکان نے پرویز الہیٰ کو ووٹ دیا ، جب کہ پارٹی سربراہ چودھری شجاعت نے انھیں ہدایت کی تھی کہ وہ حمزہ شہباز کی حمایت کریں ۔چنانچہ ڈپٹی سپیکر کے پاس ان ووٹوں کو شمار کرنے کا کوئی اختیار نہیں رہ گیا تھا کیوں کہ عمران خان نے ہی گزشتہ ماہ سپریم کورٹ سے یہ حکم حاصل کیا تھا کہ پارٹی چیف کی ہدایت کے خلاف دیئے گئے ووٹ شمار ہی نہیں ہوں گے۔ اس حکم کا گزشتہ ماہ جب عمران کو فائدہ ہوا تو پوری پی ٹی آئی خوشی سے ناچتی رہی ، اور جب اسی حکم سے دوسروں کو فائدہ ملا تو عمران خان اور پی ٹی آئی نے پیٹ پیٹ کر آسمان سر پر اٹھا لیا ہے ۔ کیا آپ کے ہاں کوئی اخلاقیات ہے بھی سہی یا نہیں؟ سینیٹ میں بھرپور اکثریت کے مقابلے میں عمران خان ، لوٹا کریسی اور ضمیروں کی منڈی لگا کر اپنا چیئرمین بنوا لے تو بالکل درست؟ اسی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے اگر عمران خان ضمیروں کی منڈی لگائے تو بھی درست؟ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان عمران کی ہدایت کے برعکس ووٹ ڈالیں تو مسترد کرنا بھی درست؟ لیکن جب ق لیگ کے ارکان شجاعت کی ہدایت کے برعکس ووٹ ڈالیں تو مسترد کرنا غلط؟ پھر عمران خان نے حسب عادت جعلی اخلاقیات کا طویل لیکچر جھاڑ دیا۔ اپنے ورکرز کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور سڑکوں پر نکلنے کی ہدایات جاری کر دیں ، پاکستان کو سری لنکا بنانے کی دھمکیاں دی گئیں ۔سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی ورکرز نے شیخ مجیب الرحمٰن کو یاد کیا اور بتایا کہ عوامی مینڈیٹ کی توہین پر ملک ٹوٹتے ہیں ۔بھئی پی ٹی آئی کے کون سے مینڈیٹ کی توہین ہو گئی؟ ق لیگ پی ٹی آئی کی غلام تو نہیں کہ اگر وہ عمران سے اتحاد کرے تو درست؟ پی ڈی ایم سے اتحاد کرے تو سری لنکا اور شیخ مجیب کی باتیں؟ دو سال قبل سینیٹ میں پی ٹی آئی کے مظفر حسین شاہ نے بعض سینٹرز کے ووٹ مسترد کیے تو درست؟ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے سوری نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پوری پارلیمنٹ کو روک دیا تو بھی درست؟ لیکن اگر پنجاب اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر عمران ہی کے پسندیدہ حکم کے مطابق لوٹوں کے ووٹ مسترد کرے تو احتجاج؟ خواجہ محمد آصف کے مشہور زمانہ الفاظ بار بار یاد آتے ہیں لیکن لکھنا ضروری نہیں ۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود اپنی ذات کی پرستش سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ وہ اپوزیشن میں ہو تو کسی حکومت ، کسی عدالت اور کسی الیکشن کمیشن کو نہیں مانتا، اور اگر حکومت میں ہو تو کسی اپوزیشن کو نہیں مانتا ۔ عمران کے پاس جس قدر عوامی حمایت ہے ، اس کا فرض تھا کہ ملک میں صاف ستھری سیاست ، اور شائستہ سیاسی رویئے پروان چڑھاتا ، ملک میں حقیقی اخلاقیات اور اعلیٰ اصول رائج کرتا ،لیکن افسوس ایسا کچھ بھی اس نے نہیں کیا ، بل کہ اس کے برعکس ہی کیا ۔ ناراضی معاف ، یہ سوچیے کہ یہ تحریک انصاف ہے یا تحریک عدم انصاف ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply