وہ اپنے نام کا آپ ہے واصفؒ/ڈاکٹر اظہر وحید

وہ بھی 13 جنوری کا دن تھا، جب پہلے پہل ایک کرن نے اپنے سورج سے ملاقات کی تھی۔ کرنوں کا وجود سورج کے ساتھ ہے۔ سورج کو ذات کہہ لیں تو کرنیں اُس کا جلوہ ہیں ۔۔۔ ایک دل افروز جلوہ ۔۔۔ بس خود سے ملاقات شرط ہے!

احبابِ ذی وقار! آپ نے صحنِ حرم میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھا ہو گا، وہ کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں، کبھی بھاگ کر کعبے کے پردوں سے لپٹ جاتے ہیں، کبھی مقامِ ابراہیم کے گرد چکر لگانے لگتے ہیں ۔۔۔ انہیں قطعاً معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس حرم کے صحن میں کھیل رہے ہیں، وہاں پہنچنے کے لیے لاکھوں نہیں، کروڑوں محبّانِ حرم دن رات دعائیں کرتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی بچپن کا فائدہ ہم نے بھی اٹھایا ہے۔

یہ 13 جنوری 1985ء کی ایک روشن صبح تھی، شاید دس اور گیارہ بجے کے درمیان کا کوئی وقت تھا۔ مجھے فون پرآپؒ نے اپنے گھر کا ایڈریس سمجھا دیا تھا ”سمن آباد موڑ سے آگے، شالیمار روڈ سے ہوتے ہوئے نوناریاں پل پر پہنچ کر کسی سے پوچھ لینا“ میں نے پل پر پہنچ کر ایک طالب علم سے پوچھا، 22 فردوس کالونی، کدھر ہے، مجھے واصف صاحب سے ملنا ہے۔ طالب علم نے پوچھا، وہ جو کتابیں لکھتے ہیں؟ اس وقت میں اسے نہیں بتا سکا تھا، وہ کتابیں لکھتے ہی نہیں، کتابیں لکھواتے بھی ہیں۔ میں ایک مصنّف ساز شخصیت سے ملنے جا رہا تھا۔ آپؒ نے دیکھتے ہی پوچھا: ”گھر ڈھونڈنے میں کوئی دقت تو نہیں ہوئی؟“ معلوم نہیں کیسے، ایک غیر محسوس طریق، بے اختیار میرے منہ سے نکلا ”سر! ڈھونڈنے نکلے تو بندہ خدا کو ڈھونڈ لیتا ہے …!“
جس طرح ہمارے جسم کی پیدائش کا ایک دن مقرر ہے، اسی طرح ہمارے خیال کی پیدائش بھی مقرر ہے۔ جب آپ اپنے خیال کے صاحب سے پہلی بار ملتے ہیں تو وہ آپ کے خیال کا جنم دن ہوتا ہے۔ آج میرا جنم دن ہے۔ آپؒ نے 13 جنوری 1985ء کے دن مجھے پہلی ملاقات میں اپنی کتاب ”کرن کرن سورج“ میں دی تھی، اور بوقتِ رخصت ”کشف المحجوب“ پڑھنے کا کہا۔ اس وقت یہ بیس سالہ جوان آتش نہیں بلکہ آتش فشاں تھا۔ اس زمانے میں ہم قدیم فلسفہ یونان سے لے کر سارتر اور پھر برٹرینڈرسل تک سب کچھ جگالی کر چکے تھے۔ جیسا کہ آپؒ نے ملاقات سے قبل تین خطوط کے تبادلے میں ایک خط میں یہ بات لکھی تھی: ”تیز رفتاری تمہاری عمر کا حق ہے“ ہم نے سوچا، یہ کون سا مشکل کام ہے، آج ہی جا کر یہ کتاب ختم کر لیں گے اور اگلے دن جا کر بتا دیں گے کہ پڑھ لی ہے۔ صاحبو! ”کشف المحجوب“ ابھی تک پڑھ رہا ہوں، مکمل نہیں کر سکا۔ پہلی ملاقات ہی میں آپؒ نے اپنے ہاں جمعرات کو منعقد ہونے والی گفتگو کی محفل میں آنے کی دعوت دے دی۔

آپؒ سے ملاقات سے قبل یہ آتش فشاں ”حلقہ اربابِ ذوق“ اور ”حلقہ تصنیف ادب“ میں باقاعدگی سے جایا کرتا تھا، لیکن آپؒ کی محفل میں شامل ہونے کے فوراً بعد ادبی حلقوں میں جانا موقوف ہو گیا۔ میں نے جانا کہ ثقہ ادیبوں اور دانشوروں کے ہاں جو نکتہ گھنٹوں مباحث کے بعد ملتا، آپؒ کے ہاں مجھے ایسے بے شمار نکات بآسانی سانس کی روانی کی طرح میسر تھے۔ جمعرات کی محفل کے بعد، شاید اگلے ہی ہفتے، آپؒ نے جمعہ کی محفل میں بھی شامل ہونے کی اِجازت مرحمت فرما دی۔ جمعہ کی محفل بڑی خاص ہوا کرتی، اس میں بڑے سکہ بند قسم کے ادیب و دانشور لوگ، اشفاق صاحب، بانو قدسیہ، حنیف رامے، اختر علاؤالدین بھی آتے اور یہاں گفتگو کا لیول بہت بلند ہوتا۔ میں دم بخود بیٹھا سنتا رہتا۔ مجھے یاد ہے، جب جمعہ کی پہلی محفل اٹینڈ کی، تو اگلے دن ہی میں نے کچھ حیرانی کے عالم میں آپؒ کے پاس حاضر ہو کر اپنی کیفیت یوں بیان کی: ”سر! مجھے لگتا ہے جیسے میرا شعور ایک نئے آربٹ orbit میں داخل ہو گیا ہے“ میں سرِ محفل کبھی سوال نہیں کیا کرتا تھا۔ بس! اک کیف کا عالم ہوتا تھا جو میرے متجسس ذہن کو سوال کیے بنا شانت کیے۔ سوال انگڑائی اس وقت لیتے جب محفل برخاست ہو چکی ہوتی۔ میں نے سب سے پہلی محفل میں ایک سوال کیا تھا، اور پھر ایک سوال پانچ سال کے بعد کیا تھا، اور مجھے وہ دونوں سوال یاد ہیں … گفتگو کی کتابوں میں بھی آ چکے ہیں۔ مجھے اگر کوئی سوال، یا فکری اشکال تنگ کرتا تو میں ہفتے کے درمیان میں الگ سے پوچھ لیا کرتا۔

میڈیکل کالج میں داخلہ آپؒ سے ملاقات کے بعد ہوا تھا، پہلے علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ہوا، بعد میں چند ہفتوں کے بعد کنگ ایڈورڈ میں ہو گیا، میں نے آپؒ سے درخواست کی تھی۔ تاریخ میں پہلی بار ایسی درخواست قبول ہوئی تھی۔ اسے کرامت کہیں، یا دُعا، پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ علامہ اقبال کے پہلے دس طلبا کنگ ایڈورڈ میں داخل کر لیے گئے تھے۔ کالج کی پڑھائی شروع ہونے کے بعد میرا یہ معمول بن گیا تھا کہ پہلے دو لیکچر اٹینڈ کرنے کے بعد، پریکٹیکل سکپ کرتا، موٹر سائکل کو کک لگاتا اور آپؒ کے ہاں پہنچ جاتا۔ میں آپؒ کے پاس کیوں جاتا تھا، مجھے خود معلوم نہیں تھا۔ بس مجھے آپؒ کے پاس بیٹھنا، بیٹھے رہنا، اچھا لگتا تھا، مجھے آپؒ کی گفتگو اچھی لگتی تھی، میرا دل چاہتا کہ آپ گفتگو کرتے رہیں اور میں سنتا رہوں، چاہے یہ گفتگو کسی اور سے ہو، چاہے مجھ سے نہ ہو۔ لوگ آپؒ سے ملاقات کے لیے آتے رہتے اور آپ گفتگو فرماتے رہتے، لوگ ٹیلیفون پر آپؒ سے رابطہ کرتے اور آپؒ ان سے ٹیلفون پر گفتگو کرتے رہتے۔ میں چپکا بیٹھا سنتا رہتا۔ آپؒ کی گفتگو کا ایک ایک جملہ ایک پُرتحیر حکمت کا دریا لیے ہوئے ہوتا۔

صاحبو! یہ تحریر اور تقریر ۔۔۔ ایک اعزاز بھی ہے اور ایک اعتراف بھی! اعزاز یہ کہ مجھے ایک قلندرِ زمانہ، فقیرِ وقت، کامل درویش اور ولی کبیر کے ساتھ مکالمے اور مصاحبے کا شرف حاصل رہا، اس کل کے بچے کو ایک نابغہ روزگار ہستی سے اپنی تحریر کی باقاعدہ اصلاح کی سعادت میسر آئی … اور اعتراف یہ کہ مجھے آپؒ جو کچھ بنانا چاہتے تھے، وہ میں نہ بن سکا۔ مجھے تسلیم ہے کہ میرا ظرف چھوٹا تھا۔ وہاں قلزمِ عنایت بے پایاں تھا۔ مجھ ایسا کم ظرف بھلا اپنی طلب کی بشری چھاگل میں ایک ملکوتی قلزم کو کیسے بھرتا۔ وہ قلزم، قلزمِ محبت بھی تھا اور قلزِم حکمت بھی۔ قلزم میں ڈوب جانے کا حوصلہ نہ تھا اور ساتھ لے کر آنے کا یارا نہ تھا۔ بس! کچھ یادیں ہیں اور کچھ باتیں، جو گاہے گاہے سات سمندر پار مقیم دل کو تسلی دیئے رکھتی ہیں کہ ہاں ہم بھی تھے کبھی محوِ گفتگو!

صاحبان ذی وقار! میںصاف صاف بتانا چاہتا ہوں کہ آپؒ مجھے فقیر بنانا چاہتے تھے، اک سہانی صبح مجھ سے براہِ راست پوچھا بھی گیا تھا۔ ”فقیر بننا چاہتے ہو؟“۔۔۔ میں ڈر گیا تھا۔ اس وقت میں سوچتا رہ گیا تھا۔ میں اعتراف کر رہا ہوں کہ میں فقیر نہیں بن سکا۔ میں ڈاکٹر بن گیا، شاعر، مصنف، ادیب، دانشور، کالم نگار سب کچھ بن گیا، یہاں تک کہ ”کشف المحجوب“ کا مترجم بھی بن گیا، لیکن میں فقیر نہ بن سکا، کیونکہ میں خود سے خود کو نکال نہ پایا۔

وہ شہباز تھا ۔۔۔ شہبازِ قدیم ۔۔۔ شہبازِ لامکاں ۔۔۔ اُس نے یہاں قصرِ سلطانی کے گنبد پر بسیرا نہیں کیا، بس کچھ دیر یہاں توقف کیا، کچھ عرصہ زمینی مخلوق کے درمیان ربط کیا اور پھر اپنے اصل مکان، یعنی لامکاں کی طرف پرواز کر گیا۔ ہم زمینی مخلوق تھے، زمین پر رینگتے رہے۔ اقبالؒ کے بقول اگر کوئی شعیب میسر آئے تو شبانی سے کلیمی دو قدم ہے۔ صاحبو! 13 جنوری 1985ء سے 18 جنوری 1993ء تک، شمسی کیلنڈر کے آٹھ سال اور پانچ دن بنتے ہیں، شعیب تو ہمیں شبانہ روز میسر تھا، لیکن اس لکنت زدہ کو کلیمی میسر نہ آئی۔

میں نے کبھی اپنے صاحب کی شان میں منقبت نہیں کہی، منقبت تو یوسف واصفی صاحب کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں، دیکھیے یوسف صاحب! یہ منقبت کا شعر تو نہیں ہو گیا:
وہ اپنے نام کا آپ ہے واصف
بھلا ہم سے بیاں وصف ہو کیسے

Advertisements
julia rana solicitors london

(13 جنوری 2024ء کو لاہور ہائیکورٹ آڈیٹوریم میں منعقدہ تقریب بیادِ حضرت واصف علی واصفؒ میں پڑھا گیا۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply