• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کا ایران کے حملے پر ردِ عمل اور خاموش پیغام/ڈاکٹر ابرار ماجد

پاکستان کا ایران کے حملے پر ردِ عمل اور خاموش پیغام/ڈاکٹر ابرار ماجد

پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات اور دفاعی پالیسی بہت ہی واضح ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی ہمسائہ ممالک کی خود مختاری، سرحدوں پر دخل اندازی یا کسی بھی معاملے میں عالمی قوانیں کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ بوقت ضروت اپنے وسائل سے بڑھ کر مدد فراہم کی ہے۔ آج بھی افغانی مہاجرین کی نصرت ایک عالمی ریکارڈ ہے لیکن جب بھی کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا ہے تو اس کا جواب دینا ہماری مجبوری ہے۔

ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہی نہیں بلکہ ایک دیرینہ دوست ملک بھی ہے جس کے ساتھ پاکستان کے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں لیکن دو دن قبل ان کی طرف سے پاکستان کی حدود کے اندر آبادی میں پُر امن شہریوں پر حملہ جس میں معصوم بچوں اور خاتوں کی موت واقع ہوئی نہ صرف پاکستان کی خود مختاری، سالمیت پر حملہ ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی تھی جس کا پاکستان نے بروقت اظہار سفارتی تعلقات کو ختم کرکے دیا اور ان پر واضح کیا کہ پاکستان اس پر مزید ردعمل کا اپنی حکمت عملی کے تحت مشورے کے بعد جواب کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایران کی طرف سے کوئی معذرت کا بیانیہ سامنے نہیں آیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کو اپنے عمل پر پشیمانی کا احساس نہیں ہوا بلکہ شائد وہ اسے بھی اپنے دوسرے ہمسایہ ممالک کی حدود میں دخل اندازی کی طرح ہی لے رہا ہو لیکن ان کو شائد یہ اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان ایک دنیا کی نوویں نمبر کی فوج ، دنیا کی پہلے درجے کی انٹیلی جنس اور ایٹمی طاقت رکھنے والی ریاست ہے۔

پاکستان کی فوجی دفاعی حکمت عملیوں کی دنیا معترف ہے۔ پاکستان نے جس طرح سے دہشتگردی پر قابو پایا اور ہر روز اندرونی بدامنی میں ملوث عناصر کا قلع قمع کر کے پاکستان کی مخالف قوتوں کو اپنی عسکری اور دفاعی حکمت عملیوں سے جس طرح جواب دیا جاتا ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں مگر شاید ایران کو اس کا ادراک نہیں تھا جو اب امید کی جاتی ہے کہ ہو جائے گا۔ پاکستان نے یہ واضح کیا ہے کہ ہم نے اس جوابی کاروائی میں بھی ایران کا کوئی نقصان نہیں کیا بلکہ اپنی سلامتی اور امن میں دخل اندازی کرنے والے غداروں کو جنہوں نے ایران کی حدود میں پناہ لی ہوئی تھی کے ٹھکانوں کو تباہ کرکے ان ہی کی زبان سے دنیا کو یہ ثبوت دیے ہیں کہ ان کی زمین کس حد تک پاکستان میں دہشت گردی اور امن عامہ میں خلل ڈالنے کے لئے استعمال ہو رہی ہے جس کے بارے انہیں آگاہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔

ایران نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے ایرانی شہری نہیں بلکہ پاکستانی شہری تھے جو پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں مطلوب تھے جس سے دنیا پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان ہر طرح کی معلومات سے با خبر ہے اور صلاحیت رکھنے کے باوجود ہمسایہ ممالک کی خود مختاری اور عالمی قوانیں کا پابند ہے۔

اور جب ایران نے پہل کی تو پاکستان کی طرف سے جوابی حملے نے نہ صرف ایران بلکہ اس کے ہم خیال جو پاکستان پر ایرانی حملے سے بغلیں بجا رہے تھے ان کو بھی یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان معاشی اور سیاسی بحران سے ضرور گزر رہا ہے مگر اپنی سلامتی، سرحدوں کی حفاظت، حالات سے باخبری اور اپنے شہریوں کی حفاظت میں اپنی ذمہ داریوں کا خوب ادراک رکھتا ہے اور بحیثیت ایک ایٹمی طاقت اپنی سٹریٹجک پالیسی کی صلاحیت اور دفاعی مہارتوں کے تقاضوں سے بھی خوب واقف ہے۔ پاکستان اگر ایک مقروض ملک ہوتے ہوئے محدود وسائل کے باوجود ایٹمی طاقت حاصل رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کے تقاضوں سے بھی آگاہ ہے۔

اگر کوئی اس وقت عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں یا اس کو اکسانے کا خواہاں ہے تو اس کو یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ پاکستان پر امن ملک ضرور ہے مگر اس کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک کو بھی اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ پاکستان ہمسایہ ممالک سے برادرانہ تعلقات کا خواہاں ہے اور اس کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان اس خطے کی ایٹمی طاقت ہی نہیں بلکہ تجارتی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اور پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ قدرتی معدنیات سے بھی مالا مال ہے۔ اس کا قدرتی خوبصورتی اور موسم کے لحاظ سے بھی پر کشش ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ دنیاوی آسودگیوں کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ علمی اعتبار سے بھی اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔

پاکستان اگر ٹیکنالوجی میں خود کفیل نہیں بھی تو اپنی ضروریات کی حد تک بندوبست ضرور رکھتا ہے اور اس کی افرادی قوت، فوجی صلاحیتوں، ٹیکنالوجی کی مہارتوں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی اہلیت اس کی کمیوں کو بھی پورا کئے ہوئے ہے۔

پاکستان نے ایران کو اپنی حدود میں دخل اندازی کے جواب میں یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنی سرحدوں کے حالات سے باخبر ہے اور اسے معلوم ہے کہ کون کس حد تک ان کی اندرونی دہشت گردیوں میں ملوث ہے اور کہاں کہاں سے مدد فراہم ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی خاموشی کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے بلکہ یہ باور کروا دیا ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا بھی جانتا ہے۔

اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے پاس نہ صرف اس کی ضروریات کے مطابق ٹیکنالوجی ہے بلکہ اس کا صحیح استعمال بھی جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے دشمن کہاں کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ وہ صرف حالات پر ہی نہیں بلکہ اپنی سرحدوں کے مضافات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان کی عوام اپنی فوج سے اس رد عمل کا مطالبہ کر رہی تھی اور یہ ریاست اور عوام کی ایک اجتماعی خواہش کا نتیجہ تھا اور فوج کی مخصوص نشانے پر کامیاب کاروائی نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے اور قوم کے اندر اس وقت جذبے کی ایک ایسی لہر دوڑ رہی ہے جو فوج کو یہ یقین دلا رہی ہے کہ پوری قوم ایک سپاہی کے طور پر فوج کے ساتھ کھڑی ہے جس کی گواہ پاکستان کی ایک جنگی تاریخ ہے جو پاکستان کے دشمن ان کو وقتاً فوقتاً آزمائش میں ڈال کر لکھتے رہے ہیں اور ہر دفعہ ان کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔

اس جوابی حکمت عملی اور کاروائی سے پاکستان کو عالمی سطح پر اپنے ہمدردوں کا ہی اندازہ نہیں ہوا جنہوں نے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور ایران کو اس خطے میں بد امنی سے جوڑتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے بلکہ ریاست کے اندر چھپی ہوئے ان غدارانہ سوچوں کا بھی اندازہ ہوگیا ہے جو پاکستان کو کمزور دیکھنے کی خواہشیں رکھتی ہیں یا دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور اب پاکستان کو اپنی دفاعی حکمت عملیوں کو بہتر بنانے میں اس سے مدد ملے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان اپنی طاقت کو اپنے دفاع کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی رکھتا ہے اور اس کے اظہار کے بعد اپنے آپ کو پر امن رہنے کی اپنی روایت پر کار بند رہے گا اور ہمیں امید ہے کہ ایران اور دوسرے ہمسایہ ممالک بھی اس خود مختاری کا خیال رکھیں گے اور خطے کے امن میں اجتماعی کردار کی ضروت کو سمجھتے ہوئے جنگوں کی بجائے باہمی تعاون اور تجارت کی پالیسی کی طرف توجہ دیں گے۔ اگر کسی کو کوئی غلط فہمی ہو تو سفارتی زرائع اور تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے مکالمے کے زریعے سے مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہیے جس کا پاکستان ہمیشہ سے خواہاں رہا ہے اور رہے گا اور ایسی ہی توقع ہمسایہ ممالک سے بھی رکھتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply