اور پھر مجھے مارا گیا/فضل تنہا غرشین

حسن اتفاق سے تین دوست عالم ارواح میں ملے اور یہاں آنے کی بابت ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔ پہلے دوست نے بتایا کہ وہ انتظار حسین کے ”شہر افسوس” میں مرا تھا اور دوسرے دوست نے بتایا کہ وہ اصغر ندیم سید کے ”ایک اور شہر افسوس” میں مرا تھا۔ تیسرے دوست نے اپنے بارے میں کچھ یوں بتایا:

Advertisements
julia rana solicitors

میں پہلے پھلوں کی ریڑھی لگاتا تھا۔ ہمیشہ باسی پھل مہنگے داموں فروخت کیا کرتا تھا۔ ایک دن مجھے علم ہوا کہ باسی پھل کھانے سے رشید چاچا کے دو خوب صورت بچوں کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی….
یہ خبر سنتے ہی تمھیں دل کا دورہ پڑا اور تو مرگیا، پہلے دوست نے بیچ میں لقمہ دیا۔
نہیں، میں زندہ رہا۔ یہ خبر سنتے ہی میں نے دکان کھولنے کا فیصلہ کیا۔ میں قلیل مدت میں ایک اوسط درجے کا دکان دار بن گیا تھا۔ مجھے ادھار دینے سے چڑ تھی۔ تاہم کلیم بابو کو شناسائی کی وجہ سے ادھار دیتا تھا۔ ادھار حد سے تجاوز نہ کرنے کی خاطر میں بار بار کلیم بابو کو رقم واپس کرنے پر تنگ کرتا تھا۔ ایک دن علی الصبح مجھے کلیم بابو کے خودکشی کرنے کی خبر ملی…..
یہ خبر ملتے ہی تیرا سر چکرایا اور تو گر کر مرگیا، دوسرے دوست نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
نہیں، میں زندہ رہا اور مرحوم کی تکفین و تدفین میں بھرپور شرکت بھی کی۔ اس وقت میں بی اے کرچکا تھا۔ یوں میں نے دکان بیچ کر کسی طور سے سرکاری سکول میں ٹیچنگ کی ملازمت حاصل کرلی۔ اب میں ایک نااہل اور نکما استاد تھا۔ میرے بہت کم شاگرد میکنک، ڈرائیور، سپاہی اور دیہاڑی دار مزدور بن گئے۔ مگر میرے اکثر شاگرد چور، لفنگے اور بدمعاش نکلے۔ ایک دن اچانک میرے دو زہین شاگردوں کے کوئلے کی کان میں پھنس جانے اور مرنے کی خبر گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور….
اور پھر تمھارے حواس خمسہ نے کام چھوڑ دیا اور تم نے غیرت میں آکر خودکشی کرلی، دونوں دوستوں نے یک آواز ہوکر بےچینی سے پوچھا۔
نہیں، میں خودکشی کیوں کرتا۔ اس کے بعد میں نے خوب محنت کی، رات دن پڑھائی کی اور اعلیٰ آفیسر بن گیا۔ ایک دن قلت آب کی وجہ سے علاقہ مکینوں نے سڑک بند کر کے خوب احتجاج کیا۔ حکام بالا نے مجھے جلد سے جلد مظاہرین کو منتشر کرنے اور روڈ کلیر کرنے کی ہدایت کی۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ چند ثانیوں کے بعد امی جان نے فون پر بتایا کہ آج دفتر سے جلدی واپس آنا۔ میں نے وجہ دریافت کی، تو کہنے لگی کہ آج کے مرنے والے مظاہرین میں اس کا بھائی اور بھانجے بھی شامل تھے۔ امی جان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
اور تو ضرور اس دفعہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے مرگیا ہوگا، پہلے دوست نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
نہیں، میں کیوں مرتا، مگر میں نے سرکاری نوکری کو خیر باد کہہ دیا اور پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا۔ میں نے بہت کم عرصے میں ایک بہت بڑا پلازہ تعمیر کیا اور کرایے پر دیا۔ میرے کاروباری مشیر نے بتایا کہ یہ پلازہ عجلت میں تعمیر ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت منہدم ہوسکتا ہے، کیوں نہ اسے بیچا جائے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ چند ہفتوں کے اندر مجھے اس پلازے کے منہدم ہونے اور اس میں سیکڑوں کی تعداد میں اموات کی خبر ملی اور…
اور ظالم تم اسی دفعہ ضرور مرگیا ہوگا، دوسرے دوست نے کہا۔
نہیں، میں زندہ رہا اور میں نے سیاست جوائن کرلی۔ الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ حاصل کرنا میرے باٸیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ سو میں نے ٹکٹ حاصل کرلیا، عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے اور منسٹر بن گیا۔ میرے حلقے والوں نے بار بار سیلاب سے متاثر ہونے کی شکایت کی اور عملی اقدامات اٹھانے کا کہا، لیکن مجھے فرق نہیں پڑا۔ مون سون کا موسم تھا، بارشیں ہوئیں اور بڑے پیمانے پر سیلاب آئے۔ مجھے اپنے پورے حلقے کے سیلاب میں بہہ جانے کی خبر ملی اور…
اور ظالم تو اسی موقع پر ضرور مرگیا ہوگا، دوسرے دوست نے حقارت سے کہا۔
نہیں، میں ہشاش بشاش تھا، اپنے حلقے کا فضائی دورہ کیا اور چل دیا۔
میرے حلقے میں سکول، کالج، مدرسہ، اسپتال، سڑک اور کچھ بھی باقی نہ رہا تھا۔ عوام گھروں کے بجائے خیموں میں آباد ہونے لگے تھے۔ میرے حلقے کے اکثر نوجوان جرائم پیشہ ہوچکے تھے، مگر میرے اعصاب پر دوبارہ منسٹر منتخب ہونا سوار تھا۔ سو میں نے اپنے مشیروں اور احباب کے ساتھ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر اپنے حلقے کا دورہ کیا۔ ہم اسٹیج پر براجمان ہی نہیں ہوئے تھے کہ ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اور….
اور بھیڑیا تو ضرور اس دفعہ مرگیا ہوگا، دونوں دوستوں نے خوشی سے اچھل کر پوچھا۔
نہیں، میں مرا نہیں۔ مجھے مارا گیا۔ میں نے جواب دیا۔
شکر ہے کہ تو مرگیا۔ انتظار حسین کے ”شہر افسوس” کا سبب بھی تم ہو۔ پہلا دوست غرایا۔
او خون خوار بھیڑیے! اصغر ندیم سید کے ”ایک اور شہر افسوس” کا ذمہ دار بھی تم ہو۔ دوسرا دوست چلایا۔
خاطر جمع رکھیں۔ دنیا اب بھی میرے جیسے خون خوار بھیڑوں سے بھری پڑی ہے۔
پھر عالم ارواح میں خاموشی چھا گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply