سقوطِ ڈھاکہ کا چورن۔۔عظمیٰ لطیف

‏75 سال تک یہ قوم”ملک کے وسیع تر مفاد” میں سب کچھ جانتے بوجھتے آنکھیں بند کئے ان کو برداشت کرتی رہی، ان کے مسلط کئے ہوئے سیاستدانوں کو بھی “ملک کے وسیع تر مفاد” میں قبول کرتی رہی، سقوط ڈھاکہ کا جو چورن انہوں نے بیچا اس کو من و عن قبول کیا ،جس کو انہوں نے غدارکہا۔
‏اس کو قوم نے غدار کہا، جس کو انہوں نے محب وطن کہا ،اس کو قوم نے محب وطن کہا۔سقوط ڈھاکہ کیسے ہوا ،کیا ہوا ،جو تاریخ انہوں نے قوم کو بنا کر دی ،قوم نے اسے کڑوی دوائی سمجھ کر نگل لیا،انہوں نے سیاستدانوں پر پورا ملبہ ڈالا اور سیاستدانوں نے ان پر ،مگر آج جو کچھ ہو رہا ہے ،‏ہم سب کی آنکھوں کے سامنے  ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے ،کیا 1971 کی تمام دفن کی ہوئی سچائیوں سے پردے نہیں اٹھ گئے؟ لگتا ہے کسی نے ریوائنڈ کا بٹن دبا کے ہمیں 1970 میں واپس بھیج دیا ہے ،کس نے کس کے ساتھ مل کے کیا ہو گا، کس کی کیسے اور کتنی حق تلفی ہوئی ہو گی،‏وہ سب ابہام اور خوش فہمیاں بھک کر کے اُڑ گئیں، دھند چھٹ گئی ہے ،منظر صاف ہیں ۔ہم سب سقوط ڈھاکہ کی فلم کو 2022 میں بیٹھے دیکھ رہے ہیں،یہ تخیلات پر مبنی کوئی فکشن مووی نہیں ،بلکہ حقائق پر مبنی ڈاکومنٹری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply