• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • زوال پذیر ہوتے امریکی اتحادوں کے مقابلے میں ابھرتا ایران روس اتحاد۔۔سید رحیم نعمتی

زوال پذیر ہوتے امریکی اتحادوں کے مقابلے میں ابھرتا ایران روس اتحاد۔۔سید رحیم نعمتی

گزشتہ کچھ عرصے سے ایران، روس اور ترکی کے درمیان آستانہ مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اب تک اس مذاکراتی سلسلے کی 18 نشستیں منعقد ہو چکی ہیں جن میں انسانی ہمدردی کے امور، باہمی تعاون کے فروغ، خطے میں امن و امان کا قیام اور شام میں جاری بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے ممکنہ راستوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آستانہ مذاکرات بنیادی طور پر شام کے مسائل حل کرنے کی خاطر شروع کئے گئے ہیں۔ اس ہفتے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایسے وقت ایران کا دورہ کیا جب کچھ ہی دن پہلے امریکی صدر جو بائیڈن مقبوضہ فلسطین اور سعودی عرب کا دورہ کر چکے تھے۔ یوں روسی صدر کی ایران آمد اور ایران، ترکی اور روس کے درمیان سہ فریقی سربراہی کانفرنس کا انعقاد وسیع پہلو اختیار کر چکا ہے۔

امریکی صدر کے دورہ مشرق وسطی کے مقابلے میں روسی صدر کا دورہ ایران اس بات کا باعث بنا ہے کہ یہ دورہ اور اس میں انجام پانے والے مذاکرات صرف شام کے مسئلے تک محدود نہ رہیں بلکہ ان کا دائرہ کار زیادہ وسعت اختیار کر جائے۔ روسی صدر کے حالیہ دورہ ایران کے بارے میں سامنے آنے والے تجزیات میں سے ایک انتہائی دلچسپ تجزیہ صہیونی اخبار یروشلم پوسٹ نے کیا ہے۔ یہ اخبار اس بارے میں لکھتا ہے: “کیا جو بائیڈن کا مشرق وسطی کا یہ گردباد اتنی قیمت رکھتا تھا جتنا اس پر خرچ ہوا ہے؟” اس اخبار نے امریکی صدر کے دورہ مشرق وسطی میں توجہ کا مرکز قرار پانے والے مختلف ایشوز جیسے سعودی عرب کی تیل کی پیداوار میں اضافہ، اسرائیل فلسطین تنازعہ، امریکہ میں مڈٹرم الیکشن اور اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کی مہم وغیرہ کا جائزہ بھی لیا ہے۔

یروشلم پوسٹ ان ایشوز کے بارے میں لکھتا ہے کہ جو بائیڈن نے اپنے دورے میں ان مسائل کے بارے میں نہ صرف کوئی کامیابی حاصل نہیں کی اور نہ ہی امریکہ میں اپنے حامیوں کو راضی کر سکے ہیں بلکہ الٹا یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ “کیا امریکہ کا یہ بوڑھا ترین صدر بین الاقوامی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہمت اور استقامت رکھتا ہے اور آیا وہ 2024ء میں دوبارہ صدارتی الیکشن جیتنے کی صلاحیت سے برخوردار ہے؟” اگرچہ یروشلم پوسٹ کے تجزیہ کار نے اس سوال کا واضح جواب نہیں دیا ہے لیکن مشرق وسطی دورے کے کمزور نتائج کی نشاندہی کرنے سے اس کی رائے معلوم ہو جاتی ہے۔ امریکہ کے اندر جو بائیڈن کی محبوبیت میں 33 فیصد کمی بھی اس رائے کی تصدیق کرتی دکھائی دیتی ہے۔

دوسری طرف روسی صدر کا دورہ ایران بالکل برعکس صورتحال رکھتا ہے۔ ولادیمیر پیوٹن کا یہ دورہ ظاہر کرتا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے زہریلے پروپیگنڈے کے برعکس وہ عالمی سطح پر ایک گوشہ نشین سیاست دان نہیں ہیں اور دیگر ممالک سے تعلقات کے بل بوتے پر شام میں جاری بحران جیسے ایشوز کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مزید برآں، فرانسیسی ویب سائٹ کائرن انفو (Cairn info) آستانہ مذاکرات کے تناظر میں ایران اور روس کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسے دو بنیادی سفارتی میدانوں پر استوار قرار دیتی ہے۔ ایک علاقائی استحکام کی حفاظت اور تقویت اور دوسرا غیر علاقائی کھلاڑیوں خاص طور پر امریکہ کو خطے کے امور میں مداخلت سے باز رکھنا۔

اب تک روس اور ایران نے مل کر خطے میں داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ روسی صدر کا دورہ تہران ظاہر کرتا ہے کہ یہ تعاون جاری رہے گا اور خطے کے استحکام کیلئے یہ حکمت عملی مزید آگے بڑھائی جائے گی۔ دوسری طرف امریکی صدر کی جانب سے جدہ میں منعقدہ خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں خطے کے ممالک کو ایران کے خلاف اشتعال دلانا قابل توجہ ہے۔ اگرچہ جو بائیڈن اس مقصد میں بھی ناکام رہے ہیں اور کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ سیاسی ماہرین کا خیال کے کہ خلیجی ریاستیں ایران کے خلاف کسی قسم کا جارحانہ اتحاد تشکیل دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور ان کی پہلی ترجیح خطرات کم کرنا ہے۔ اس کی ایک مثال عراق کی میزبانی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری مذاکرات ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا حالیہ دورے میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے تہران اور انقرہ کے ساتھ علاقائی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ ہدف قابل حصول ہے اور اس کیلئے مناسب مقدمات فراہم ہیں۔ دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطی دورے کا بنیادی مقصد ایران کے خلاف اتحاد تشکیل دینا تھا۔ یہ ایسا مقصد ہے جو قابل حصول نہیں ہے اور اس کیلئے مناسب مقدمات بھی فراہم نہیں ہیں۔ جو بائیڈن حتی ایران پر دباو ڈالنے کیلئے موجود مقدمات سے بھی مناسب فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان دونوں دوروں کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تہران خطے میں اپنا موثر کردار بدستور نبھاتا رہے گا جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ کو پہلے کی طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اس بات کا اندازہ یہیں سے لگایا جا سکتا ہے کہ خطے میں امریکہ کے اتحادی بھی ایران کے ساتھ تناو کم کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply