تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے چند ارشادات بہت مشہور ہوئے، پہلا یہ ہے کہ “آئین کیا ہے چند صفحات کا کتابچہ جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں”۔
دوسرا “میرا بس چلے تو ان ترقی پسندوں اور پپلوں کو ایک میدان میں جمع کرکے ان پر ٹینک چڑھادوں”۔
تیسرا “میں ہڈی پھینکوں گا سیاستدان دُم ہلاتے ہوئے بھاگتے آئیں گے”۔
چوتھا “میں کرسی پر بیٹھا ہوں ایسا لگتا ہے آگ مجھے اوپر اور نیچے سے جلارہی ہے”۔
چند مزید فرمودات بھی بڑے مشہور ہوئے کچھ لطیفے بھی لیکن ان کی ایک مشہور زمانہ دعا بھی بڑی مقبول ہوئی۔ یہ دعا مئی 1988ء میں مانگی تھی اگست 1988ء میں قبول ہوگئی۔
کہا تھا “میری زندگی نوازشریف کو لگ جائے”۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج تیسرے فوجی آمر کی یاد گیری کی وجہ کیا ہے۔ وہ فقط اتنی ہے کہ ان کے لخت جگر اعجازالحق اپنی جماعت مسلم لیگ (جنرل ضیاء گروپ) سمیت پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔ اتوار کو انہوں نے زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی اور “کلمۂ حق” بلند کردیا۔
میں فقیر راحموں کی اس خبر کے جھانسے میں آنے سے گریز کررہا ہوں کہ “اعجازالحق نے یہ کام پچھلے چند دنوں میں موصول ہونے والے 2عدد فونوں کے بعد کیا”۔
سوشل میڈیا پر اعجازالحق کی پی ٹی آئی میں شمولت کو لے کر لطاف اور جگتیں اچھالی جارہی ہیں۔ کچھ دوست تکرار کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کی ایوب خان کی کابینہ میں شمولیت کا حوالہ دے رہے ہیں۔ سب اپنے اپنے جی کے پھپھولے پھوڑنے میں جُتے ہوئے ہیں۔
کچھ کے خیال میں یہ موازنہ بنتا ہی نہیں۔ کچھ کہہ رہے ہیں جنرل ضیاء الحق کی روحانی اولاد شریف خاندان پیپلزپارٹی کا اتحادی ہے۔ اعجازالحق تحریک انصاف میں بھرتی ہوگئے تو کیا ہوا۔
سب سے دلچسپ جملے بازی وحدتی انقلابیوں شیعوں اور ان کے ناقدین کے درمیان ہورہی ہے۔ ہم اس جملہ بازی میں سینگ الجھانے سے گریز کرتے ہیں۔
پیپلزپارٹی شریف خاندان یا (ن) لیگ کی اتحادی ہے۔ یہ شکوہ سب سے زیادہ ان “اہل ایمان” کا ہے جنہوں نے 2011ء کے بعد جیالہ پن ترک کرکے ماضی کا کفارہ ادا کیا اور سندِ ایمانی پائی۔ یہ لوگ اس وقت پیپلزپارٹی میں ہی تھے جب محترمہ بینظیر بھٹو نے (ن) لیگ سے میثاق جمہوریت کیا تھا۔
خیر یہ ان کا بلکہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ ہم عقیدے اور سیاسی نظریات میں جبر کے قائل نہیں ہمیشہ سے یہ رائے رہی اور اظہار کیا کہ عقیدہ اور سیاسی نظریات ہر دو میں چھان بین اچھی چیز ہے البتہ پچھلے عقیدے اور سیاسی نظریات کو منہ بھر کے کوسنے کی بجائے لمحہ موجود میں بات آگے بڑھانی چاہیے۔
خود آج تحریک انصاف میں اس کے قدیم کارکن کتنے ہیں۔ پیپلزپارٹی، (ن) لیگ، (ق) لیگ اور مرحومہ ملت پارٹی وغیرہ وغیرہ سے ہجرت کرکے آئے ہوئے کتنے؟
تحریک انصاف کا حُسن یہی ہے کہ اس میں سابق جہادیئے (اسد قیصر اور علی محمد خان جیسے) پرانے پپلے۔ کچھ لیگی اور دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے موجود ہیں۔ پی ٹی آئی ایک ہی وقت میں لبرل بھی ہے اور ریاست مدینہ کے قیام کی علمبردار بھی۔
اس جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو اپریل 2022ء سے قبل دبنگ انداز میں کہا کرتے تھے “پاک فوج سے محبت کے لئے ماہ باپ کا ایک اور نیک ہونا ضروری ہے”۔ یہ اب کیا کہتے ہیں”سانوں کی”۔
ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین و مجاہدات اور فاطمہ ٹاور اسلام آباد والے و والیاں بھی پی ٹی آئی کا حُسن ہیں۔ ماضی میں ایک مختصر وقت کے لئے معراج محمد خان بھی اسی جماعت کے سیکرٹری جنرل رہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم بھی پی ٹی آئی کی محبت کے اسیر ہوئے۔ البتہ انہوں نے اعتزاز احسن کی طرح منافقت نہیں کی جو کہا کھل کر کہا۔
اعتزاز احسن “سجن میں تیرا دل اوہدے نال جیہڑا بیری تلے کھنگے” کی زندہ مثال ہیں۔ سیاسی جماعت بدلنا یا اپنی جماعت دوسری جماعت میں ضم کرنا بُری بات ہرگز نہیں۔ اعجازالحق اگر پی ٹی آئی میں چلے گئے تو کیا ہوا، وہ (ن) لیگ میں رہے۔ مشرف کے حامی ہوئے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے دربدر تھے۔ اب ٹھکانہ مل گیا۔
ہمارے کامریڈ میاں نوازشریف بھی تحریک استقلال میں رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ اپنے تو بابائے قوم (پاکستانی قوم کے۔ تحریر نویس سرائیکی ہے) تک کانگریس میں رہے بلکہ لمبے عرصے تک ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تبدیلی کا برا منانے کی ضرورت نہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ اس وقت پہلے فوجی آمر خودساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا خاندان پی ٹی آئی میں ہے۔ تیسرے فوجی آمر کے صاحبزادے گزشتہ روز شامل ہوگئے۔ دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کے فرزند آغا علی غالباً وفات پاچکے ہیں (ویسے وہ سیاسی جماعتوں سے دور ہی رہے) چوتھے فوجی آمر کے صاحبزادے بلال مشرف بیرون ملک ہوتے ہیں۔ جرنیلوں کی آل اولاد واہگہ کے پار کی مخلوق نہیں وہ اگر پی ٹی آئی اور عمران خان کو پسند کرتی ہے تو کون سا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔
البتہ فقیر راحموں کی اس بات پر ضرور سوچ بچار کررہا ہوں کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کے اندر جہادی گروپ اور نئی رجیم کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے؟ ویسے سوچنے سے زیادہ اس میں کچھ نہیں۔
خوشی کی بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بچے پرانے وفادار، ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین و مجاہدات عمران خان کے ساتھ ہیں۔ عمران خان نے اسی ملک میں سیاست کرنی ہے۔ آج کل وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر ہیں یہ الگ بات ہے کہ چند دن پہلے کہہ رہے تھے میں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہوں لیکن وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتے تو کیا کروں۔
اچھا لگے یا برا عمران اس وقت ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ کم از کم مجھے امید ہے کہ عمران خان کی سیاست بٹوارے کا کفارہ ادا کرے گی۔
جس طرح کی سیاسی تقسیم آج ہے ایسی ہمیشہ رہی۔ ذرا 1970ء سے 2013ء تک کے درمیانی برسوں کی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔ اضافت فقط یہ ہے کہ پہلے سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اس سے پہلے الیکٹرانک میڈیا نہیں ہوتا تھا۔ تقسیم تب بھی بہت گہری ہی ہوا کرتی تھی۔
خان صاحب بھی چھوٹے موٹے چوروں، دیہاڑی بازوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پرانے آزمودہ رفیقوں کے سنگ آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔
کیا آپ سوچ سکتے تھے کہ جس قسم کے نعرے اتوار کو برطانوی وزیراعظم کی اقامت گاہ کے باہر انصافی مظاہرین نے لگائے وہ پہلے لگائے جاسکتے تھے؟ ویسے ایک بات ہے کوئی مانے یہ نہ مانے سچ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف وسطی پنجاب میں لوگوں کو زبان اپنے محبوب کامریڈ میاں نوازشریف نے دی۔ عمران خان تو اس کی کھٹی “کمائی” کھارہے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بات اسٹیبلشمنٹ مخالف نعروں سے گالم گلوچ تک آپہنچی ہے۔ یہ بھی بہرطور عمران خان کا کریڈٹ ہے۔
عمران خان نے اپنے دور میں وفاق اور دو صوبوں میں سوشل میڈیا مجاہدین کے لشکر سرکاری رقم پر پالے۔ ثبوت موجود ہیں لیکن کیا 2013ء سے 2018ء تک محترمہ مریم نواز شریف جو میڈیا سیل چلاتی رہیں اس کے اخراجات کا بوجھ ملکی خزانے پر نہیں تھا؟
فرق یہ ہے کہ اس وقت واپڈا کی ذیلی پاور کمپنیاں رقم ادا کرتی تھیں کچھ رقم وزارت اطلاعات کے مخصوص فنڈز اور کچھ وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز سے ملتی تھی 16کروڑ روپے ماہانہ اس میڈیا سیل پر اٹھتے تھے۔
عمران خان نے اس میں تبدیلی یہ کی کہ اپنے مجاہدین و مجاہدات کو باقاعدہ ایڈہاک ملازمتیں دے دیں۔ اس لشکر کا ایک حصہ ففتھ جنریشن وار والے مجاہدین پر مشتمل تھا ان کا خرچہ تب آئی ایس پی آر اٹھاتا تھا۔
مکرر عرض ہے اعجازالحق ٹکٹ اور جیتنے کی محتاجی سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں ورنہ وہ ذاتی جماعت کے مالک تھے۔ آخری بار فورٹ عباس ضلع بہاولنگر سے رکن قومی اسمبلی بنے تھے تب ان کی انتخابی مہم ان کے مرحوم والد کے محکمے والوں نے چلائی تھی۔ کچھ برادری ازم کا تعصب بھی وہاں کام آیا۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات سپریم کورٹ کے حکم پر ہوں گے؟ کڑوا سچ یہ ہے کہ مجھے تو نہیں لگتا۔
دعا یہی ہے کہ ہوجائیں صرف یہی نہیں بلکہ اکتوبر نومبر میں باقی ماندہ دو اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات بھی۔
البتہ بہت سارے ظاہری اور پوشیدہ خطرات ہیں۔ ادھر خان نے بھی کل سری لنکا کے حالات والی دھمکی سے آگے بڑھ کر ایران کے 1979ء والے حالات جیسا ماحول بن جانے کی دھمکی دی ہے۔
دیکھتے ہیں پردے کے پیچھے کیا ہے، انتظار کیجئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں