تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت دیگر اداروں سے رپورٹ طلب کر لی۔
سپریم کورٹ نے احتجاج سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے تحریر کیا۔
عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کی طرف سے عدالتی احکامات کے برعکس جلاو گهیراو، توڑ پھوڑ اور ریڈ زون میں داخلے کے عمل پر سات مختلف سوالات اٹھاتے ہوئے آئی جی پولیس، چیف کمشنر اسلام آباد ،ڈی جی آئی بی اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے تحقیقاتی اداروں سے پوچھا گیا ہے کہ عمران خان نے پارٹی ورکرز کو کس وقت ڈ ی چوک جانے کی ہدایت کی؟پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک میں لگی رکاوٹوں سے آگے کب نکلے؟
کیا ڈی چوک ریڈ زون میں داخل ہونے والے ہجوم کی نگرانی کی جا رہی تھی؟کیا حکومت کی جانب سے دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟ کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟
ریڈ زون کی سکیورٹی کے انتظامات کیا تھے؟ایگزیکٹو حکام کی جانب سے سکیورٹی انتظامات میں کیا نرمی کی گئی؟کیا سیکورٹی بیریئر کو توڑا گیا؟کیا مظاہرین یا پارٹی ورکر جی نائن اور ایچ نائن گراونڈ میں گئے؟
عدالت نے زخمی، گرفتار اور اسپتال میں داخل ہونے والے مظاہرین کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ تمام ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائیگا کہ عدالتی حکم کی عدم عدولی ہوئی یا نہیں،عدالت نے اپنے حکم میں زخمی، گرفتار اور اسپتال میں داخل ہونے والے مظاہرین کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان کے بیان کی ویڈیو سپریم کورٹ میں چلائی گئی،عمران خان کے خلاف کاروائی کیلئے عدالت کے پاس مواد موجود ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ان کی رائے کے مطابق عمران خان نے عدالتی احکامات کی حکم عدولی کی،عدالت کے پاس عمران خان کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے کافی مواد موجود ہے۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمران خان کو نوٹس جاری کرنے کی سفارش کر تے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان سے پوچھا جائے کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے،
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں