31 مئی 2022ء کو ملی یکجہتی کونسل کے ایک وفد نے عوامی جمہوریہ چین کے اسلام آباد میں موجود سفارتخانے کا دورہ کیا۔ وفد کی قیادت کونسل کے سیکریٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ، جو جماعت اسلامی کے نائب امیر بھی ہیں، کر رہے تھے۔ اس وفد میں راقم کے علاوہ مندرجہ ذیل شخصیات شامل تھیں:
* علماء و مشائخ رابطہ کونسل کے سربراہ خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ
* اسلامی تحریک کے نائب صدر علامہ عارف حسین واحدی
* جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سیکریٹری جنرل پیر محمد صفدر شاہ گیلانی
* تحریک جوانان پاکستان کے چیئرمین محمد عبد اللہ گل
* جماعت اہل حدیث کے امیر حافظ عبدالغفار روپڑی
* نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم
* جمعیت علمائے اسلام (سینیئر) کے مرکزی راہنماء پیر عبدالشکور نقشبندی
* اسلامی جمہوری محاذ کے سربراہ حافظ زبیر احمد ظہیر
* ملی یکجہتی کونسل اسلام آباد کے صدر انجینئر نصراللہ رندھاوا
جناب ڈاکٹر ظفر محمود نے اس ملاقات کے لیے رابطہ کار کے فرائض انجام دیے۔ وہ ملاقات کے موقع پر خاص طور پر لاہور سے تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب چینی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور ان کی اس نشست میں موجودگی ترجمانی کے حوالے سے نہایت مفید رہی، اگرچہ سفارت خانے کی طرف سے بھی ایک فرد اس مقصد کے لیے موجود تھا۔ اس موقع پر سانحہ کراچی میں جاں بحق ہونے والے چینی اساتذہ اور دیگر واقعات میں دہشتگردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے چینی انجینئرز اور ماہرین کے بہیمانہ قتل پر اظہار افسوس کیا گیا۔ تعزیتی کتاب میں جناب لیاقت بلوچ نے وفد کی طرف سے تاثرات بھی قلمبند کیے۔ اس وفد کی ملاقات چینی سفارت خانے کے کونسلر منسٹر ینگ ناؤسے ہوئی۔ وفد کی طرف سے جناب لیاقت بلوچ نے اظہار خیال کیا، جس کے نکات میٹنگ سے پہلے ایک مشترکہ نشست میں باہمی مشورے سے طے کر لیے گئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ چینی اساتذہ، انجینئرز اور ہنرمندوں کے قتل پر ہم نہایت افسردہ ہیں اور دہشت گردی کے ان واقعات کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں کی طرف سے چینی عوام اور اس کی قیادت کی خدمت میں تعزیت پیش کرنے کے لیے آئے ہیں، البتہ ایسے افسوسناک واقعات خود پاکستانیوں کے خلاف بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ہماری رائے میں عالم اسلام اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات استعماری طاقتوں کو گوارا نہیں جبکہ ہم ان تعلقات کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام دل کی گہرائیوں سے چین کے عوام سے محبت رکھتے ہیں اور پاک چین دوستی کو دونوں ملکوں کے لیے نہایت ضروری سمجھتے ہیں۔ چین ہمارے لوگوں کے دلوں میں رہتا ہے، کیونکہ چین نے ہمیشہ مشکل مواقع پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ کشمیر کے لیے چین کی حمایت کو ہم بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بھارتی فوج کے خلاف چین کی گذشتہ کامیابی پر پاکستان کے عوام نہایت خوش تھے۔ چین اس وقت دنیا میں عالمی سامراج کے مقابلے پر ایک نئی اقتصادی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے، جسے عالم اسلام بھی اپنے لیے تقویت کا باعث سمجھتا ہے۔
جناب لیاقت بلوچ نے کہا کہ چین کے مسلمانوں کے بارے میں مختلف ذرائع سے منفی خبریں آتی رہتی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقت حال کو واضح کرنے اور اس پراپیگنڈہ کو زائل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے عوام کے مابین رابطے ضروری ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستانی علماء کا چین جا کر مسلمانوں سے ملنا اور ان کے حالات کو نزدیک سے دیکھنا نہایت مفید رہے گا۔ جناب لیاقت بلوچ کے بعد چینی سفارت کار جناب ینگ ناؤ نے گفتگو کی۔ انھوں نے بہت ہی عمدہ طریقے سے ملی یکجہتی کونسل کے وفد کو خوش آمدید کہا۔ اس وفد کی آمد پر مسرت کا اظہار کیا، پاک چین دوستی کی اہمیت کو بیان کیا اور دین اسلام اور عالم اسلام سے اپنی گہری وابستگی کو بیان کیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ عالم اسلام کے مختلف ممالک کا دورہ کرچکے ہیں، جن میں سعودی عرب اور ایران بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اصفہان کی تاریخی جامع مسجد کی پرشکوہ عمارت کی بہت تعریف کی۔
انھوں نے اسلام کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ کی مخالفت کی۔ انھوں نے کہا کہ اسلام ایک سلامتی والا دین ہے۔ چین کے مسلمانوں کی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ چین کے مسلمانوں کے بارے میں مغرب نے بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری کہتے تھے کہ یو این او کے نمائندوں کو مسلمانوں کے علاقوں کے دورے کا موقع دیا جائے۔ ہم نے یو این انسانی حقوق کے نمائندوں کو چین آنے کی دعوت دی۔ اس وفد نے کاشغر، ارومچی اور سنکیانگ میں جا کر مسلمانوں سے بالمشافہ ملاقات کی، ان سے بات چیت کی اور ان سے ان کے حالات معلوم کیے۔ انھوں نے عام لوگوں سے ان کے مسائل کے بارے میں پوچھا اور بعد میں آکر امریکی پراپیگنڈہ کے برعکس یہ واضح کیا کہ چین کے مسلمانوں پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہو رہا، وہ آزادی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور بلا خوف و خطر اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں۔ اس پر امریکہ نے کہا کہ یو این کے نمائندوں نے چین کے زیر اثر اس طرح کا بیان دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے دیگر ملکوں سے بھی وفود کو چینی مسلمانوں سے ملاقات کا موقع دیا ہے، جن میں ایران سمیت متعدد مسلمان ممالک شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کرونا کے مسائل ختم ہو جائیں تو ہم آپ کو بھی چین میں آنے کی دعوت دیں گے۔ جناب لیاقت بلوچ نے کہا کہ چند برس قبل جماعت اسلامی کے ایک وفد نے بھی چین کا دورہ کیا تھا، اس موقع پر چین کی حکمران جماعت کے راہنماؤں سے ملاقات کے علاوہ چینی مسلمانوں سے بھی ملاقات کی تھی، جو چین میں ایک آزادانہ اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چینی کیمونسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے مابین ایک مفاہمتی یاداشت پر بھی دستخط ہوئے تھے، اب اگر ملی یکجہتی کونسل کا وفد چین گیا تو ہم کوشش کریں گے کہ ایک ایسی ہی قرارداد ملی یکجہتی کونسل کے ساتھ بھی طے پا جائے، اس سے روابط کے لیے مزید راستے کھلیں گے۔
جناب عبد اللہ گل نے کہا کہ میں بھی چین جا چکا ہوں اور میں نے وہاں کے مسلمانوں سے ملاقات کی ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ چین کے مسلمانوں کے بارے میں مغرب نے غلط پراپیگنڈہ کیا ہے۔ عبد اللہ گل نے کہا کہ چین کو چاہیے کہ وہ موجودہ افغان حکومت کو تسلیم کرے، اگر اسے تسلیم کرنے میں تاخیر کی گئی تو ممکن ہے کہ اس کے برے نتائج مرتب ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ افغانستان کی سرزمین پھر کسی نئی دہشت گردی یا انقلابی لہر کی زد میں آجائے۔ راقم نے اس موقع پر چینی سفارت کار سے کہا کہ پاکستان میں چینیوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات پر چین نے جس طرح کے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور ایسے افسوسناک واقعات کے بعد بھی پاکستان میں اپنے تعمیراتی اور ثقافتی پراجیکٹس کو جاری رکھا ہے، اس پر ہم آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ راقم نے بتایا کہ میری ایک کتاب ’’پاکستان کے دینی مسالک ‘‘ کے چینی ترجمے کے لیے چین کی ایک یونیورسٹی نے باقاعدہ اجازت کے لیے رجوع کیا، جو میں نے تحریری طور پر بجھوا دی تھی۔
خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ نے کہا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد صوفیاء کے درباروں سے منسلک ہے۔ میں ساڑھے سات سو درباروں کی نمائندگی کرتے ہوئے چین کے ساتھ دوستی کو خوش آمدید کہتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ دونوں ممالک کے مابین سیاسی ہی نہیں روحانی رابطوں کی بھی ضرورت ہے۔ روحانی رابطوں کے حوالے سے ایسی ہی بات جناب پیر صفدر گیلانی نے بھی کہی۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی اور اقتصادی روابط اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن روحانی روابط کی اپنے مقام پر اہمیت ہے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حافظ عبد الغفار روپڑی نے کہا کہ چین کو چاہیے کہ عرب ممالک سے بھی اپنے تعلقات کو مضبوط کرے، اس کا عالم اسلام پر بڑا اچھا اثر پڑے گا۔ جناب علامہ عارف حسین واحدی نے پاک چین دوستی پر زور دیا اور اسے دونوں ملکوں کے لیے مفید قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ دوستی بہت گہری ہے۔
اس موقع پر پیر عبدالشکور نقشبندی نے کہا کہ مانسہرہ سے اسلام آباد تک کا سفر پاک چین راہداری کی وجہ سے بننے والی شاہراوں کے ذریعے بہت مختصر ہوگیا ہے۔ سی پیک کے تمام منصوبوں کے مکمل ہونے سے یقیناً پاکستان کے عوام کو مزید سہولتیں میسر آئیں گی، جس کی وجہ سے پاکستان کے تمام لوگ چین کے شکر گزار ہوں گے۔ حافظ زبیر احمد ظہیر نے کہا کہ ہمارے قائد لیاقت بلوچ صاحب نے ہم سب کی ترجمانی کی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاک چین دوستی بہت گہری ہے اور اسے کوئی قوت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ میاں محمد اسلم کا کہنا تھا کہ سی پیک کے منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل ہونا چاہیے، اگر پہلے اس میں سستی رہی ہے تو اب اس کی تلافی ہونا چاہیے۔ میٹنگ بہت ہی خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔ وفد کے تمام ممبران کو قلم اور کتاب کے خوبصورت تحائف پیش کیے گئے، جو دونوں ملکوں کے مابین علمی اور قلمی دوستی کی خواہش کا اظہار بھی ہوسکتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں