گنجینۂ معانی۔۔ڈاکٹر اظہرؔ وحید

لفظ ایک عجب طلسم ہے۔ ایک لفظ سَو سَو دَر کھولتا ہے— معانی کے — امکانات کے!! انسان کا شرف یہ ہے کہ اس کے پاس لفظ ہے۔ لفظ کا معقول استعمال اسے اشرف بناتا ہے، غیر معقول الفاظ اسے اَرذَل کر دیتے ہیں۔ انسان کی قدرو قیمت اس کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ سے متعین ہوتی ہے۔ انسان کا انسان سے ربط اور رابطہ الفاظ کے دَم سے ہے۔

قرآن بھی مجموعۂ الفاظ ہے—خالقِ کائنات کی طرف سے نازل شدہ الفاظ — خواہ اِن الفاظ کی تفہیم ہو یا نہ ہو، ان لفظوں کو فقط دُہرا دینا ہی انسان کو ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے۔ خالق کے کلام کی کماحقہ تفہیم کسے ہو سکتی ہے؟ ان مقدس الفاظ کی کلی تفہیم صرف اسی ذاتِ اقدسؐ کے پاس ہے جس کے قلبِ اطہر پر یہ کلام اُتارا گیا ہے۔ اُمتی تو محض اپنے عصری علوم اور شعور کے مطابق اپنی سی کوشش ہی کر سکتا ہے۔ ایک اُمتی کی استعداد دوسرے اُمتی سے مختلف ہوتی ہے— کوئی اُمتی کسی پر حجت نہیں۔ اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو ہماری فہمِ قرآن کے مطابق پورا نہ اترےʻ وہ گمراہ ہے۔ قرآنی الفاظ کا مدعا لسانی اور عصری تحقیق نہیں بلکہ ہدایت ہے۔ ہدایتʻ ہدایت مانگنے والوں کے لیے ہے۔ راہِ ہدایت ʻ ہدایت یافتہ لوگوں کے ہم راہ ہو جانے سے ملتی ہے— جیسے صداقت‘ صادقین کی معیت سے نصیب ہوتی ہے— کونوا مع الصادقین۔

لفظ لازم نہیں کہ آواز کا محتاج ہو۔ کائناتِ ہست و بود کا پہلا لفظ ”کن“ ہے۔ ”کن“ آواز نہیں بلکہ ارادہ ہے۔ آواز کے لیے لازم ہے کہ کوئی آواز دینے والا ہو اور کوئی سننے والا ہو۔ دل کے بحرِ بے پیدا کنار میں پیدا ہونے والی لہر بھی لفظ ہی کہلائے گی۔ دل میں پیدا ہونے والے خیالات جلد یا بدیر الفاظ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں— جسے لفظوں کی نگہبانی عزیز ہوʻ اسے اپنے دل کا نگہبان ہونا چاہیے۔ احساسات ہوں یا خیالات— کبھی مخفی نہیں رہتے، جہاں مناسب سماعت دیکھتے ہیںʻ لفظوں کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔

یہ دنیا عالمِ اشیاء ہے— اور عالمِ اَشیاء پر عالمِ اسماء کی حکمرانی ہے۔ اَسماء میں کسی شے کو حرکت دینے اور کسی متحرک شے کو حالتِ سکون میں لانے کی قوت موجود ہے۔ کسی جرنیل کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ ”فائر(fire) “ کتنے ہی شہروں ، شہروں میں بسنے والے انسانوں اور کھیت کھلیانوں کو نذرِ آتش کر دیتا ہے۔ دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن بنانے والے چند الفاظ ہوتے ہیں۔ دو انسانوں کو رشتۂ زوجیت میں پرونے والے چند الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ ان لفظوں کی حُرمت رشتوں کو تقدس دے دیتی ہے۔ اس قدر مقدس رشتے کو تباہ و برباد کرنے والے بھی چند الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ تاج سے تاراج تک کا سفر چند لفظوں کی شست پر ہے۔ کسی کی عزتِ نفس کو روند دینے والے بھی کچھ زہرآلود الفاظ ہوتے ہیں، اور کسی کو مایوسی کے پاتال سے امید کی صبح ِ روشن میں لے آنے والے بھی چند حوصلہ افزا الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ ہنستے ہوئے کو رُلا دینا اور روتے ہوئے کو ہنسا دینا چند لفظوں کا فسوں ہے!!!

انسانی معاشرت میں اخلاق کی عمارت الفاظ کی بنیاد پر اٹھائی گئی ہے۔ الفاظ ہی کوئی مجلس بپا کرتے ہیں اور الفاظ ہی کسی نشست کو برخاست کر دیتے ہیں۔ انسان کے الفاظ کی نشست و برخاست ہی اس کے درجۂ اخلاق کا تعین کرتی ہے۔ دل میں پلنے والے احساسات و خیالات کو الفاظ کی صورت میں ڈھلنے سے پہلے اسے ایک فلٹر سے گذارنا ہوتا ہے، اور اس فلٹر کا نام ہے برداشت!! برداشت کا فلٹر جس قدر حساس ہوگاʻ انسان اسی قدر بہتر درجۂ اخلاق پر فائر ہوگا۔ ایک پڑھے لکھے شخص کو لوگوں کے چہرے پڑھنے کا ہنر بھی آنا چاہیے— اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کسی کے دل پر اور چہرے پر کیا تاثرات چھوڑ رہے ہیں۔ اگر آپ کے الفاظ سن کر آپ کا مخاطب خوف سے نکل کر عافیت میں داخل ہو رہا ہے تو آپ ایک با اخلاق انسان ہیں، اس کے برعکس اگر آپ کے الفاظ کسی کے چہرے کو منقبض کر رہے ہیں تو اپنے اخلاق کا چہرہ دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ دل اور چہرے کا باہم تعلق ہے۔ دل کے شکن‘ چہرے کو شکن آلود کر دیتے ہیں۔ شکن آلود جبیں‘ خوش کن الفاظ کا رس بھی چھین لیتی ہے۔ خوش گوار الفاظ خوش گوار ماحول پیدا کرتے ہیں۔ ناپسندیدہ الفاظ ماحول کو تلخ کر دیتے ہیں۔ ہماری تعلیم ہمیں اتنا ہنر ضرور دے کہ ہم ان الفاظ کی پہچان کر سکیں جو ہمارے مخاطب کی سماعت پر گراں گزرتے ہیں۔

اگر ہمیں اپنے الفاظ اور اخلاق کا معیار جانچنا مقصود ہو تو بس یہ دیکھ لیں کہ ہم اپنے ماتحت لوگوں سے کن الفاظ سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اپنے ماتحت کے لیے ”تم“ اور ” تُو“ کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو وہ خود کو با اخلاق ہرگز تصور نہ کرے۔ چھوٹے بندے کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا ایک بڑے بندے کا کام ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں: ”کسی غریب کی عزتِ نفس کو کبھی غریب نہ سمجھو“ مراد یہ کہ عزت سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ہر کوئی عزت کا طلب گار ہوتا ہے۔ دوسروں کی عزت کریں تاکہ وہ بھی آپ کی عزت کر سکیں۔ کسی کو ”آپ“ کہہ کر مخاطب کریں گے تو وہ بھی آپ کو یقیناً ”آپ“ ہی کہے گا۔ کسی کی بداخلاقی کو یہ اجازت ہرگز نہ دیں کہ وہ آپ کو اخلاق کے پیڈیسٹل سے معزول کر سکے۔

خوش کن الفاظ کے ساتھ ساتھ لہجے کا خوش گوار ہونا بھی ضروری ہے۔ الفاظ میٹھے ہوں اور لہجہ تلخ — اسے ہی طنز کہتے ہیں۔ طنز‘ حسد کی کوکھ سے جنم لیتی ہے— یا پھر یہ تکبر کی آگ سے نکلا ہوا ایک انگارہ ہے۔صحیح معنوں میں با اخلاق ہونے کے لیے محض خوبصورت الفاظ پر دسترس کافی نہیں بلکہ باطن کا تزکیہ بھی از حد ضروری ہے۔ منافقت‘ اخلاق کے ایسے مظاہرے کو کہتے ہیں جس کا مدعا کسی ذاتی مفاد کا حصول ہو۔ اخلاق اور رکھ رکھاؤ میں فرق روا رکھنا لازم ہے۔ خدمتِ خلق کے باب میں یہ جاننا اَز بس ضروری ہے کہ مخلوق کی خدمت سب سے پہلے اچھے الفاظ سے کی جاتی ہے— کسی کی پلیٹ میں کھانا ڈالنے سے پہلے اُس کی طشتِ سماعت میں شیریں الفاظ کا لنگر ڈالنا ضروری ہے۔

ایک مصنف الفاظ کی کرشمہ سازیوں سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ جہانِ معانی میں رسائی الفاظ کے دَم سے ہے۔ ایک معصوم بچے کی طرح الفاظ کی انگلی تھام لیں تو یہ آپ کو جہانِ معانی کی سیر کرواتے ہیں۔ بس لفظ کا ذرا سا احترام کرکے دیکھیں— یہ کیسی محترم وادیوں کی سیر کرواتا ہے۔ بعض اوقات لکھاری لکھنا کچھ اور چاہتا ہے لیکن لفظوں کے باطن میں موجزن سیلِ معانی اسے کہیں اور بہا کر لے جاتا ہے— ایک ایسی وادیِ معنی کی طرف ʻجو اُس کی چشمِ تصور میں کبھی تھی ہی نہیں ۔
گنجینۂ معنی کا طلسم‘ اُس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے

لفظ کے ساتھ وفا کریں تو یہ آپ کے ساتھ وفا کریں گے— لفظ کے ساتھ ایک مخلص تعلق قائم ہو جائے تو یہ آپ کو کہیں معلق نہیں چھوڑتے ۔ عالمِ اَمر اور عالمِ خلق کے درمیان لفظ ایک برزخ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دُعا بھی مجموعۂ الفاظ ہیں۔ فانی کا باقی کے ساتھ رابطہ گو لفظوں کا محتاج نہیں لیکن اس رابطے میں ربط و ضبط الفاظ سے پیدا ہوتا ہے— دعا کے الفاظ انسان کو اپنے رب کے قریب کر دیتے ہیں۔ لفظ وہ کلید ہے جو دلوں کے قفل کھول سکتی ہے۔ دلوں پر مرتسم ہونے والے الفاظ‘ کاغذ پر لکھے ہوئے الفاظ سے زیادہ مقدس و محترم ہوتے ہیں۔ مظلوم کی آہ ʻکسی لفظ کا لباس پہنے بغیر بھی چشمِ زدن میں فرش سے عرش تک سفر طے کر جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پیغمبرِ اخلاق ʻرسول کریمʻ خاتم النبیین ﷺنے فرمایا :”مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں“ شہرِ علمؐ میں الفاظ اپنے تمام تر معانی کے ساتھ موجود ہیں— کُل الفاظ اپنے کُل معانی کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہیں۔ وحیِ الہٰی براہِ راست حدیثِ قدسی کی صورت میں ہو یا بذریعہ جبرائیلؑ بصورتِ قرآن— سب الفاظ اپنے معانی کی ابتدا سے لے کر انتہا تک موجود ہیں۔ رہتی دنیا تک عقل و دانش کے تمام الفاظ اپنی حقیقت کی سند پانے کے لیے مدینۃ العلمؐ کی طرف رجوع کرتے رہیں گے۔ تخلیق و تکوین کے تمام الفاظ شہرِ علمؐ میں میسر آئیں گے— اور بلاغت کی نہج دَرِ علمؑ سے دستیاب ہو گی!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply