جعلی داعی اور فتویٰ فیکٹری۔۔عامر کاکازئی

جب اسلام کی دعوت عام کرنے کا حکم ہوا تو ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر جگہ گئے ، مختلف لوگوں سے ملے، سب سے انہوں نے خوش اخلاقی سے بات کی، جواب میں ان کو بُرا بھلا کہا گیا۔ مارا گیا، طائف کی گلیوں میں ان کو لہو لہان کیا گیا، حتی کہ اللہ کے کہنے کے باوجود انہوں نے طائف والوں کو سزا دینے سے انکار کر دیا۔ کیوں؟ کیونکہ داعی کا کام نفرت کے جواب میں محبت سے بات کرنا ہوتی ہے۔ داعی کا کام محبت بانٹنا ہے، نہ کہ نفرت کا بیوپار ی بننا۔

یزید کے دربار میں ایک نہتی عورت زینب بنت علی جس کے بھائی اور پورے خاندان کو بےدردی سے شہید گیا تھا ، مگر اس عورت نے یزید کو گالی نہیں دی بلکہ عزت و وقار سے خدا کا فرمان پڑھا۔”سب تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت پر۔ بالآخر ان لوگوں کا انجام بُرا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا” مگر انہوں نے یزید کو  گالی نہیں دی، کیوں؟ کیونکہ داعی کا پیغام محبت ہے۔ اللہ کا پیغام بھی محبت سے پہنچانا ہے۔

برصغیر میں لاتعداد داعی گزرے اور انہوں نے مذہب کی تراویج پیارو محبت سے کی۔ حضرت داتا گنج بخش، حضرت معین الدین چشتی ، حضرت لال شہباز قلندر، حضرت بابا فرید، وغیرہ۔ ان سب داعیوں نے اسلام محبت سے پھیلایا نہ کہ نفرت سے۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کا فرمان ہے کہ “معاملے کے وقت اس قسم کی گفتگو کرنی چاہیے جس سے گردن کی رگیں نمودار نہ ہو ں،یعنی تعصب اور غضب کی علامت نہ پائی جائے۔”
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا فرمان ہے کہ ” دشمن کو دل کی مہربانی اور احسان سے جیتو اور دوست کو نیک سلوک سے”

سوشل میڈیا پر بیرون ملک میں رہنے والے کچھ پاکستانی جعلی داعی بن کر صرف کمنٹس اور لائک حاصل کرنے کے لیے پاکستانیوں کے خلاف غداری اور کفر کے فتویٰ بانٹ رہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے فخریہ اپنے اپ کو داعی اسلام کہلوانا پسند فرماتے ہیں۔ مگر جب کوئی ان پر یا ان کے پاکستانی لیڈر یا اس لیڈر کو سپورٹ کرنے والی مخلوق اور جو ریاست کے غلط اقدام اور مظالم پر تنقید کرے گا،تو وہ شخص ان کے فتویٰ کے مطابق ایک ” نجس جانور” ہے، ایک غدار ہے۔ اب حضور کام  آپ کا لیڈر نہیں کر رہا مگر۔۔۔ڈگی کھوتے توں تے غصہ کمہار تے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ
اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تم کو ان پر نگہبان مقرر نہیں کیا۔ اور نہ تم ان کے داروغہ ہو۔ ۶:۱۰۸
جب خدا نے کسی رسول کو کسی انسان کا نگران مقرر نہیں کیا تو کسی اورانسان کو یہ حق دیا جا سکتاہے کہ وہ غداری یا کافر کا فتوے بانٹے؟
اسی پارہ میں ایک دوسری جگہ پر قرآن میں کچھ اس طرح اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو بُرا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بے سمجھے بُرا (نہ) کہہ بیٹھیں۔ اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے کے اعمال (ان کی نظروں میں) اچھے کر دکھائے ہیں۔ پھر ان کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے۔ ۶:۱۰۹
سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے بتوں کو بھی برا بھلا کہنے سے روکا ہے تو  آپ کس حق کے تحت کسی دوسرے کو گالی دیتے ہیں؟

بہت ادب اور احترام کے ساتھ سوال ہے۔ کیا ایک اسلام کے داعی کا دعویٰ کرنے والے کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ یوں اختلاف رائے رکھنے والوں پر غداری کا فتویٰ لگا کر بائیس کروڑ عوام کو گالی دے؟ کیا پندرہ سو سال سے تمام داعی گالیاں دے کر اسلام کو پھیلاتے رہے  ہیں؟

محترم ذیشان ہاشم صاحب نے اپنی ایک تحریر میں وطن اور ریاست سے محبت کا فرق کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔ “وطن سے مراد وہ دھرتی ہے جس کی  آغوش میں ہم پلتے اور جواں ہوتے ہیں۔ وطن معصوم بے ریا مخلص اور پاک ہوتا ہے، جبکہ ریاست ایک سیاسی ادارہ ہے جس میں طاقت کا ارتکاز اور جبر پایا جاتا ہے۔ ریاست ہمیشہ طاقت کی بولی بولتی ہے ،جبر زبردستی دھونس دھوکہ اور شہریوں کو محکوم رکھنے کی خواہش اس کی فطرت ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک ایسے شخص کو ایک ایسی ریاست کی محبت میں کیا وطن سے محبت رکھنے والوں کو گالیاں دینے کا حق ہے جس نے اس ریاست کو طلاق دے کر کسی اور ریاست سے نکاح پڑھا لیا ہو؟

بیرونی ملک کے پاسپورٹ کے تکبر میں رہنے والے کو حضرت امام حسین کا یہ والا فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ” تکبر سے دین اور ایمان جاتا ہے چنانچہ شیطان تکبر کی وجہ سے مردود اور ملعون ہوا” حضور ہم مانتے ہیں کہ ہم بہت ہی غریب ملک کے باشندے ہیں، جس کے پاسپورٹ کی کوئی وقعت نہیں، مگر حضور کبھی  آپ بھی اسی پاسپورٹ کے  ذریعے بارلے ملک گئے تھے۔ اب اسی پاسپورٹ کے باسیوں کو گالیاں؟ بڑے ادب سے یہ درخواست کریں گے کہ آپ ملکہ برطانیہ اور امریکہ سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں، ان کے وفادار بن چکے ہیں تو اب ہم غریب پاکستانیوں سے کیا لینا دینا؟

اسی طرح کسی ریاست کی محبت میں گرفتار ہو کر کسی وطن کے لوگوں کو گالیاں دینا بھی کچھ ایسا ہے کہ جیسے مجاہد خٹک صاحب نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ ایک حسین لڑکی کو یہ سوچ کر حاصل کرنا کہ تمام عمر خوش رہوں گا، ایسے ہے جیسے کوئی شربت کا گھونٹ اس امید پر منہ میں رکھ کر بیٹھ جائے کہ اس سے مستقل لطف اندوز ہوتا رہوں گا۔ یہ ناممکن بات ہے۔

ایک درخواست ہے کہ ازراۓ کرم کچھ ہزار لائیکس حاصل کرنے کے لیے اپنے  آپ کو داعی کہلوانا بھی چھوڑ دیں۔ کہ داعی رسولوں ، نبیوں، بزرگوں کا کام ہے، جو بہت نرم دل اور زبان کے میٹھے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ عزت والے لوگ ہیں،ان کی بے عزتی مت کیجیے۔ براۓ کرم ہمارے امن کے مذہب کو اپنی بُری حرکتوں کی وجہ سے دہشتگردوں کا مذہب مت بنائیں ۔انگلینڈ ، امریکہ یا کینیڈا کے کسی پب میں بیٹھ کر جعلی داعی مت بنیے۔آپ کی مہربانی!

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں ہم معافی کے طلب گار ہیں اگر ہماری کسی تحریر یا کمنٹ سے کسی کو بھی کوئی تکلیف پہنچی ہو، مگر آپ سے، سر جھکا کر، ناک زمین پر رگڑ کر دل سے یہ ونتی کرتے ہیں، درخواست کرتے ہیں کہ آپ سب ایکس پاکستانی جو اس وقت بیرون ملک میں ہیں، ہم  پاکستانیوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں۔ حد درجہ معذرت خواہ۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔