پاپی۔۔تبصرہ/افضل خان نیّر

گزشتہ سال مرزا یاسین بیگ صاحب نے ایک تحفہ مجھے بھیجا تھا اس کے بارے میں اپنا اظہار ِ خیال پیش خدمت ہے :

یاسین بیگ صاحب کا ایک پارسل جسے میں سالِ  نوء کا تحفہ کہوں گا، وصول ہوا جس کے لیے میں مرزا یاسین بیگ صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ یہ تحفہ میرے لیے نہ صرف باعث مسرت بلکہ باعث اعزاز ہے۔

پارسل کھولا تو اس میں ایک کتاب بنام ”پاپی“ نکل آئی  ،جو ڈاکٹر خالد سہیل اور مرزا یاسین بیگ کی مشترکہ تصنیف ہے جو خطوط کی شکل میں لکھی گئی۔ ان خطوط کا خیال ڈاکٹر خالد سہیل کا ہے جو ایک افسانوی شکل میں لکھا گیا۔

ادب میں خطوط نویسی کے تعلق سے سب سے پہلے مرزا غالب کا خیال آتا ہے ان کا تو ” ہےانداز ِ بیان اور ۔۔ ”  خطوط تو مختلف ادیبوں شاعروں سیاست دانوں کے چھپتے رہے ۔ افسانوی خطوط میں قاضی عبدالغفار کی تصنیف لیلی’کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری بھی ادب کا ایک اہم حصہ ہے لیکن یہ ایک ہی فرد کی تحریرہے ۔
پاپی ایک بالکل مختلف اور منفرد تصنیف ہے جسے دو مصنفین نےتحریر کیا۔دونوں مصنفین کی یہ انوکھی اور دلچسپ تحریر قابل تحسین ہے۔ میرے خیال میں اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔

یہ خطوط عرفان قمر (ڈاکٹر خالد سہیل) اور رضوانہ ( مرزا یاسین بیگ ) کے مابین مراسلت کیے گئے۔عرفان قمر جو اپنے آپ کو پاپی کہتا ہے یہی اسکی عرفیت بھی ہے ۔یہ کردار کافی حد تک مصنف جیسا ہی ہے ۔

پاپی اتنا پیارا ہے کہ جوکبھی پاپ کا سوچ بھی نہیں سکتا ، پینٹ ہاؤس میں مجردانہ زندگی بسر کرنے والا آزاد خیال جسے آرٹ ،موسیقی ، ادب ،فلسفہ و دیگر فنون لطیفہ کا شوق ہے ایک پروفیسر ہے جو پاپ نہیں بلکہ صرف پیار کرتا ہے پیاربھی سب سے بلا امتیاز رنگ و نسل ۔ایک انسان دوست   ہے ۔ تھنک ٹینک کا بانی جو آئے  دن علم و فلسفہ کے سیمینارمنعقد کرتا رہتا ہے یا ان میں شرکت کرتا رہتا ہے۔
جی چاہتا ہے کاش میں بھی ویسا ہی پاپی ہوتا ۔

کتاب کے آغاز میں ُ “ہم سب کے نام جو پاپی ہیں ” سے منسوب کیاگیا ۔
شکر ہے بقول مصنف میں ہی نہیں بلکہ ہم سب ہی پاپی ٹھہرے۔

ڈاکٹر خالد سہیل (عرفان خالد )نے بڑی ذہانت سے رضوانہ کا کردار تخلیق کیا ۔پہلے ہی خط میں لکھتے ہیں ، ” کیا تم وہی رضوانہ ہو ؟ “ اور پھر رضوانہ کی کردار سازی کا آغاز ہوتا ہے ۔اسکا وہ کردار جب وہ کالج کی اسمارٹ سرگرم طالبہ تھی ۔اس کردار کی مزید آبیاری مرزا یاسین بیگ ( رضوانہ) کرتے ہیں ۔

عرفان قمرنہایت اخلاق اور تہذیب کے دائرے میں خطوط لکھتے ہیں اور جب رضوانہ سے جوابی خطوط کا سلسلہ شروع ہوتا ہےتو نئے نئے کردار تخلیق ہوتے جاتے ہیں۔

مرزا یاسین بیگ ایک مشہور مزاح نگار ، ادا کار ،صدا کار اور صحافی ہیں نہائت خوش مزاج جواں دل ،با اخلاق ، روشن خیال اور اعتدال پسند شخصیت کے مالک ہیں۔
مرد ہوکر جس طرح عورت (رضوانہ)کے روپ میں عرفان کو جوابات لکھتے ہیں وہ حیرت انگیز اور انتہائی  دلچسپ ہیں۔ کتاب پڑھتے وقت قطعی  مرزا یاسین بیگ کا خیال تک نہیں آتا بلکہ قاری رضوانہ ہی سمجھ کر کتاب پڑھتا چلا جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اردو میں شاید ہی کوئی  ایسی کتاب تحریر کی گئی  ہوگی۔

مرزا یاسین بیگ ہی رضوانہ کے کردار کو نہ صرف مضبوط کرتے ہیں بلکہ دیگر کئی  اور کردار تخلیق کرتے جاتے ہیں اور کہانی کو بڑھاوا دیتے ہیں ۔رضوانہ کی پروفیسر کا کردار ، اسکی ماں کا کردار جو پاکستانی مڈل کلاس خاتون ہیں ۔ پھر آگے بھائی  شارق کا کردار ،نبیلہ کا کردار، رضوانہ کی اپنی شادی کی کہانی، بچوں کا ذکر، اسکے شوہر حسین کا کر دار ،جو کہ ایک سیاسی جماعت کا اہم کارکن ہوتاہے۔ ان خطوط میں پاکستانی سیاسی و سماجی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ مرزا یاسین بیگ جب رضوانہ کے شوہر کا ذکر کرتے ہیں تو پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کی انتہائی  بھیانک تصویر سامنے آتی ہے پھر در شہوار وغیرہ کا ذکر آتا ہے تو اُف۔۔ نہائیت ہیبت ناک مناظر آنکھوں میں گھومتے ہیں۔

رضوانہ کا پاکستان سے کینیڈا آنے کاذکر کہانی کا دلچسپ ترین حصہ ہے , رضوانہ کا امیگریشن کا منصوبہ کینیڈا آنے والوں کے نئے نئےطریقے پھر یہاں کینیڈا کی آزادی کا تذکرہ ،بس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

عرفان قمر کے خطوط میں بھی کئی  کردار تخلیق ہوتے ہیں ،ہادیہ کا کردار , نوید کا کردار , مصور کا کردار ،اسکے علاوہ ساحرہ کا کردار ۔
عرفان قمر رضوانہ کو جنت بی بی کا نام دیتے ہیں ۔
عرفان قمر کے خطوط تو ادبی ذوق کا مرقع ہیں ہر خط کے جواب میں ایک نظم یا غزل پھر وقتاً فوقتاً  اشعار کا استعمال ،کینیڈا کے حسین مناظر ادبی محفلوں کا ذکر آزاد، خیال دوستوں کا تذکرہ ، انکی گرل فرینڈز کے تذکرے ، رضوانہ سے ملاقات کا تذکرہ تو نہایت دلچسپ منظر پیش کرتا ہے ۔۔واہ!

مصنفین ڈاکٹر خالد سہیل اور مرزا یاسین بیگ قابل صد تحسین ہیں اور کہانی قابل تعریف ہے۔ ہر خط میں عشق و محبت سے لبریز نظمیں غزلیں ہر خط میں ایک نئی  داستان اور ہر داستان میں عہد کے مختلف مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ یہ خطوط درا صل مسلسل ایک کہانی ہے اور قابل غور ہے جس میں پاکستان و کینیڈا کےسماجی حالات کا ذکر ہے۔
خصوصاً  پاکستان کے  سیاسی حالات اور دہشت گردی کے خوفناک واقعات پڑھتے وقت لگتا ہے یہ ایک جاسوسی ناول ہے جبکہ ساری کتاب ادب کا بہترین نمونہ ہے ۔کہانی میں سسپنس  ہی سسپنس ہے لیکن جب کہانی کا کلائمکس آتا ہے اور کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے تو مجھے یوں لگا کہ ابھی سسپنس باقی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ – کیا ہی بہتر ہو گا اگر مصنفین اس کہانی کو جاری رکھیں اورایک اور کتاب ”رضوانہ کی واپسی “ کے نام سےتحریر کی جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply