ٹارگٹ،ٹارگٹ،ٹارگٹ۔کرنل ضیا شہزاد۔قسط12

سند یافتہ طوطے!
گنرز کو طوطوں سے تشبیہہ کیوں دی جاتی ہے اس بارے میں تو ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ بڑے سے بڑا طوطا بھی توپ چلانے اور رٹا لگانے میں آرٹلری افسروں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پی ایم اے میں بیشتر کیڈٹ آرٹلری میں جانے سے اس لیے بھی خائف ہوتے ہیں کہ سینئرز کی جانب سے پہلے ہی خبردار کر دیا جاتا ہے کہ توپخانے میں پڑھائی اور رسوائی دونوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ پاس آؤٹ ہونے سے پہلے پی ایم اے میں ہم سے آرمز کی تین چوائسز پوچھی گئیں تو ہم نے جواب میں خوب سوچ سمجھ کر سگنل، آرڈیننس اور انجینئرنگ کور تحریر کیا۔ ہم بھولپن میں اپنے تئیں یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ چونکہ ان میں سے کوئی بھی آرمA کے حرف سے شروع نہیں ہوتی اس لیے  یقیناًآرٹلری میں جانے سے بچ جائیں گے۔ لیکن تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ کے مصداق پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ آرمز الاٹ کرنے والوں نے الٹا یہ سمجھا کہ کیڈٹ کو ان تینوں آرمز سے شغف ہے لہٰذا انہوں نے ہماری چوائس میں سے کوئی ایک آرم دینے کی بجائے ہمیں آرٹلری میں بھیجنا مناسب سمجھا تاکہ اس میں جاکر ہم ان تینوں آرمز کا اکٹھا مزہ لے سکیں۔

پاس آؤٹ ہونے کے بعد جب ہم نے گھبرائے گھبرائے یونٹ میں رپورٹ کی تو پہلے ہی دن ہمیں کتابوں کے دو عدد بھاری بھرکم مجلد سیٹ تھما دیے گئے جنھیں پمفلٹ سیٹس کا نام دیا گیا تھا۔ہر ایک میں کم از کم دس ضخیم کتابیں اکٹھی جلد کی گئی تھیں۔ ان پمفلٹ سیٹس کو دیکھ کر سوچا کہ کہنے والے ٹھیک ہی کہتے تھے کہ خالم خولی توپ چلانا تو شایداتنا مشکل نہ ہو لیکن ساتھ میں علم کا اس قدر بوجھ اٹھانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ ہر کتاب بجائے خود الفاظ اور معانی کا ایک بے کراں سمندر تھا جس میں ہم جیسے نان سوئمر کو ہاتھ پاؤں باندھ کر دھکیل دیا گیا تھا۔ کہاں پی ایم اے سے اٹیک ، ڈیفنس ، ریڈ اور ایمبش کی مالا جپتے ہوئے پاس آؤٹ ہوئے تھے اور کہاں سب کچھ بھول بھال کر، ڈیفلیکشن، ایلیویشن، فکسیشن، اوریئنٹیشن اور اسی قبیل کی سیکڑوں ہزاروں اصطلاحات رٹنے سے پالا پڑ گیا تھا جن سے ہمارے فرشتے تک ناواقف تھے۔ کتابوں کے ان پلندوں کی جانب دیکھتے ہی ہماری طبعیت اچاٹ سی ہونے لگتی چنانچہ پڑھنے کے بجائے ان سے ورزش کے لیے ڈمبلوں کا کام لیتے ۔

یونٹ میں لیفٹیننٹ احسن ہمارے استاد مقرر ہوئے جو ہم سے دو کورس سینئر تھے اور تازہ تازہ سکول آف آرٹلری سے چھ ماہ کا بیسک کورس مکمل کر کے لوٹے تھے۔ ہم بھی دو ماہ بعد اسی کورس پر جانے والے تھے۔ کتابیں ہم پر لادنے کا مقصد بھی ہمیں اس کورس کے لیے پہلے سے تیار کرنا تھا تاکہ ہم کورس پر جاکر بہتر پرفارم کر سکیں۔ لیفٹیننٹ احسن نے ہمیں سب سے پہلے دو اصطلاحات (فکسیشن اور اوریئنٹیشن) کی تعریف رٹنے کے لئے کہا ۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ حضور رٹا لگانے سے بہترنہ ہوگا کہ آپ ہمیں ان اصطلاحات کا مطلب ہی سمجھا دیں۔اس پر موصوف بہت برہم ہوئے جیسے ہم نے کوئی انتہائی نامناسب بات کہہ دی ہو۔’’نواں آیاں ایں سوہنیا‘‘ والے سٹائل میں کہنے لگے ’’برخوردار! آرٹلری میں رٹا پہلے لگایا جاتا ہے اور سمجھا بعد میں جاتا ہے۔ اگر ترتیب الٹ ہو جائے تو گرم سرد ہو کر دماغ الٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے‘‘۔ کچھ پس و پیش کے بعد سرِ تسلیم خم کرتے ہی بنی اور ہم نے بھی طوطے کی طرح رٹا لگانے کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ دو دن کی لگاتار محنت کے بعد اس قابل ہوئے کہ دونوں اصطلاحات ہمیں ازبر ہو گئیں۔

چند دن کے بعد سی او نے ہمارا انٹرویو کیا ۔ انہوں نے پوچھا کہ بیسک کورس کی تیاری کر رہے ہو؟ ہم نے فوراً اثبات میں گردن ہلا دی۔بولے : اچھا پھر فکسیشن اوراوریئنٹیشن کی تعریف سناؤ۔ دونوں تعریفیں یاد تو تھیں ہی چنانچہ ہم نے ایک ہی سانس میں فرفر سنا دیں۔ اس شاندار پرفارمنس پر انہوں نے کرسی سے اٹھ کر ہمیں داد دی اور ساتھ ہی ساتھ مزید محنت جاری رکھنے کی بھی تلقین کی۔ہم دفتر سے ہنستے مسکراتے باہر نکلے اور دونوں پمفلٹ سیٹ بغلوں میں دبا کر ٹی بار کا راستہ پکڑا جہاں لیفٹیننٹ احسن ہمارا انتظار کر رہے تھے۔موصوف ہمیں دیکھتے ہی خوشی سے بغلگیر ہو گئے اور میس حوالدار کو ہماری طرف سے چائے اور مٹھائی کا آرڈر دینے کے بعد فرمانے لگے ’’تم نے گنری کا پہلا ٹیسٹ پاس کر لیا ہے۔اب کورس پر جانے تک تمہیں کچھ پڑھنے پڑھانے کی ضرورت نہیں باقی پڑھائی کورس پر جا کر کر لینا۔‘‘اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ، ہم نے بھی پمفلٹ سیٹس کو بکسے میں بند کر کے تالا لگایا اورچابی بیٹ مین کے حوالے اس ہدایت کے ساتھ کی کہ اسے ایک گہرا گڑھا کھود کر دفن کر دیا جائے۔ باقی کے دن ہم نے میس میں فلمیں دیکھ کر اور صدر بازار پشاورکے چکر لگا کر گزارے۔

کورس پر تو ہمارے ساتھ جو ہوا سو ہوا لیکن جب ہم سکول آف آرٹلری سے باقاعدہ سند یافتہ طوطے بن کر یونٹ میں واپس آئے تو سی او کے انٹرویو سے پہلے ہر نئے سیکنڈ لفٹین کو فکسیشن اوراوریئنٹیشن کا سبق رٹانا نہ بھولے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہمارے سی او کا علم مرورِ زمانہ کا شکار ہو کر صرف فکسیشن اوراوریئنٹیشن ہی تک محدود ہو چکا تھا اور باقی معاملات میں وہ اندازے سے ہی کام چلاتے تھے چنانچہ نئے لیفٹینوں کے علم کی گہرائی ناپنے کے لئے انہی دو اصطلاحات کا پیمانہ استعمال کرنا ان کی مجبوری بن چکا تھا۔

اب آپ سے کیا پردہ، جب ہم بذاتِ خود سی او بنے تو جونئیر افسروں کا نالج چیک کرتے ہوئے ہمیں بھی فکسیشن اور اوریئنٹیشن کے سوا کچھ اور یاد نہیں آتا تھا۔

روزے، انسپیکشن اور پوسٹیں!

Biennial Fitness for War Inspection
جسے عرفِ عام میں ایڈم انسپیکشن بھی کہا جاتا ہے ،کسی بھی یونٹ کا پورے دو سال کے وقفے سے وقوع پذیر ہونے والا ایک اہم ترین ایونٹ ہوتا ہے۔ انسپیکشن ٹیم میں بالا ہیڈکوارٹر کے افسران شامل ہوتے ہیں۔عموما ً یہ ٹیم لامحدود اختیارات کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اس کا کام یونٹ کے تمام سامان کی انسپیکشن کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی آپریشنل تیاری کے بارے میں رپورٹ مرتب کرنا ہوتا ہے۔۔ یونٹ کو بہت پہلے سے اس انسپیکشن کے بارے میں مطلع کر دیا جاتا ہے اور مہینوں پہلے سے نہایت زور و شور سے تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ تمام عمارتوں کو اندر باہر سے ازسرِنو رنگ و روغن کیا جاتا ہے، سب دستاویزات کو اچھی طرح سے چیک کرنے کے بعد ان میں موجود کمی بیشی دور کی جاتی ہے، گاڑیوں اور دوسرے سامان کی مرمت کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام افراد کو فائرنگ رینج پر لے جا کر فائر کی مشق کروائی جاتی ہے۔ پی ٹی اور ڈرل پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ ایڈم انسپیکشن کرنے والی ٹیم کے ہاتھ کوئی پوائنٹ نہ آنے پائے اور یونٹ کو اچھی گریڈنگ مل سکے۔

بعض علاقے ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں پر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ سب تیاریاں کرنا شاید ممکن نہیں ہوتیں جیسے سیاچن اور ایف سی این اے کے دوسرے علاقے۔ ایسی جگہوں پر موسم کی سختی اور یونٹ کے دور دراز علاقوں میں پھیلے ہونے کے باعث تیاری کا وہ اعلیٰ معیار قائم کرنا مشکل ہوتا ہے جو عام چھاؤنیوں میں دکھائی دیتا ہے۔لیکن کیا کہیے کہ کتابی طور پر تمام یونٹوں کے لیے ایک سا ہی معیار مقرر ہے البتہ یہ انسپیکشن ٹیم پر منحصر ہے کہ وہ علاقے اور ماحول کی مناسبت سے کیا طریقہ کار اختیار کرتی ہے ۔ ہم 2006 میں بطور میجر ،ہیڈکوارٹر آرٹلری ایف سی این اے میں پوسٹ ہو کر سکردو پہنچے تو کلرک نے ہمارے سامنے کمانڈر کا منظور کردہ شیڈول رکھ دیا جس کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں ہمیں دو یونٹوں کی ایڈم انسپیکشن پر مامور کیا گیا تھا۔

وقتِ مقررہ پر ہم نے سکردو کو خدا حافظ کہا اور اپنی ٹیم کے ہمراہ دیوسائی پلین کراس کرتے ہوئے پہلی یونٹ کے ہیڈکوارٹر میں پہنچ گئے۔ ٹیم میں ہمارے علاوہ ہردلعزیز سٹاف کیپٹن ،کیپٹن کامران اور تین کلرک بھی شامل تھے۔ یونٹ والوں نے ہمارا شایانِ شان استقبال کیا۔ ہم بتانا بھول گئے کہ وہ رمضان کے دن تھے اور ہم سب روزے سے تھے۔ سی او ، ٹو آئی سی اور دوسرے افسران بھی میس میں موجود تھے ۔سب نے مل کر یونٹ کی مشکلات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ ہمارا دل پسیج گیا۔ ہم خود بھی اس سے پیشتر سیاچن کی دو عدد پوسٹنگز گزار چکے تھے اوران تمام مشکلات سے بخوبی واقف تھے۔ خیرایک اچھا سا افطار کم ڈنر کرنے کے بعد ہمیں ہمارے کمرے میں پہنچا دیا گیا ۔ ہم نے اور کیپٹن کامران نے باہمی مشورہ سے فیصلہ کیا کہ یونٹ کی مشکلات دیکھتے ہوئے زیادہ سختی کرنا مناسب نہیں لہٰذا تھوڑے لکھے کو بہت سمجھا جائے اور ’’ہتھ ذرا ہولا‘‘ ہی رکھا جائے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد اگلے دو دن ہم نے یاد الٰہی میں بسر کرنے کے ساتھ ساتھ انواع و اقسام کے کھانوں اور فلموں سے لطف اندوز ہونے میں گزارے۔

قسمت کی خرابی دیکھئے کہ تیسرے دن سی او نے کمانڈر کو فون کیا۔ برسبیل تذکرہ کمانڈر نے پوچھا کہ آپ لوگوں کی ایڈم انسپیکشن کیسی جا رہی ہے۔ سی او نے فوراً جواب دیا’’سر آپ نے بہت اچھی ٹیم بھیجی ہے، انہوں نے ہمارا بہت خیال رکھا ہے اور زیادہ گہرائی میں جا کر چیکنگ نہیں کی‘‘۔کمانڈر نے ان موصوف کو تو کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا لیکن ہمیں فون کر کے بے نقط سنائیں جو ہم اچھے جونئیر کی مانند سنتے رہے ۔ہمارے پاؤں تلے سے زمین اس وقت نکلی جب انہوں نے فرمایا کہ آپ اور سٹاف کیپٹن دونوں اس سیکٹر میں موجود تین پوسٹوں پر باری باری جائیں اور واپسی پر مجھے رپورٹ کریں۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ بھلائی کے جواب میں ان سی او صاحب کی نادانی کے باعث ہمیں یہ دن دیکھنا بھی نصیب ہو سکتا ہے۔ آخر مرتے کیا نہ کرتے، ٹو آئی سی سے درخواست کی کہ ہماری پوسٹ یاترا کا انتظام کیا جائے۔ انہوں نے ہمارے لیے ایک خچر کا بندوبست کیا جس پر بیٹھ کر ہم روزے کی حالت میں پوسٹوں کا چکر لگاتے اوروہاں سے کمانڈر کو فون کر کے اطلاع دیتے۔تین دن بعد ہم نے اس یونٹ کو خدا حافظ کہا اور دوسری یونٹ کی راہ لی۔ اب کمانڈر نے ہمارے لیے سوائے روائتی سختی کے اور کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا تھا۔

دوسری یونٹ والے پہلی یونٹ سے ہمارے بارے میں تفصیلات معلوم کر چکے تھے اور انہیں یہی بتایا گیا تھا کہ زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ انسپیکشن ٹیم کا رویہ انتہائی نرم ہے۔ لیکن ان کی تمام تر امیدوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب ہم نے یونٹ میں پہنچتے ہی میس میں جانے کی بجائے سیدھا ٹریننگ گراؤنڈ کا رُخ کیا۔تمام یونٹ کا سامان گراؤنڈ میں اکٹھا کروا کر ہم نے ایک ایک چیز کی محدب عدسے سے انسپیکشن کرنا شروع کی۔ سی او اور ٹو آئی سی نے ہمیں میس کا راستہ دکھانے کی بہتیری کوشش کی لیکن ہم نے سنی اَن سنی کرتے ہوئے پوری یونٹ کوTwo Mileٹریک پر فالن ہونے کا حکم جاری کر دیا۔ انہوں نے ہمیں رام کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائے لیکن ہم نے نہ ماننا تھا نہ مانے اور گاڑی لے کر بذاتِ خود پورا فاصلہ ناپنے نکل کھڑے ہوئے۔ افسروں سمیت سب لوگ ٹریک سوٹ میں ملبوس سٹارٹ پوائنٹ پر پہنچ گئے۔ ٹو آئی سی ہم سے بہت سینئر تھے اور لیفٹیننٹ کرنل اپرووApproveہو چکے تھے۔وہ ذرا سی دور ایک سٹول پر براجمان تھے۔ ہم نے ان سے درخواست کی کہ براہ مہربانی آپ بھی اس ٹیسٹ میں شامل ہوں ۔ یہ سن کر وہ سٹول سے گرتے گرتے بچے اور رحم طلب نظروں سے ہماری جانب دیکھا لیکن دوسری جانب ہمیں کمانڈر کا خوفناک چہرہ اپنی آنکھوں کے عین سامنے نظر آ رہا تھا لہٰذا ہم نے ان کی جاں بخشی کی درخواست مسترد کر دی۔

قصہ مختصر یہ کہ آنے والے تین دن اس یونٹ پر بہت گراں گزرے۔ تنگ آ کر سی او نے کمانڈر کو فون کیا اور مطلع کیا ’’سر! آپ نے انتہائی سخت ٹیم بھیجی ہے جس نے پوری یونٹ کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ آپ براہِ مہربانی انہیں جلد سے جلد واپس بلائیں اور کسی اور یونٹ میں بھیجیں۔‘‘ یہ الفاظ سن کر کمانڈر کی دلی تسکین ہو گئی۔ انہوں نے ہمیں فون کر کے شاباش دی اور دو دن اور لگا کراس یونٹ کی مزید اچھی طرح سے انسپیکشن کرنے کو کہا جس پر ہم نے دل وجان سے عمل کیا۔ جب ہم خود سی او بنے تو اس بات کا بطور خاص خیال رکھا کہ کسی قسم کی انسپیکشن کے دوران کمانڈر سے فون پر ہرگز بات نہ کی جائے۔

بریانی اور ایڈز!
پنوں عاقل میں رہتے ہوئے سندھی کھانوں کا بہت چرچا ہوتا۔ ایک دن تمام افسروں کے پرزور اصرار پر سی او نے میس حوالدار کو طلب کیا اور اسے کک کو سندھی کھانوں کی ٹریننگ کے لیے سکھر میں واقع ایک بڑے ہوٹل میں بھجوانے کی ہدایات جاری کیں۔ ایک مہینے کی ٹریننگ کے بعد کک واپس یونٹ میں پہنچا تو میس حوالدار کے بقول وہ تمام سندھی کھانے بنانے میں طاق ہو چکا تھا۔ اس کی آزمائش کے لئے ایک ڈنر کا اہتمام کیا گیا جس میں اور کھانوں کے ساتھ ساتھ سندھی بریانی کو بطورِ خاص شامل کیا گیا تھا۔ کھانا مزیدار بنا تھا اور سندھی بریانی نے بالخصوص سب کو بہت متاثر کیا۔ ڈنر ختم ہوا اور سب لوگ گھروں کو واپس ہوئے۔ صبح اٹھ کرحسب معمول واش روم کا رخ کیا تو پیشاب کا رنگ دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ پیشاب کا رنگ سرخی مائل نارنجی ہو چکا تھا ۔

ذہن پر زور دینے سے یاد آیا کہ گزرے وقتوں میں جب گھروں کے نلکوں میں کارپوریشن کا پانی آیا کرتا تھاتوصفائی کے لیے کبھی کبھار واٹر ٹینک میں لال دوائی ڈالی جاتی تھی جس سے پانی کا رنگ ہلکا گلابی ہو جاتا تھا۔ہم قدرے پریشان ہوئے کہ ہو نہ ہو ہم نے لال دوائی کی طرح کی کوئی زہریلی چیز کھا لی ہے جس سے ہمارا یہ حال ہو چکا ہے۔ ذہن پر بہتیرا زور ڈالنے کے باوجود ہمیں کوئی ایسی بداحتیاطی یاد نہیں آئی جو حالیہ دنوں میں ہم سے سرزد ہوئی ہو۔ہم اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ انجانے میں ضرورکسی مہلک بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ جلدی جلدی یونیفارم پہن کر دفتر کا رخ کیا۔ دفتر پہنچ کرابھی سوچ ہی رہے تھے کہ سی او کے پاس جا کر صورتحال ان کے گوش گزار کریں کہ سی او کا بیٹ مین حیران پریشان ہمارے دفتر میں داخل ہوا اور کہنے لگا ’’سر! خدا کے واسطے مجھے بچا لیں، مجھے ایڈز ہو گئی ہے۔‘‘ ہم نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا ’’سر!مجھے آج صبح سے پیشاب میں خون آ رہا ہے ۔ میں نے یونٹ کے میڈیکل این سی او سے ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ یہ تو سیدھی سیدھی ایڈز کی علامت ہے اور اب تم کچھ ہی دیر کے مہمان ہو۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

ہم اس کو تسلی کیا دیتے کہ خودصبح سے اسی عارضے کا شکار تھے۔ ابھی اپنی وصیت قلم بند کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ سی او نے آفس میں طلب کر لیا۔ ہم نے سی او کے بیٹ مین کو ساتھ لیا اور ان کے آفس میں پہنچ گئے۔ سی او کے کچھ کہنے سے پہلے ہم نے ڈرتے ڈرتے تمام معاملہ ان کے گوش گزار کر دیا۔ وہ بولے کہ میں تو خود صبح سے اسی پریشانی میں مبتلا ہوں، جلدی سے سب افسروں کو میرے آفس میں طلب کرو۔ بات کھلی تو پتہ چلا کہ ہم تنہا اس رسوائی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ شہر کا شہر بیمار ہوا پھرتا ہے۔ ٹو آئی سی نے غصے میں آکر میس حوالدار اور کک کو طلب کیا اور تفتیش کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ پتا چلا کہ کک نے سندھی بریانی کو رنگنے کے لیے جو رنگ استعمال کیا تھا وہ کچا تھا جس کے باعث ہم سب کو یہ مہلک عارضہ لاحق ہو ا تھا۔سی او کے بیٹ مین نے بھی بچے کھچے چاولوں پر ہاتھ صاف کیا تھا اس لیے وہ بھی اس کی زد میں آ گیا۔ دو تین روز کے بعد پیشاب کا رنگ تو سفید ہو گیا لیکن ہم نے دوبارہ بریانی کھانے کا خطرہ کم کم ہی مول لیا۔

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply