دس کا ایک۔۔ربیعہ سلیم مرزا

کتنی عجیب بات ہے ۔
جس رات مجھے نیند نہ آئے ,اس رات میں سمجھ بھی نہیں پاتی کہ” جاگ کیوں رہی ہوں ۔”؟
بستر سے اٹھ کر صحن میں آجاتی ہوں ۔موبائل چارجر پہ چھوڑ دیتی ہوں ۔
ارشد اٹھ گئے تو وہ مجھے بیڈ پہ نہ پاکر موبائل کو ضرور دیکھے گا ۔
ساری وفائیں اس ہاتھ بھر کے آلے سے جڑ گئی ہیں ۔
آج کی بیاہتا زندگی فون کیوں نہیں اٹھایا, اور فون کیوں کیا ؟پہ آکے رُک سی گئی ہے ۔
پتہ نہیں میں صحن میں آکر ہی یہ سب کیوں سوچتی ہوں ۔؟
ازدواجی زندگی میں کوئی کمی بیشی نہ ہو تو روٹین ہی کھانے لگتی ہے ۔
ایسا نہ ہوا کہ ایک عشق ہی کر مر لیتی ۔؟
اللہ میاں کی گائے جس کھونٹے باندھی بندھ گئی ۔ارشد بہت اچھا ہے ۔شیخوں میں ایک خوبی تو ہے ۔گاڑی اور بیوی سنبھالنا جانتے ہیں کہتے ہیں “میں کار کی حالت دیکھ کر سمجھ جاتا ہوں کہ گھر میں بیوی کا حال کیا ہوگا ۔”
جمعہ کو یاد سے سروس اسٹیشن سے گاڑی دھلواتے ہیں ۔مجھے نہیں یاد کہ میں نے جمعے کی نماز نہائے بغیر پڑھی ہو ۔
رخصت ہوتے وقت منجھلی خالہ کہنے لگی
“کاکو, مرد کی محبت کا سسٹم بہت سادہ ہوتا ہے ۔جب خود پاس بلائے تو فوراً  پاس نہیں جاتے ۔مصروف نظرآؤ, نخرہ کرو ۔اور جب نہ بلائے تو اس پہ سوار ہوجاؤ۔ ”
مگر میرے ساتھ تو ایسا ہوا ہی نہیں ۔نہ اس نے بلایا ,نہ میں گئی,پہلے دن سے ہی دن طے ہوگئے ۔
بالکل ایسے جیسے چھ تاریخ کو کمیٹی دینی ہے ۔ہر دوسرے جمعے امی کی طرف جانا ہے ۔قسطیں ختم ہوتے ہی گاڑی بدل لینی ہے ۔
میکے جاکر خوشی آدھی رہ جاتی ہے جب بھابھی بتاتی ہے کہ “آج ارشد نے آنا تھا ۔اس لئے قورمہ اور متنجن بنایا ہے ”
نفرت ہوگئی ہے متنجن سے ۔زندگی میں کہیں کوئی سرپرائز ہی نہیں رہا ۔

خالی صحن میں یونہی گملوں کو دیکھنے لگی ۔صحن میں ہر طرف گند بکھرا ہوا تھا ۔ گیٹ مرمت کرنے والے آئے تھے۔رات گئے تک کام کرتے رہے ۔
زمین پہ ٹوٹا نہیں ایک پورا سگریٹ پڑا ہوا تھا ۔ارشد سگریٹ نہیں پیتے ۔
بلکہ ان کے ہاں کوئی بھی نہیں پیتا۔
کام والوں کا گرگیا ہوگا ۔۔
میں نے سگریٹ اٹھالیا ۔
کچن میں آکر چولہا جلایا ۔سگریٹ سلگایا۔کھانسی کا جھٹکا سا لگا ۔
صحن میں آکر دھیرے سے کش لگایا ۔
کتنا اچھا لگتا ہے سگریٹ پینا ۔بدمعاش بدمعاش فیل ہوتا ہے,میں نے اسٹائل بدل کر کش لیا ۔
دوانگلیوں کے سرے پکڑ کر ،مٹھی بند کرکے ۔زندگی میں بدلاؤ سا آگیا مگر سگریٹ ختم ہوگیا ۔۔۔
“تم سگریٹ پی رہی ہو “؟
ارشد نے کی حیرت زدہ آواز نے مجھے ڈرا ہی دیا ۔۔۔
“نہیں ۔یہ۔ ۔یہاں پڑا ہوا تھا “میں ہکلا کر رہ گئی
“چلو, اندر آؤ, باہر گرمی ہے چار گھنٹے رہ گئے ہیں ۔اے سی بند کرنے میں ۔میرے اکیلے کیلئے چل رہا ہے ”
میں چپ چاپ کمرے میں آکر لیٹ گئی ۔

صبح ارشددکان پہ گئے کام والی کل ہی کہہ کر گئی تھی کہ اس نے آج نہیں آنا, میں جھاڑو لیکر صحن میں جٹ گئی ۔
سگریٹ کے ٹوٹے دیکھ کر رات والی بات یاد آگئی
“ارشد کیا سوچتے ہوں گے “یہ سوچ کر خود ہی مسکرادی ,رات کو آئیں گے تو بات کرونگی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“شام کو ارشد آئے ۔آم لائے تھے ۔آتے ہی مجھے شاپر پکڑایا ۔معمول کے مطابق باتھ روم میں گھس گئے ۔
میں آم دھوکر فریج میں رکھنے لگی تو آموں کے بیچ سگریٹ کا پیکٹ دیکھ کر حیران رہ گئی ۔
آم دھوکر رکھے پھر سگریٹ پکڑلئے, اتنی دیر سکتے میِں کھڑی رہی جب تک ارشد باتھ روم سے باہر نہیں نکل آئے ۔میرے ہاتھ میں سگریٹ دیکھ کر دھیمے سے مسکرائے ۔
ایک سو اسی کی ڈبی ہے ۔ایک ایک خریدو تو دس کا دیتے ہیں ۔مہنگا پڑتا ہے ,اس لئے ڈبی لے آیا ہوں ۔ویسے تم روز کے کتنے پیتی ہو “؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply