وزیراعظم میاں شہباز شریف۔۔طیبہ ضیاچیمہ

امریکہ میں مقیم خان کے سچے عاشق امریکی شہریت پر لعنت بھیج کر فوری طور پروطن لوٹ آئیں، خان کی حکومت گرانے والے دشمن ملک سے اب کھلی جنگ ہو گی۔ پر کیتھوں ؟ شاہ محمود قریشی نے پوری اہل یوتھ کو امریکہ دشمن نعروں پر لگا دیا اور خود کہتا ہے میں ذمہ دار عہدہ پر ہوں میں غدار امریکہ یا امریکہ مردہ باد نہیں کہہ سکتا۔

یہ وضاحت نہیں کہ اگر امریکہ نے 7 مارچ کو انہیں دھمکی بھجوائی تھی تو پھر انہوں نے 21 مارچ کو اسلام آباد میں او آئی سی کانفرنس میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ کو کیوں بلایا؟ اور شاہ محمود قریشی امریکی نائب وزیر خارجہ کے ساتھ کس خوشی میں دانت نکال رہے تھے؟ سادہ لوح عوام کوجذباتی بلیک میل کرنے کے دو ہی ہتھکنڈے ہیں “مذہب اور امریکہ”۔۔

شاہ محمود قریشی کے امریکی عہدیداروں کے ساتھ دیرینہ ذاتی تعلقات ہیں، موصوف نے اپنے بیٹے کو امریکی عہدیداروں کے ساتھ انٹرن شپ کی سفارشی بھرتی بھی کرائی جاب دلائی۔ اب جب دھمکی کی سیاست شروع ہوء تو موصوف بیرون ملک دوروں پر غائب ہیں۔ یہ دھمکی ملی بھگت ہے کہ خان گھر جائے اور موصوف پارٹی پر قابض ہو سکیں جو کہ ان کی روز اوّل سے خواہش اور منصوبہ بندی چلی آرہی ہے۔

خان صاحب تسی تے تہاڈی ٹیم فرشتے باقی سب چور تے ڈاکو؟ تکبر اور خوش فہمی لے ڈوبتی ہے۔ ہمارے ایک صحافی بھائی سجاد اظہر اپنے کالم میں حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ” 2013 کے انتخابات ہوئے تو اپنی انتخابی مہم سے پہلے عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں انہیں نیویارک میں تحریک انصاف کے پہلے بانی کارکن محمود احمد نے نیویارک کے ساؤنڈ ویو سٹوڈیو میں ایک استقبالیہ دیا تھا۔

استقبالیہ میں شرکت کے موقع پر وہ اس میز پر آ کر بیٹھ گئے تھے جہاں میرے ساتھ نیویارک میں موجود کالم نگار طیبہ ضیا چیمہ بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس ملاقات میں انہوں نے نہ صرف سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنی ملاقاتوں کا اعتراف کیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے امریکیوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان جنگ میں میری پارٹی ان کی کیا مدد کر سکتی ہے۔

میں نے اور طیبہ ضیا چیمہ نے اس گفتگو سے ایک قیاس یہی لیا تھا کہ انہیں کلیئرنس لینے کے لیے پاکستانی حکام نے خود امریکہ بھیجا ہے۔ بعد میں جب انتخابی نتائج آئے تو ان کی جماعت ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں تو دوسرے نمبر تھی لیکن قومی اسمبلی میں جیتی گئی سیٹوں میں تیسرے نمبر پر آئی تھی”۔۔ عمران خان کی حکومت گھر گئی مگر جاتے جاتے وہی گھسا پٹا مذہبی اور امریکی کارڈ استعمال کر گئی۔

خان کی ممی ڈیڈی احتجاج والیاں امریکی بیگ جوتے میک اپ لگا کر مظاہرہ کرنے پہنچ جاتی ہیں۔ مذہبی اور امریکی کارڈ استعمال کرنے والا جو بھی ہو اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈیلیور نہیں کر سکا اور قوم کو بلیک میل کر رہا ہے۔ امپورٹڈ گاڑیوں پر امپورٹڈ حکومت کے خلاف احتجاج؟ بائڈن سے پہلے بش اور کلنٹن کے پتلے بھی نذر آتش ہوچکے لیکن مصنوعات سب کوامپورٹڈ ہی پیاری ہیں۔

عمران نے زندگی بھر امپورٹڈ عورتیں اور مصنوعات استعمال کیں۔۔ اپنے پتر فرنگیوں کی غلامی میں محفوظ ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا بیٹا امریکہ کا نوکر ہے۔ یہ سب امریکی غلام ہیں پوری قوم امریکہ بھاگنے کو تیار بیٹھی ہے۔ سر درد کی دوائی وٹامن تک امریکہ سے منگوا کر کھاتے ہیں اور سب سے بڑے منافق تو وہ امریکی سپورٹر ہیں جو خان کے خلاف سازش ناکام بنانے کے لئے امریکہ کو لات مار کر پاکستان نہیں آرہے۔

کل فوج کے صدقے واری جانے والے آج فوج کے خلاف غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں۔ اقتدار پانے کے لئے تمام ادارے مقدس ہوتے ہیں اقتدار چھن جائے تمام ادارے غلیظ ہو جاتے ہیں؟ اگر اقتدار کو انعام سمجھا جائے تو چار باریاں لینے والے نواز شریف کے عمرے حاضریاں زیادہ مقبول سمجھی جائیں ؟ اقتدار آزمائش ہے بلکہ کبھی تو عبرتناک سزا ہے۔

نہ مساوی انصاف نہ تعلیم نہ صحت نہ روزگار نہ میرٹ اورمواقع مل سکے، سب کو فقط پاور چاہئے اور بار بار چاہئے؟ ڈاکٹرعافیہ کو آزاد کرا نہ سکے پاکستان کوآزاد کرائیں گے؟ کئی آئے کئی گئے کئی آئیں گے کئی جایئں گے، پاکستان کسی کا محتاج نہیں، سب پاکستان کے محتاج ہیں، رب سدا سلامت رکھے آمین۔ صحافی اپنا میڈیا اپنا شیروانی اپنی کفن اور قبر اپنی اپنی پھر لڑائی کیسی انتقام کیسا؟ جو بوئے گا وہی کاٹے گا، رہے نام اللہ کا۔

فوج کے خلاف پہلے اپوزیشن ہزیانی بولتی تھی اور PTIصدقے واری جاتی تھی اب PTI وہی کچھ کر رہی ہے اور اپوزیشن صدقے واری جا رہی ہے، مرضی کافیصلہ آئے رب کا فیصلہ؟ مرضی کے خلاف فیصلہ آئے ” امریکہ کا فیصلہ “؟ واہ بندیاتیری بکل دے وچ چور۔ “رعونت میں میں عقل کل “رب کو پسند نہیں۔ خود احتسابی سیکھیں۔ گستاخ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کرتے کرتے رضوی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر خان بضد تھا کہ ایسا کیا تو یورپ سے تعلقات خراب

ہوں گے جس سے معاشی نقصان ہو گا۔ بے نظیر کی فیک وصیت کو زرداری نے کیش کرایااور مشکوک خط خان کیش کرائیگا۔ یہ ہے بد نصیب پاکستان کی قسمت۔ شہباز شریف نے شیروانی نہیں پہنی تھی لیکن عمران خان کی بھی اتروا کے دم لیا۔ اب شہباز شریف نے شیروانی پہن لی ہے تو اپنا 20 برس پرانا جملہ یاد آگیا جب شہباز شریف کینسر کی وجہ سے نیو یارک ہسپتال داخل تھے اور ہم نے انہیں امید دلائی کہ جلد صحتمند ہو جایئں ایک روز آپ وزیراعظم ہوں گے۔

2002 امریکہ سے عمرہ کے لئے گئی ہوئی تھی۔ مرحوم مجید نظامی صاحب سے مکہ معظمہ سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے مجھے میاں صاحبان کی خیریت دریافت کرنے کو کہا۔ بزرگوں کا حکم بجا لاتے ہوئے دوبارہ مدینہ منورہ پہنچی۔ نواز شریف شہباز شریف اور بیگم کلثوم سے ہماری وہ پہلی ملاقات تھی۔ جلا وطنی میں اس خاندان کی ہمدردی میں متعدد کالم لکھے۔

میاں نواز شریف میاں شہباز شریف اور بیگم کلثوم نواز سے مدینہ منورہ میں ملاقات اور ان کے جلا وطنی کے بعد پہلے تفصیلی انٹرویو نے مجھے ان لوگوں کو جاننے کا موقع دیا۔ مدینہ منورہ کی ملاقات میں غیر سیاسی تعلق بن گیا۔ اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد میاں شہباز شریف کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا اور علاج کے لئے نیو یارک آنا پڑا۔ ہمارا ان سے رابطہ ہوا اور مدینہ کی ملاقات کے حوالہ سے میاں شہباز شریف کے دوران بیماری ان سے اور ان کی فیملی سے رابطے میں رہے۔ یاد رہے کہ وہ دور میاں صاحبان کے زوال کا دور تھا اور آج جب اقتدار میں ہیں تو ہم ان کے خلاف بھی کھل کرلکھتے ہیں۔

تعلق مدینہ منورہ سے بنا تھا اور مدینہ والے کے صدقے حکمرانوں کی خامیاں بھی کھلے دل سے لکھتے رہیں گے۔ میاں شہباز شریف سے قطعی غیر سیاسی تعلق ہونے کی وجہ سے ہر بار ملاقات ہوتی رہی۔ لیکن جہاں تک سیاست اور مسلم لیگ جماعت کا تعلق ہے نواز شریف کے اطراف بھی کرپٹ اور دو نمبری لوگ جمع رہتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کو سیاستدانوں میں بہتر سیاستدان سمجھا جاتا ہے۔ انہوں پنجاب میں ڈلیور کیا ہے۔ یاد ہے جب شہباز شریف نے کہا تھا کہ مخالفین مجھے شوباز کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ میں سڑکیں اور پل بناتا ہوں او رمجھے تعلیم اور علاج سے کوئی غرض نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمران نیازی دعوے کرتے تھے کہ ہم کے پی کے میں جنگلا بس اور سڑکیں نہیں بنائیں گے بلکہ تعلیم اور صحت کے ادارے بنائیں گے۔ لیکن نیازی صاحب نے کے پی کے میں کوئی اچھی میڈیکل یونیورسٹی، سٹیٹ آف دی آرٹ پتھالوجی لیب اور نیا ہسپتال اور کالج نہیں بنایا۔ پانچویں سال انہیں جنگلا بس کی یاد آئی تو اس منصوبے کے نام پر پشاور شہر کو اکھاڑ کر رکھ دیا۔۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کو بھی رب نے آخر کار شیروانی پہنا ہی دی۔ مبارک ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply