جناح کا پاکستان۔۔سید مہدی بخاری

میں طے نہیں کر پا رہا کہ کون سا دکھ زیادہ بڑا ہے؟ جمہوری بازار میں مچھلی منڈی سجا کر حکومت بنانے و گرانے کا دکھ یا بابائے قوم جناح صاحب کی وراثت اس ملک عزیز کی پامالی کا دکھ؟ ویسے سوال تو یہ بھی ہے کہ کون سے بابائے قوم اور کون سی وراثت؟ وہی بابائے قوم ناں جن کے تصورِ ریاست و حکومت کو ان کی زندگی میں ہی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور خود انہیں بھی ایک آئینی ڈھانچہ سمجھ کر اس پُرفضا قیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا جہاں ہمشیرہ، ایک ذاتی معالج اور چناروں سے ٹکراتی ہوا کے سوا کوئی نہ تھا۔

وہی جناح ناں جس کی تصویر پہلے کرنسی نوٹوں پر چھاپی گئی اور پھر ان نوٹوں سے ضمیر ٹریڈنگ کمپنی کھول لی گئی۔ جناح کیپ بلیک اینڈ وائٹ فلمی دلالوں نے اڑس لی۔ بالآخر اس بے چاری نے بھی قوالوں کے ماتھے پر پناہ حاصل کی۔ ان کی شیروانی بھانت بھانت کے آمروں میں بٹ بٹا گئی۔ ان کے فرمودات تئیس مارچ، چودہ اگست، گیارہ ستمبر اور پچیس دسمبر کے بوسیدہ سرکاری پیغامات اور فرسودہ اخباری ضمیموں کی جیل میں تاحیات قید ہو کر رہ گئے۔

تب سے اب تک کوئی کباڑی جناح کے خوابوں کو نیا پاکستان، کوئی چھابڑی والا انقلابی پاکستان، کوئی کنگلا اسلامی پاکستان اور کوئی دو نمبریا روشن پاکستان کہہ کر بیچ رہا ہے اور پیٹ پال رہا ہے۔ محمد علی جناح کے ساتھ چوہتر برس میں جو سلوک ہوا اس کی روشنی میں جناح صاحب کی ایک ایسی پورٹریٹ تیار کرنے کی ضرورت ہے جو موجودہ پاکستان کے صوتی، بصری و سیرتی تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔

کیسی لگے گی ایسی تصویر جس میں محمد علی جناح کا نصف چہرہ باریش اور نصف کلین شیو ہو؟ سر پر آدھی پگڑی اور آدھی پی کیپ ہو؟ انہوں نے آدھی شیروانی اور آدھی بارودی جیکٹ پہن رکھی ہو اور گلے میں ٹائی بھی ہو۔ دائیں ہاتھ میں آئین پاکستان اور بائیں بغل میں لش پش چمکتی لکڑی کی سٹک، ایک پیر میں چمڑے کا لانگ بوٹ اور دوسرا پیر ننگا؟

بہرحال، آج کا دن زیادہ سوچ بچار کا دن نہیں ہے۔ خود احتسابی کسی اور دن کے لئے ٹال رکھتے ہیں۔ آج بس ملی نغموں کی دھن پر باجے بجانے کی گھڑیاں ہیں۔ قوموں کی زندگی میں جشن کا موقع اس دن آتا ہے جب وہ صحیح معنوں میں اپنے مقاصد، نظریئے اور منزل سے آشنا ہوں۔ ہم تو 74 سالوں سے کبھی اس ڈگر کبھی اس ڈگر بھٹک رہے ہیں اور اندھیرے میں راہ ٹٹولتے کبھی فوجی آمر اور کبھی سیاسی آمر کے پیچھے چلے جا رہے ہیں، چلتے رہیں گے۔ جون ایلیا مرحوم برحق فرما گئے تھے۔

ایسے زخموں کا کیا علاج کروں

Advertisements
julia rana solicitors

جن کو مرہم سے آگ لگ جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply