گورنر پنجاب سے مکالمہ۔۔آغر ندیم سحرؔ

مجھے کالم لکھتے تقریباً دس سال بیت چکے’ان دس سالوں میں سیاسی لوگوں سے ملاقات کی ایک طویل فہرست ہے۔اپوزیشن ہو یا حکومت’ہر طرح کے سیاسی لوگ کسی نہ کسی طرح رابطے میں رہے یا ان سے کم یا زیادہ ملاقاتیں رہیں اور شاید آگے بھی رہیں مگر کچھ لوگوں سے ملاقات آپ کو خوشی بھی دیتی ہے اور اطمینان بھی۔گورنر پنجاب چودھری سرور کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے۔میں سیاسی ملاقاتوں کو ایک بات کا ہمیشہ خیال رکھتا ہوں کہ کسی بھی طرح میرے صحافتی کردار پر کوئی داغ نہ لگے کیوں کہ میں نے شعبہ صحافت میں کبھی کسی طرح کے نہ تو فائدے اٹھائے اور نہ کسی پارٹی کو اس لیے سپورٹ کیا کہ ‘‘لفافہ’’حاصل کر سکوں۔میں چودھری سرور سے ن لیگ کے دور میں بھی ملا’ جب وہ گورنر پنجاب تھے اور ایک مقبول سیاسی آدمی تھے اوران سے تحریک انصاف کے دور میں بھی ملتا ہوں’ان کی سیاسی بصیرت کا ہمیشہ سے قائل رہا ہوں اور اس کی وجہ ان کی دور اندیشی اور سیاسی جدوجہد ہے۔جی ایس پی پلس سٹیٹس کے لیے جیسے انھوں نے دن رات کوشش کی ’وہ بلاشبہ قابلِ تحسین ہے اورراقم نے اس وقت بھی انتہائی تفصیل سے اس موضوع پر کالم لکھا تھا جسے سیاسی و صحافتی حلقوں کی جانب سے بہت پذیرائی ملی تھی۔
میری گورنر سے گزشتہ ون ٹوون ملاقات میں کوئی زیادہ لمبا چوڑا ایجنڈا نہیں تھا’کچھ باتیں تھیں جو ایک طویل عرصے سے میرے ذہن میں تھیں’ان سے کیں۔جیسا کہ عموما ہمارے ہاں ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی کو اتنا نظر انداز کیسے کیا گیا’اگر پنجاب حکومت نے بے تحاشا کام کیا ہے تو اس کے ثمرات کہاں گئے اور لوگوں کے سامنے کیوں نہیں آئے؟۔ میں نے ایک سوال کے جواب میں عرض کی کہ پنجاب حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اور نوجوانوں کے درمیان مکالمے کا خلا ہے جسے آپ ‘‘یوتھ کمیونیکیشن گیپ’’کہ لیں’فیڈرل میں یہ ایسے نہیں ہے۔عمران خان کی آئے روز نوجوان یوٹیوبرز’سوشل ایکٹیوسٹس اور صحافیوں سے ملاقاتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ تنقید سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور مستقبل کی پلاننگ بھی۔گورنر صاحب نے میری اس بات کو سراہا کہ آپ کی بات درست ہے’پنجاب حکومت میں یہ کام ہونا چاہیے کہ نوجوانوں اور حکومت کے درمیان مکالمے کی فضا کو برقرار رکھا جاتا’نوجوانوں کے مسائل سنے جاتے اور ان کے حل کاسوچا جاتا۔میں نے یہ بھی عرض کیا کہ آخری سال کو غنیمت جانتے ہوئے نوجوانوں کے وفود سے ملاقاتیں شروع کی جائیں’ان میں صحافی و یوٹیوبرز کے ساتھ ساتھ شاعروں اور ادیبوں کو بھی شامل کریں’رائٹرز کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ بھی پوچھی اور اس پر بھی زور دیا کہ ایوانِ صدر میں تو ایک آدھ مشاعرہ ہوا مگر گورنر ہاؤس میں’ایوانِ وزیر اعلیٰ میں’یا آپ دونوں کی سرپرستی میں کسی طرح کی ادبی تقریب نہیں ہوئی۔چند کتابوں کی تقاریبِ رونمائی ہوئیں مگر وہ بھی بہت کم۔گورنر صاحب نے میری اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ مشاعروں کا اہتمام ہونا چاہیے تھا جو کہ نہیں ہوا اور اس حوالے سے ہم نے ایک حکمت عملی بھی ترتیب دی۔
‘‘کالم نگری’’ کی تقریبِ رونمائی سمیت سیاسی گہما گہمی پر بھی مختصر مکالمہ ہوا مگر ہمارا بنیادی مسئلہ پنجاب حکومت کی کاکردگی تھا۔اس میں قطعاً دو رائے نہیں کہ ہمارے ہاں نوجوا نوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا مگر تحریک انصاف کی حکومت میں نوجوانوں نے بڑا بنیادی کردار ادا کیا’عمران خان کی جدوجہدمیں اگر کسی جنریشن کا سب سے زیادہ کردار اور عملی کوششیں ہیں تو وہ تحریک انصاف کا یوتھ ونگ ہے۔ہمارے ہا ں تو یہ بھی کہا جاتا ہے عمران خان کو لانے والے نوجوان ہیں’میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے۔عمران خان نے خود بھی نوجوانوں کو جیسے ہر تقریر میں مخاطب کیا’یہ بھی ایک اہم بحث ہے مگر پنجاب حکومت کا نوجوانوں کے ساتھ مکالمے سے بھاگنا’کم از کم میری سمجھ سے باہر ہے۔یوتھ آرگنائزیشنز کے ساتھ رابطہ بحال کیا جانا’یونیورسٹیز اور کالجز کی وہ یونینزجو معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہیں’ان سے مکالمہ شروع کرنا ’وقت کی اہم ضرورت ہے۔پھر ایسے نوجوانوں سے بھی ملاقاتیں کرنا جن کا قلم سے تعلق ہے’سب سے زیادہ ضروری ہے۔
میں نے پچھلے چا سالوں میں یہی دیکھا کہ شاعروں اور ادیبوں کے لیے حکومت کی جانب سے کسی بھی طرح کی بڑی ادبی تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا۔گورنر ہاؤس میں تقریبات میں ہر طرح کے لوگوں کے مدعو کیا جاتا ہے مگر شاعروں ’ادیبوں اور نوجوان صحافیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔میں نے اس بات کا بھی شکوہ کیا کہ ایسا کیوں ہے؟قلم کار تو اس معاشرے کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے’معاشرے کے خدو خال بنانے اور سنوارنے میں قلم کاروں کا کردار کسی بھی طرح سے کم نہیں ہوتا۔اگر مجھ سے پوچھیں تو صحافیوں سے کہیں زیادہ کردار ادیبوں کا ہوتا ہے جو معاشرتی صورت حال کی عکاسی اپنی شاعری یا فکشن میں کر رہے ہوتے ہیں مگر افسوس یہی رہا کہ حکومتی اعزازت ہوں(پنجاب سطح کے)یا سرکاری تقریبات’یا تو قلم کاروں کو مدعو ہی نہیں کیا جاتا یا پھر ادیبوں کا ایک مخصوص گروہ قابض ہے اور انھیں پر نوازشیں جاری ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ گورنر پنجاب نے میرے سارے شکووں کو سنا اور ان کے حل کی یقین دہانی کرائی بلکہ بہت سے احکامات تو میری موجودگی میں جاری کیے ۔ میں اس لیے بھی مطمئن ہوں کہ گورنر پنجاب چودھری سرور کا شمار بلاشبہ ذہین اور زیرک سیاست دانوں میں ہوتا ہے’پارٹی سے ہٹ کر بھی ان کی سیاسی و سماجی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ’سرور فاؤنڈیشن اس کی عمدہ مثال ہے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب فردوس عاشق اعوان وزیر اطلاعات تھی’مجھے کہا گیا تھا کہ نوجوان قلم کاروں کی ملاقات کروائیں’نوجوان یوٹیوبرز سے ملاقاتیں شروع کروائیں مگر وہ معاملہ بھی ایک دن کھائی میں چلا گیا۔اب گورنر صاحب نے یہ حامی بھری ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ گورنر صاحب اگر ‘‘یوتھ کمیونیکیشن گیپ’’ختم کر دیں تو پنجاب حکومت کی کارکردگی مزید بہتر ہو سکتی ہے۔کیوں کہ اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ سوشل میڈیا کا دور ہے’اس ڈیجیٹل دور میں کم از کم ڈیجیٹل لوگوں سے رابطے بحال کرنا ہوں گے تاکہ ترقی کے ثمرات سب کے سامنے آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply