مذہبی بلیک میلنگ۔۔طیبہ ضیاء چیمہ

بیوی بڑی کام کی چیز ہے۔شوہر کی کامیابی میں بیوی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کوئی مری ہوئی بیوی کا نام لیکر صدر بن گیا۔ کسی نے بیمار بیوی کے نام پر سزا سے بچنا چاہا۔ کوئی بیوی کے وظائف سے وزیراعظم بن گیا۔ عقلمند اور روحانی وہی قرار پایا جاتا ہے جو بیوی کو مرشد و مسیحا مان لے۔ ہر کامیاب مرد کے پیچھے بیوی ہے اور ہر برباد تباہ حال کے پیچھے بھی بیوی ہے۔ بیوی نما مخلوق گھر لاتے ہی توہم پرستی کا آغاز ہو جاتاہے۔جب دلہن اپنے سسرال پہنچتی ہے تو دلہا اور دلہن کو گھر میں داخل ہونے سے پہلے روک لیا جاتا ہے۔ پہلے تیل کو سر پر سے وارا جاتا ہے اور پھر وہ تیل دروازے کے دونوں کونوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اس سے یہ شگون لیا جاتا ہے کہ دلہن کے قدم خیر وبر کت کا سبب بنیں۔۔دلہن کی رخصتی کے وقت دلہن کے ایک برتن میں چاول دیے جاتے ہیں جو وہ گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے اپنے پیچھے پھینکتی ہے اس کے پیچھے یہ خیال ہے کہ دلہن اپنے ماں باپ کارزق انہی کے گھر چھوڑے جا رہی ہے اور ساتھ کچھ نہیں لے کر جا رہی۔ قرآن کے سائے تلے بیٹی کو رخصت کرنے کا ایک یہ بھی تصور پایا جاتا ہے کہ اس سے اس کی آنے والی زندگی خوشگوار گزرے گی۔توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی سیاستدانوں میں نئی بات نہیں۔سیاست میں مذہبی کارڈ جنرل ضیا الحق کے بعد سب سے زیادہ خان صاحب استعمال کر رہے ہیں۔سیاستدان بھی اس کمزوری سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ عوامی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے کسی نہ کسی درگاہ پر پہنچے نظر آتے ہیں۔خان صاحب اس حمام میں اکیلے نہیں ہیں۔ زرداری صاحب نے اپنے مرشد کو ایوان صدر میں ہی مستقل ٹھکانہ دیا ہوا تھا۔ وہ ہر روز مرشد کے مشورے سے ہی معمولات سرانجام دیتے۔ بلکہ اکثر اوقات تو عجیب و غریب معاملہ بھی بن جاتا کہ مرشد انہیں کراچی میں قیام کا مشورہ دیتے تو زرداری صاحب اہم حکومتی فرائض چھوڑ کر سمندری پانی کی قربت سے بلاؤں کو ٹال رہے ہوتے۔ ایوان صدر سے رخصت ہوتے ہوئے ان کی گاڑی کو دم کرنے کی تصویر تمام ملکی اخبارات میں چھپی تھی۔ اسی طرح زرداری صاحب اپنی منت پوری ہونے پر سرکاری خرچے اور پروٹوکول سے بھارت اجمیر شریف کی درگاہ بھی گئے تھے۔ سنا ہے یہی پیر صاحب اس سے پہلے صدر مشرف کو بھی فیضیاب کرتے رہے۔ نواز شریف اور بے نظیر دونوں ایک ہی پیر سے چھڑیاں کھا کر حکومت کے حصول کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، فیصل صالح حیات اور دیگر کئی سیاستدان تو خود گدی نشین ہیں۔ جیسے ہی عرس وغیرہ کا موقع آتا ہے تو یہ سب روایتی پگڑیاں پہن کر نذرانے وصول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جن کو اپنی سیاست چمکانی ہوتو وہ خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں۔ حتی کہ ملک کو چلانے کی ذمہ داری تک اٹھانے کا وعدہ کر بیٹھتے ہیں۔ اپنے سیاسی جلسے جلوسوں کو “حسینی لشکر” قرار دینے سے نہیں چوکتے اور تمام مخالفین کو “یزیدی”۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یزیدیوں سے معاہدہ کرنے میں بھی برائی محسوس نہیں کرتے۔ ہماری سیاست کے روپ نرالے ہیں اور سیاستدان انتہائی خوش قسمت۔ جب چاہیں جو چاہیں روپ دھار لیتے ہیں اور عوام کو مذہبی بلیک میل کرتے ہیں۔بھولے بھالے عوام انہیں ہر روپ میں سرآنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں۔ان کا ماضی حال سب بھول جاتے ہیں اور پھر سے اعتماد کر لیتے ہیں۔ آج بھی ہمارے بڑے بڑے لیڈر توہم پرستی کا شکار ہیں بھٹو صاحب اور نواز شریف کی طرح عمران خان نے بھی اہل سنت کی پچ پر مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی، ماضی میں پی ٹی آئی، عوامی تحریک اور تحریک لبیک کے دھرنوں کو مذہبی کارڈ کے طور پر استعمال کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنانے والی آج کی اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف مذہبی سیاسی جماعت جے یو آئی (ف) کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہیں۔ مذہب کے نام پر سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر کسی کو ٹھیکیدار بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور عوام میں بھی یہ شعور بیدار ہونا چاہیئے کہ مذہب کسی کی جاگیر نہیں بلکہ ہر ایک انسان کا ذاتی عقیدہ ہوتا ہے ، مذہبی کارڈ بطور سیاست استعمال کرنا سراسر مذہبی بلیک میلنگ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ نوائے وقت

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply