بحرین کے بگڑے ہوئے حالات

سعید عثمان
ساری دنیا مسلمانوں کی سادگی سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ کیا امریکہ اور کیا مغرب، کم عقل ملاوں اور لکیر کے فقیر لوگوں کو آگے لگا کر ہمیں مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، ہم لوگ صرف فرقوں میں تقسیم نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے فرقوں کی پرستش بھی کرتے ہیں، ہم کبھی بھی حق یا باطل، صحیح یا غلط کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنا اپنا فرقہ دیکھتے ہیں۔ بات ایران اور سعودی عرب کی ہو تو ہم یہ نہیں دیکھتے کہ بنی نوع انسان اور اسلام کا فائدہ کس میں ہے، صحیح موقف کس کا ہے اور غلط موقف کس کا ہے بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے فرقے کا فائدہ کس میں ہے۔ باقی سب جائے بھاڑ میں۔ دنیا کی مہذب اقوام، انسانی اقدار، انسانی حقوق اور معاشرتی انصاف کی بات کرتی ہیں اور ہم گھوم پھر کر اپنے فرقے کو دوسرے فرقوں پر مسلط کرنے کے لئے زور لگاتے رہتے ہیں۔ دنیا تحقیق کرتی ہے، مطالعات انجام دیتی ہے، کھرے اور کھوٹے کو الگ کرتی ہے اور ہم تحقیق اور مطالعے کے بجائے اپنی فرقہ وارانہ حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
ابھی کتنے ہی عرصے سے بحرین میں خون خرابہ ہو رہا ہے، آئے روز گرفتاریاں ہو رہی ہیں، لوگ مارے جا رہے ہیں لیکن ہمیں یا تو اصلاً خبر ہی نہیں اور یا پھر ہم اسے بھی اپنے فرقے کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ تاریخی اور جغرافیائی طور پر قطر اور سعودی عرب سے 32 کلومیٹر جبکہ ایران کی بندرگاہ بوشہر سے 310 کلومیٹر کے فاصلے پر “بحرین”کے نام سے ایک ایسی مقدس اسلامی سرزمین واقع ہے، جہاں پر انیسویں صدی میں برطانیہ نے ایک بحرینی قبیلے “آل خلیفہ”کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر “آل خلیفہ” خطّے میں برطانوی مفادات کا تحفظ کرے تو اسے بحرین کا حاکم بنا دیا جائے گا۔ یوں بحرین میں آل خلیفہ کی بادشاہت قائم ہوئی اور اس دن سے لے کر آج تک بحرین میں مسلسل “آل خلیفہ”کی بادشاہت قائم ہے۔ اب بحرینی عوام برطانیہ کی بنائی ہوئی بادشاہت کے بجائے جمہوریت چاہتی ہے۔ اس وقت بحرین کی کل آبادی میں سے شیعہ اور سنی ملاکر پچاسی فی صد آبادی جمہوریت کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اگر بحرین میں جمہوریت آتی ہے تو پھر جمہوریت کا مطالبہ سعودی عرب میں بھی کیا جائے گا۔ چنانچہ آل خلیفہ کی بادشاہت کو بچانے کے لئے سعودی فوجیں بحرین میں بھی موجود ہیں اور عوامی اجتماعات کو کچل رہی ہیں۔ جب عرب دنیا میں اسلامی و عوامی انقلاب کی لہر اٹھی تو ایک آدھ دن کے لئے میڈیا نے اپنی نظریں بحرین کے حالات پر بھی جمائیں، لیکن اس کے بعد پھر خاموشی ہے۔ اس وقت بھی بحرینی عوام سڑکوں پر سعودی فوج کے محاصرے میں ہے، لوگ امریکہ و برطانیہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، “آل خلیفہ” عوامی مظاہروں کو “آل سعود”کی طاقت سے کچلنے میں مصروف ہے اور بحرین کے عوامی رہنما شیخ عیسٰی قاسم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کی بحرین کی شہریت منسوخ کر دی گئی ہے۔
آگے چل کر نجانے حالات کیا صورت اختیار کریں گے۔ اب کہا جاتا ہے کہ یہ پچاسی فی صد لوگ شیعہ ہیں، جو بادشاہت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، حالانکہ ان پچاسی فیصد میں اگرچہ شیعہ اکثریت میں ہیں لیکن سنی عوام بھی جمہوریت کے حق میں ہے۔ہم پتہ نہیں کس دور اور کس زمانے کے لوگ ہیں، یہ پچاسی فی صد اگر شیعہ کے بجائے کافر اور کیمونسٹ ہوتے، یہودی ہوتے، بریلوی یا صوفی ہوتے اور ان کی قیادت کرنے والا کوئی شخص شیعہ کے بجائے کچھ اور ہوتا تو پھر بھی ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ حق بات کیا ہے!؟ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے!؟
کیا پچاسی فی صد آبادی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ملک میں فرسودہ بادشاہت کے بجائے جمہوری حکومت قائم کرے!؟ ہمیں فرقہ پرستی کے خول سے باہر کی دنیا کا بھی ایک جائزہ لینا چاہیے، دنیا کہاں تک پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی تک فرقوں کی خاطر بادشاہوں کی غلامی کر رہے ہیں اور دوسروں کو بھی بادشاہوں کی غلامی کرنے کے درس دیتے ہیں۔ بقول اقبال یہ فرقہ پرست نفسیاتی طور پر غلام پیدا ہوتے ہیں اور اپنی تحریروں و تقریروں میں بھی غلامی کی تبلیغ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بادشاہوں کا غلام رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply